کرونا وائرس : اسباب اور ہماری ذمہ داریاں

تحریر :  عتیق الرحمن ڈانگی ندوی 

کرونا وائرس سے متأثرہ افراد کی بڑھتی تعداد نہ صرف تشویشناک صورتحال اختیار کررہی ہے بلکہ ا ب حالات اس رخ کی طرف موڑ لے رہے ہیں اور ان افراد کو بھی یہ بیماری اپنے لپیٹ میں لے رہی ہے جو بیرونِ ممالک سے نہیں آئے ہیں بلکہ یہیں پر مقیم ہیں۔ روز بروز بڑھتی تعداد اس بات کی دعوت دے رہی ہے کہ ہم کسی بھی صورت میں احتیاطی تدابیر کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور ماہرین کے مطابق کچھ دنوں کے لیے ہر گز گھر سے باہر نہ نکلیں۔ اس مرض کا کلی طور پر علاج ابھی دریافت ہونے کی خبریں صرف گردش کررہی ہیں لیکن اس سلسلہ میں کوئی بھی ملک یہ دعویٰ نہیں کرسکا ہے کہ اس نے اس بیماری کا مکمل علاج دریافت کرلیا ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے بڑا علاج احتیاط ہے۔ جو حفظانِ صحت کے لیے انتہائی اہم اصول شمار کیا جاتا ہے۔
کیسے پھیلتی ہے یہ بیماری  : ۔
    اس مرض کے پھیلنے کی مختلف وجوہات سامنے آرہی ہیں جس کا احاطہ نہ صرف دشوار بلکہ مضمون کے طول کا بھی باعث ہے۔ ہمیں ان وجوہات کو سمجھنے سے زیادہ اس کے سدّ باب کے لیے کوششیں کرنی چاہیے۔ دنیا بھر میں پھیلے اس مرض کی وجوہات پر غور کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ متعدی مرض ہے جو منٹوں میں ایک سے دوسرے میں منتقل ہوسکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ مرض اتنا متعدی ہے اور اتنا جلدی لاحق ہوجاتا ہے کہ ہمیں احساس بھی نہیں ہوپاتا کہ یہ مرض ہمارے اندر سرایت کرچکا ہے۔  اس لیے ہر وقت دوری بنائے رکھنے اور دوسروں سے ملنے جلنے سے سختی کے ساتھ کیا جاتا ہے اور آپ جس سے ملاقات کر رہے ہیں کہیں اس سے آپ کے اندر نہ منتقل ہوجائے۔  اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ آئے دن ہم اخباروں میں پڑھ رہے ہیں کہ فلاں تاریخ کو فلاں ہوائی جہاز، ٹرین کے کوچ یا بس سے سفر کرنے والے چوکنا ہوجائیں اور اپنا کرونا ٹیسٹ کروالیں اسی وجہ سے اس ہوائی جہاز، ٹرین یا بس پرمتعلقہ تاریخ کو ایک شخص نے سفر کیا تھا جس کا کرونا ٹیسٹ مثبت یعنی پوزیٹیو آیا ہے۔ جب اس شخص کے ہوائی جہاز، ٹرین کے کوچ اور بس پر سفر کرنے سے یہ مرض لاحق ہوسکتا ہے تو ان امراض میں ملوث افراد سے ملاقات پر بدرجہ اولی منتقل ہوجائے گا۔ 
کیسے پوری ہوں گی گھریلو ذمہ داریاں : ۔
    یہ سوال سب سے اہم ہے کہ اس دوران ہماری معاشی ذمہ داریاں کیسے پوری ہوں گی۔ ایک گھر کے ذمہ دار شخص ہونے کے ناطے اس پر بہت سی ذمہ داریاں ہوتی ہیں جس کو پورا کرنے کے لیے وہ ہر وقت فکر مند رہتا ہے۔ اس مرض کے پھیلتے ہی آج حصولِ معاش کے تمام ذرائع مسدود ہوگئے ہیں اور کہیں سے بھی کوئی راستہ نظر نہیں آرہا ہے۔ اب انہی لوگوں کو آگے آنے کی ضرورت ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے مال ودولت سے نوازا ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں اور اہلِ خاندان کی ضروریات پوری کرنے کی فکر کریں۔اور یقینا یہ حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ جب اس نے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے تو عوام کو کھانے کی بھی اشیاء فراہم کرے یا اس کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔ جن کے پاس وسائل ہیں وہ کسی  نہ کسی طرح اپنے اناج کا بندوبست کرسکتے ہیں لیکن جومزدور اور خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افرادہیں ان کے لیے بڑے مسائل ہیں جس کے لیے حکومت نے بھی ایک لائحہ عمل تیار کرلیا ہے جس پر عمل درآمد جلد از جلد پورے نظم ونسق کے ساتھ ضروری ہے تاکہ کسی طرح لوگوں کو پریشانی نہ ہوں۔ 
استغفار اور صدقہ کی کثرت  : ۔
    اللہ رب العزت کی نافرمانیاں جب کھلے عام ہونے لگتی ہیں اور انسانیت اپنے خالق ومالک کو بھول کر زندگی گذارنے لگتی ہیں تو وہ اپنے بندوں کو آزمائش میں ڈالتا ہے، یہی وہ موقع ہوتا ہے کہ اپنے ر ب سے اپنے تعلقات مضبوط کریں اور استغفار کی کثرت کریں۔ قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اسی لیے آزماتا ہے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں،سچے دل سے توبہ و استغفار کریں اور اسی کے ہو کر رہ جائیں۔ اس سلسلہ میں دوسر ی سب سے اہم چیز صدقہ کی کثرت ہے۔ صدقہ سے اللہ تعالیٰ بلاؤں اور آفات کو ٹالتا ہے اور یہ گناہوں کی معافی کا بھی ذریعہ ہے۔ حدیث شریف کی روشنی میں یہ بات ہمیں ملتی ہے کہ صدقہ گناہوں کو اس طرح ختم کرتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھادیتا ہے۔ 
    اس لیے ان ایام میں ہمیں سب سے زیادہ اللہ کی طرف رجوع ہونے اور حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دینے کے متعلق فکر مند ہونے کی ضرورت ہے۔ 

«
»

گودی میڈیااورصحافت کے عصری تقاضے

اے صاحب ایمان ! تیری سادگی پہ رونا آیا !!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے