ذوالقرنین احمد بتایا جارہا ہے کہ پوری دنیا کو کورونا وائرس نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے کورونا وائرس ہمارے ملک میں چائینہ سے آیا ہو یا پھر اسکی حقیقت ہمارے ملک میں نہ ہو لیکن عین اس وقت یہ وبا پھیلی ہے جس وقت فرقہ پرست حکومت کے ظالمانہ قانون اور […]
بتایا جارہا ہے کہ پوری دنیا کو کورونا وائرس نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے کورونا وائرس ہمارے ملک میں چائینہ سے آیا ہو یا پھر اسکی حقیقت ہمارے ملک میں نہ ہو لیکن عین اس وقت یہ وبا پھیلی ہے جس وقت فرقہ پرست حکومت کے ظالمانہ قانون اور ملک کے سسٹم آئین کے ساتھ ہورہے ہیں کھلواڑ کے خلاف عوام متحد ہوکر سڑکوں پر اتر کر احتجاج کر رہی تھی اور حکومت سے ملک کی گرتی معیشت کیخلاف سوال کر رہی تھی ۔ بلا مذہبی تفریق کے انصاف پسند لیڈر اور سماجی تنظیموں کے کارکنان متحد ہوکر ظالم حکومت کے خلاف ملک کی جمہوریت کو بچانے کیلے صدائے احتجاج بلند کر رہے تھے۔ جب حکومت کو اپنی نیا ڈوبتی دیکھائی دے رہی تھی اور کورونا وائرس کی آمد نے حکومت کو موقع فراہم کیا اور پھر اسکے پس پردہ حکومت کی تمام ناکامیاں چھپ گئی، اور اب حکومت کو ایک سنہرا موقع مل گیا کورونا وائرس کے نام پر لاک ڈاؤن جاری کرکے ڈر کا ماحول پیدا کرکے اسے اپنے مفادات کیلے استعمال کیا جارہا ہے۔
مارچ سے تین مہینے کے لاک ڈاؤن کو ختم کرنے کے بعد حکومت نے دھرے دھیرے سب کچھ کھولنے کی اجازت دی اور پھر کہا کہ ہوسکتا کہ کورونا وائرس کبھی ختم نہ ہو، عوام کو کہا کہ کورونا وائرس کے ساتھ رہنا سیکھیں۔ پہلے مرکزی حکومت نے سلسلہ وار لاک ڈاؤن کھولنے کیلے گائیڈ لائنز جاری کی جبکہ کورونا وائرس متاثرین کی تعداد تیزی بڑھتی جارہی تھی اور اب وہ تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی ہے۔ پھر مختلف ریاستوں نے لاک ڈاؤن میں اضافہ کیا، مہاراشٹر حکومت نے بھی مزید ایک مہینے کا لاک ڈاؤن بڑھا دیا اور اب ضلع کے پالک منتری، ضلع کلکٹر، ضلع میں ۱۵ دن یا ۱۰ دن کہی ایک ہفتہ تین دن کیلے کرفیوں نافذ کر رہے ہیں۔ جبکہ ریاست میں پہلے سے لاک ڈاؤن نئی گائیڈ لائنز کے ساتھ جاری ہے۔ پھر ضلع ایڈمنسٹریشن کو الگ سے لاک ڈاؤن لگانے کا کیا مطلب ہے۔
ریاستی حکومت ان لاک بگن اگین پروگرام کے تحت ہوٹلیں ، ریسٹورنٹس، مال، دوکانیں، وغیرہ کھولنے کی اجازت دے رہی ہے۔ ٹو وہیلر پر ایک سے زائد افراد کے سوار ہونے پر جرمانہ وصول کیا جارہا ہے، ضلع بارڈر پر چیک پوسٹ لگا دی گئی ہے۔ شہروں میں جگہ جگہ پولس اور نگر پریشد کے اہلکاروں کو تعینات کیا جا رہا ہے۔ دوبارہ اتنی سختی سے لاک ڈاؤن کا کیا مطلب ہے۔ ان تمام مسائل کا شکار عام عوام یومیہ اجرت پر کام کرنے والے غریب مزدور ہورہے ہیں۔ یہ سب کیا کھیل چل رہا ہے۔ کوئی کورونا وائرس کا متاثر مریض ابتک سڑک پر تڑپ کر نہیں مرا، جب کورونا اتنے تیزی سے بڑھ رھا ہے تو ہاسپٹل میں تو مریضوں نے خود ہوکر جانا چاہیے تھا۔ جیسے کچھ سال پہلے چکن گنیہ چمکی بخار، بیماری آئی تھی تب ہسپتال بھرے پڑے تھے۔ لیکن سرکاری اسپتالوں کے سوا پرائیویٹ میں ایسے کوئی مریض جانے تیار نہیں یا پھر پرائیویٹ میں لیا ہی نہیں جاتا اور سرکاری میں خوف کے مارے لوگ جانے تیار نہیں ہیں۔ اور جائیگے بھی کیسے کیونکہ جو خبریں آرہی ہے وہ بڑی دل دہلا دینے والی ہے مرنے والے کے رشتے داروں کو رپورٹ نہیں دی جارہی ہے باڈی نہیں دی جارہی ہے۔ خود ہاسپٹل والے لے جاکر گڑھے میں پھینک رہے ہیں۔ حکومت کب سے اتنی مہربان ہوگئی ہے جو عوام کا اتنا خیال رکھ رہی ہے۔ جہاں ملک میں عوام کو اپنے حقوق تک نہیں ملتے جہاں سرکاری آفسوں میں بغیر رشوت کے کام نہیں ہوتے یہ حکومت کو اتنی دلچسپی کیوں ہے کورونا مریضوں سے۔ سوچنے کی بات ہے کئی ایسے غریب عوام روزانہ بھوک اور دوسری خطرناک بیماروں سے مر جاتے ہیں جنکے پاس علاج کیلئے پیسے نہیں ہوتے ہیں اگر حکومت اتنی مخلص ہے تو بے روزگار نوجوانوں ، عام مزدوروں کو روزگار فراہم کرنے کیلے، مریضوں کے علاج کیلے کیوں نہیں فکر مند ہے۔
یہ سب ایک کاروبار بن چکا ہے جب تک حکومت کو اپنی ناکامیوں اور مفادات کیلے کورونا وائرس کا خوف دکھا کر استعمال کرنا ہوگا اس وقت تک یہ وائرس ملک میں ایسے ہے پھیلتا رہے گا اور جب حکومت اپنے ناجائز عزائم کو پورا کرلیں گی تو کورونا وائرس ایک دم سے ختم ہوجائے گا۔ اب بھی عوام کو چاہیے کے کورونا وائرس سے متعلق ٹی وی پر آرہی خبریں دیکھنا اور پڑھنا چھوڑ دے اپنے ذہن کو پرسکون رکھنے کیلے کورونا وائرس کو بھول جائیں۔ ورنہ کورونا وائرس ہو نہ ہو لیکن آپ ذہنی تناؤ کا شکار ہوجائیں گے۔ اس لیے آزادنہ ماحول میں رہے ہیں کورونا وائرس کے خوف کو اپنے آپ اور اپنے خاندان معاشرے پر طاری نہ ہونے دے۔ مصلحتا حکومت کی گائیڈ لائن پر عمل کرے تاکہ آپ کو بے وجہ جرمانہ ادا نہ کرنا پڑے۔
م
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں