کورونا: مرض یا عذاب

ابوسعید ندوی

بیٹی! تمھیں کچھ نہیں ہوگا،تم بہت جلد ہمارے ساتھ رہو گی،یہ تو کچھ ہی دنوں کی بات ہے،یہاں کی نرسیں تمھارا خیال رکھیں گی تمھیں کسی بھی چیز کی پریشانی ہو تو ان سے کہنا،
*لخت جگر!*  اس دوران میں تم اللہ کا خوب سے خوب ذکر کرنا،اپنے پیارے اللہ کو منوا کر اس بیماری سے چھٹکارا پانا اور پھر خوشی خوشی گھر لوٹنا۔

یہ باتیں اس شفیق ماں کی زبان سے نکل رہی تھیں جس کا دل اپنی بیٹی کی کورونا پوزیٹیو رپورٹ آنے کے سبب ٹوٹ چکا تھا اور اس کے سامنے یہ وسیع و عریض  دنیا اپنی بیٹی کی حالت زار کو دیکھ کر تنگ ہورہی تھی۔
ماں کی باتیں سن کر بیٹی نے جو کہا وہ قابل غور اور ہم سب کیلیے عبرت کا تازیانہ ہے۔
بیٹی نے بڑی بے پروائی سے کہا: مما! آپ فکر نہ کریں،مجھے یہاں کسی چیز کی فکر نہیں ہے بس آپ میرے لیے ایک ٹیب کا انتظام کریں تاکہ اس کے ساتھ میرا وقت خوب گزرے اور اس کو استعمال کرکے میری بوریت دور ہوجائے۔اب مجھے ٹیب کے بغیر سکون ہی نہیں ملتا۔

قارئین کرام! آپ اندازہ لگائیں کہ اس نفسا نفسی میں بھی ہماری نسل جدید ٹیکنالوجی کو کتنی اہمیت دیتی ہے اور کس قدرتمام ترجیحات پر اس کو مقدم رکھتی ہے اور مزید یہ کہ اس وبائی مرض کا علاج اور درد کا درماں کہاں تلاش کررہی ہے۔العیاذ باللہ
تن ہمہ داغ داغ شد

«
»

قوم کے نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کی ضرورت

کورونا وائرس کی وبا اور ماہِ رمضان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے