عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ پچھلے دو ہفتوں سے اچانک لاک ڈاون کی پریشان کن صورت حال کے سبب پورا ملک بالخصوص مزدور و غریب طبقہ، جس وحشت ناک وسنگین دور سے گزر رہا ہے، وہ جگ ظاہر اور ''عیاں را چہ بیاں '' کا مصداق ہے۔ان ناگفتہ بہ حالات میں میڈیا کی دوہری ذمہ […]
پچھلے دو ہفتوں سے اچانک لاک ڈاون کی پریشان کن صورت حال کے سبب پورا ملک بالخصوص مزدور و غریب طبقہ، جس وحشت ناک وسنگین دور سے گزر رہا ہے، وہ جگ ظاہر اور ''عیاں را چہ بیاں '' کا مصداق ہے۔ان ناگفتہ بہ حالات میں میڈیا کی دوہری ذمہ داری تھی کہ وہ ملک کی حقیقی تصویر لوگوں کے سامنے پیش کرتا،مختلف مسائل سے جوجھ رہی انسانیت کے دکھ درد کامداویٰ کرتا،اس کے زخموں پر مرہم رکھتا،ظلم کی چکی میں ناحق پسنے والوں کی بپتا سنتااور اسے منظر عام پر لاتا، مزدوروں کے مصائب و مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کرتا اوراس کے لیے راہیں ہموار کرتا، رعایا کی صدائے غم حکم رانوں کے ایوانوں تک پہونچاتااور دادرسی پر مجبور کرتا، فاقہ مستوں کی آواز بدمست تخت نشینوں کو سناتااورتوجہ دینے کی فہمائش کرتا۔۔۔۔ا ئے کاش کہ ایسا ہوتا اور ہمارا میڈیا اس حوالے سے غیر جانب داری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتا۔الٹا میڈیا نے لاک ڈاؤن کے سبب مجبور وبے بس انسانیت کی نقل مکانی جیسے اہم مسئلے سے توجہ ہٹا کر تبلیغی جماعت کے مرکزنظام الدین کو غیر معمولی طورپرفوکس کرنا شروع کردیا۔پھر کیاہوا؟ آناً فاناً ایک وبائی بیماری مشرف بہ اسلام ہوگئی۔ میڈیا کی اس شر انگیزی و فتنہ پردازی،ٹی وی چینلز کے اس دوغلے پن اوردوہری پالیسی کو دیکھتے ہوئے بے ساختہ ڈاکٹر کلیم عاجز مرحوم کا یہ شعر نوک قلم پر آگیا،انہوں نے ایسے ہی کسی موقع کے لیے کہاتھا ؎
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجرپہ کوئی داغ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کروہو
تبلیغی جماعت کے مرکز نظام الدین نئی دہلی میں ہمیشہ ہی سے ہزاروں کا مجمع رہتاہے، ملک و بیرونِ ملک سے مختلف جماعتوں کا آنا اور قیام کرنا عام سی بات ہے۔مارچ کی 13، 14 تاریخ کو بھی حسب سابق وہاں ایک جوڑ رکھاگیا؛جس میں ملک بھر سے کافی مجمع اکھٹا ہوا اور پروگرام ختم ہونے کے بعد منتشر ہوگیا؛مگر میڈیا کاکہنا ہے کہ یہی جوڑملک بھر میں کرونا کے پھیلاؤ کا سبب بنا اور مسلمانوں ہی کے مذہبی اجتماعات سے اس وبائی مرض نے ہندوستان بھر میں خوف ناک شکل اختیار کرلی، حالاں کہ اس کے کافی بعد تک خود حکومتی سطح پرمختلف بڑے اجتماعات ہوتے ر ہے۔ملک کی پارلیمنٹ کا اجلاس تو لاک ڈاؤن کے بعد تک جاری رہا،مختلف اقوام کی عبادت گاہیں اوران کے اجتماعی رسوم کا سلسلہ بھی حال حال تک چلتا رہا؛لیکن چوں کہ میڈیا کا مقصد بین مذہبی منافرت عام کرنا اور کروناسے دہشت زدہ انسانیت کو مسلمانوں سے برگشتہ کرنا تھانیز لاک ڈاؤن کے سبب پچھلے دس بارہ دن سے کسی سنسنی خیز انکشاف کا موقع بھی ہاتھ نہیں لگ رہاتھا؛لہذاجوں ہی یہ معاملہ سامنے آیا زرخریدمیڈیا نے اپنی ساری توانائی اس میں جھونک دی۔بہ قول کسے
مفت کے سنسنی فروش ہیں ہم بیٹھے رہتے ہیں تاک میں کہ کو ئی آفت آئے اور اس کی آڑ میں ہم اپنی اپنی دکان ِ لب کھولیں ہاتھ میں لے کے رابطے کی مشین خوف پھیلائیں ایک دوسرے میں
اس وقت جبکہ میڈیا نے نظام الدین مرکز کا معاملہ سر پراٹھالیا ہے تو یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ 2/ اپریل کی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق دہلی پولیس نے دہلی کے مجنوں کاٹیلہ گرودوارے میں چھپے 300 افراد کو نکالنے کاعمل بھی پوری خاموشی کے ساتھ شروع کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق دہلی کے مجنوں کاٹیلہ میں 200سے زائد سکھ برادری کے لوگ چھپے ہوئے ہیں۔ ان میں بہت سے غیر ملکی بھی شامل ہیں؛لیکن اب میڈیاکی بولتی بندہے۔حکومتی اہلکاراوروزارت صحت کوان لوگوں سے وباکے بڑھنے اور پھیلنے کاخطرہ نہیں لگ رہاہے۔دہلی پولیس اور پنجاب حکومت کے نمائندوں کی جانب سے لوگوں کونکالنے کاعمل شروع کر دیا گیاہے۔بسوں میں بھر کر سب کو نہرو وہار کے ایک اسکول میں شفٹ کیاجارہاہے۔ اسی اسکول میں قرنطینہ سینٹر بنایا گیا ہے۔ یہ کس درجہ افسوس کی بات ہے کہ آج کا میڈیا اپنی اصل شناخت فراموش کربیٹھا ہے، میڈیا کا کام تو محض خبر دینا تھا؛ مگر اب وہ فیصلے سنانے لگاہے۔یہ اس سے زیادہ افسوس کا پہلو ہے کہ عوام کی اکثریت ان سب کے باوجود میڈیا کو اپنا اصل آلہئ علم مانتی اور مغیبات کی طرح اس پر ایمان لاتی ہے، میڈیا کی خبروں پرتو زور وشور سے بحث ہوتی ہے؛لیکن میڈیا کے کردار پر کوئی مباحثہ نہیں ہوتا، میڈیا کے ذریعہ غلط بیانی کرنے والوں پر کوئی دفعہ نافذ نہیں ہوتی،عوام کو ورغلا کر اصل مدعی سے پھیرنے والوں پر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی، عوام کا کام صرف سننا ہے سنانا نہیں، سہنا ہے بولنا نہیں، دیکھنا ہے اس پر فیصلہ کرنانہیں، اصل کام تو میڈیا کا ہے، یہ طے کرنا کہ ملک کو کیا مسائل درپیش ہیں؟ ملک کی ترقی وتنزلی کے اسباب کیا ہیں؟ملک کا سب سے بڑا ایشو کیا ہے اورکو ن سی خبر زیادہ قابل اعتناء ہے؟ یہ سب فیصلے بند کمروں میں کہیں اور کیے جاتے ہیں اورمیڈیا انہیں کے اشارہئ ابرو پر ناچتا چلاجاتا ہے۔
میڈیا اور اسلام: اسلام ایک دائمی اور ابدی دین ہے جو ہر دور کے تقاضوں کو پوراکرنے اور اور ہرزمانے کے چیلنجز کو قبول کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔نیز اسلام کا ایک اہم ترین رکن؛بل کہ قطب الرحی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے جسے دعوت وتبلیغ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔اس اہم ترین فریضے کی علی وجہ الکمال ادائیگی اسی وقت ممکن ہے جب کہ عصری تقاضوں کے مطابق ذرائع ابلاغ و وسائل ترسیل اختیار کیے جائیں۔سرکار دوعالمﷺنے نہ صرف اس جانب توجہ دلائی ہے؛بل کہ اپنے عمل کے ذریعہ اس کی ترغیب بھی دی ہے۔جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگ احزاب سے فارغ ہوئے تو آپ نے مسجد نبویؐ میں ایک اعلان فرمایا کہ اب قریشیوں کو ہمارے خلاف جنگ کے لیے یہاں آنے کی ہمت نہیں ہوگی،اب جب بھی جائیں گے ہم ہی جائیں گے۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ اب یہ ہمارے خلاف زبان کی جنگ لڑیں گے اور خطابت و شاعری کا محاذ گرم کریں گے، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بازار گرم کریں گے، پروپیگنڈہ کریں گے، کردار کشی کریں گے اور عرب قبائل کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکائیں گے۔ یہ فرما کر جناب رسول اللہؐ نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا کہ اس جنگ میں کون آگے بڑھے گا؟ اس موقع پر تین انصاری صحابیؓ حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت کعب بن مالکؓ اور حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ جنگ ہم لڑیں گے۔ چنانچہ ان تینوں نے شاعری کے محاذ پرجبکہ ایک اور انصاری صحابی حضرت ثابت بن قیسؓ نے خطابت کے محاذ پر یہ جنگ لڑی اوراس شان سے لڑی کہ حضرت حسان بن ثابتؓ مسجد نبویؐ میں منبر پر کھڑے ہو کر کفار کے ادبی حملوں کا جواب دیا کرتے تھے اور حضورؐ کی مدحت کے ساتھ ساتھ اسلام کی خوبیاں بیان کرتے تھے جبکہ آپؐ سامنے بیٹھے انہیں داد بھی دیتے تھے اور ان کے لیے دعا بھی فرماتے تھے۔ اسی طرح یہ واقعہ بھی بخاری شریف میں مذکور ہے کہ عمرۃ القضا کے موقع پر حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ آنحضرتؐ کی اونٹنی کی مہار پکڑے جب مکہ مکرمہ میں داخل ہو رہے تھے تو احرام باندھے ہوئے تلبیہ پڑھنے کی بجائے رزمیہ اشعار پڑھتے جارہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے انہیں اس سے رک جانے کے لیے اشارہ کیا تو حضورؐ نے انہیں آواز دی کہ عمر! اسے پڑھنے دو؛ اس کے اشعار تمہارے تیروں سے زیادہ کافروں کے سینوں میں نشانے پر لگ رہے ہیں۔اس کے ساتھ یہ واقعہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ بنو تمیم کا وفد جب مدینہ منورہ آیا تو انہوں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شعر و خطابت میں مقابلہ کی دعوت دے دی جو آپؐ نے قبول فرمائی۔ اس کے لیے باقاعدہ مجلس بپا ہوئی جس میں بنو تمیم کے شاعر و خطیب نے اپنی خطابت اور شاعری کے جوہر دکھائے جس کے جواب میں حضرت ثابت بن قیسؓ نے خطابت اور حضرت حسان بن ثابتؓ نے شاعری میں اسلام کی دعوت اور حضورؐ کی مدحت و تعارف پر بات کی، چنانچہ ان کی برتری کو تسلیم کرتے ہوئے بنوتمیم نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔چوں کہ شعر و خطابت اس دور میں ابلاغ کے موثر ترین ذرائع تھے جنہیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر انداز نہیں کیا؛بلکہ بھرپور طریقہ سے استعمال کیا، آج اس کا دائرہ وسیع ہوگیا ہے اور ابلاغ کے دیگرموثر ترین ذرائع بھی سامنے آگئے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لہذاہمیں اسلام کی دعوت اور دفاع دونوں کے لیے ان کا بھرپور استعمال کرنا چاہیے۔ (میڈیا کامحاذ اور اسوہئ نبویؐ)
خلاصہئ کلام: ان دنوں میڈیا’اسلام کے خلاف جو معاندانہ پروپیگنڈہ کررہا ہے اورمسلم تنظیموں کے خلاف جوکارروائیاں ہورہی ہیں،اگرچہ اس کا مثبت ردعمل بھی سامنے آرہا ہے،غیرمتعصب وباشعوربرادران وطن ان سے صحیح نتائج اخذ کررہے ہیں اور حقائق تک پہونچنے کے لیے کوشاں ہیں؛مگران سب کے باوجود ہمیں زیادہ خوش فہمی میں مبتلا ہونے کے بجائے اپنامستقل میڈیا ہاؤس قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے جو ملک کی حقیقی صورت حال اجاگرکرے،مظلوم طبقات کو انصاف دلانے میں نمایاں کردار ادا کرے،ساتھ ہی اسلام کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈوں کاترکی بہ ترکی جواب دے۔ اس موقع پر الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیاسے وابستہ مسلم طبقے کی ذمہ داری ہے کہ وہ بکاؤ میڈیا کی اندھی تقلید کرنے کے بجائے ترجیحی بنیادوں پراپنے کام کو فروغ دے، کب کونسی خبر موزوں اور مناسب ہے اس کا تجزیہ کیا جائے؟ کن خبروں کو سرخی بنانا چاہیے اور کنہیں نظرانداز کرنا چاہیے؟ اس پر غور و خوض ہو۔حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے حقائق کی بھرپور انداز میں ترجمانی کی جائے، تعبیر و طرزبیان کی نزاکت و باریکی کو بھی ملحوظ رکھا جائے تب کہیں جاکر ہم یہ میدان سر کرسکتے ہیں اور ملک میں اپنی تار یخ خو د رقم کرسکتے ہیں۔
مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 04/ اپریل 20210
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں