کورونا کا قہر، احتیاطی تدابیر جان ہے تو جہان ہے

 

 

عاصم طاہر اعظمی

 

کورونا کے قہر سے اس وقت پوری دنیا میں عجیب سی ہلچل مچی ہوئی ہے آج سے تین مہینے قبل چین کی سرزمین سے 19 دسمبر 2019 کو کورونا نامی وائرس نمودار ہونے والا  اس وقت تقریباً پوری دنیا میں اپنا اثر بکھیر چکا ہے تین مہینے کی دن و رات کوششوں کے بعد چین نے اب جاکر اس وائرس کو روکنے میں کامیاب ہوا ہے جب یہ وائرس چین میں شروع ہوا تھا تو اس وقت پوری دنیا چین کا مزاق اڑا رہی تھی اور کھلے لفظوں میں کھ رہی تھی کہ اچھا ہوا یہ وائرس آیا ہے وہاں یہ تھا وہاں وہ تھا لیکن اب جب کہ یہ وائرس پوری دنیا میں پھیل گیا ہے سب کہ آوازیں بند ہونے کے ساتھ ساتھ ملکوں تک بند کرنا پڑرہا ہے ہر طرح کہ آمد و رفت معطل کردی گئیں ہیں شہروں کی تمام دکانیں بھی بند تمام گلیوں میں سناٹا پسرا ہے گویا یوں کھ لیں کہ شہروں کی تمام رنگینیاں گل ہوگئی ہیں ہر طرف اجڑا ویران سا منظر دکھ رہا ہے جہاں سے روزآنہ گزرنا مشکل ہوتا تھا آج وہاں آدم ہیں نہ آدم زاد اتنا سب کچھ ہونے کے بعد پھر بھی کورونا اپنا پیر جماتے چلا جارہا ہے روزانہ کورونا کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، ایسا کچھ بھی نہیں ہے کہ یہ وائرس بس ایک افواہ ہے حقیقت تو یہی ہے زمین پر ظلم زیادہ ہو گیا تھا آسمان چیخ رہا تھا اور زمین کانپ رہی تھی مظلوم انسان خدا وحدہ لا شریک کو پکار رہے تھے پھر اس رب نے اپنی جباریت اور قہاریت کو دنیا پر عیاں کیا اور خبردار کیا کہ تم میرے بندوں کے خدا مت بنو تم سب کا خدا تو بس میں ہی ہوں اس نے ایسا وائرس دنیا میں بھیجا دنیا کا کوئی بھی سافٹ وئیر اسے ڈیلیٹ نہیں کر پا رہا تمام طرح کی ٹیکنالوجی اس کے سامنے بے بس ہے

 

*احتیاطی تدابیر جان ہے تو جہان ہے*

 

وطن عزیز کے تمام باشندوں سے  درخواست کروں گا کہ جہاں تک ہوسکے احتیاط کریں ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے اب جبکہ صرف وطن عزیز ہی نہیں بلکہ پوری دنیا ایک ایسی وبا کا شکار ہے جس کا تا حال کوئی علاج نہیں اور جس کے پھیلاؤ کو روکنے کا واحد طریقہ احتیاط ہے تو ہمیں اس احتیاط کو اپنانے میں اس قدر دشواری کیوں پیش آ رہی ہے پڑھے لکھے باشعور لوگ بھی یہ نہیں سمجھ رہے کہ ایسے میں کیا کرنا چاہیے تو کم پڑھے لکھے اور ان پڑھ لوگوں سے کیا توقع کی جائے یہ وہ دور نہیں جب کوئی بات کسی سے چھپی رہے یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے ہمارے ہاتھ میں مستقل موبائل ہوتا ہے، سوشل میڈیا پر پل پل کی خبریں آ رہی ہیں، اخبارات بھی پڑھ رہے ہیں کہ جن ممالک کے باشندوں نے احتیاط نہیں کی وہ آج اس وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے شدید مشکلات کا شکار ہیں اٹلی کی مثال ہم سب کے سامنے ہیں تادمِ تحریر وہاں چین سے بھی زیادہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ ہزاروں لوگ بیمار ہیں اور وہاں کے رہائشی خود اپنی غلطی کا اعتراف کر رہے ہیں کہ ہم نے احتیاط نہیں کی لہذا ہم اس حال کو پہنچ گئے۔

یہ سب کچھ دیکھ اور سن کر بھی ہم عام سی ہدایات پر عمل کرنے کو تیار نہیں اس معاملے میں حکومت سے زیادہ عوام خود قصور وار ہیں حکومت نے اپنی سی کوشش کر کے دیکھ لی کہ عوام کو گھروں تک محدود کیا جائے مگر عوام خود ہی گھر میں رہنے کو تیار نہیں ہے لاک ڈاؤن اور کرفیو لگنے کے بعد بھی لوگ سمجھ نہیں رہے ہیں پولیس والے مجبور ہورہے ہیں مجبورا انھیں لاٹھی چارج کرنی پڑتی ہے مرغا بنانا پڑتا ہے پھر بھی یہاں کی عوام احتیاط نہیں کررہی ہے اب ایسی عوام کو کون سمجھائے۔

حکومت کے پاس ایک آخری حل یہی رہ گیا تھا کہ وہ دوبارہ عوام کو زبردستی گھروں تک محدود کرنے کے لئے لاک ڈاؤن کردے جس کا اعلان بھی ہوا اگلے اکیس دنوں تک پورے ملک میں لاک ڈاؤن کردیا گیا ہے وزیر اعظم نریندر مودی نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ اگر ہم اکیس دنوں میں نہیں سنبھلے تو تباہ و برباد ہوجائیں گے پورے دیش کی جنتا سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے گھروں میں ہی رہیں اور یہی ہمارے پاس واحد حل بھی ہے ہر فرد کو سوچنا چاہیے کہ اسکی کسی بھی غیر ذمہ دارانہ حرکت کا اثر خود اسی کی ذات تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کے متعلقین بھی اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں اس لیے خدا را خود احتیاط کریں، عوام کے درمیان جانے سے حتی الامکان بچیں بار بار ہاتھ دھلیں گرم پانی پینے کی عادت ڈالیں یہ سب وہ چیزیں ہیں جن کو بروئے کار لانے میں آپ کا ایک پیسہ تک نہیں لگے گا اس لیے ابھی سے یہ سب کام شروع کردیں، پھر کہوں گا احتیاط بہتر ہے علاج کرنے سے، ہاتھ دھونا بہتر ہے زندگی سے ہاتھ دھونے سے، گھر میں رہنا بہتر ہے آئی سی یو میں رہنے سے، 

ایسے دنوں میں خاص طور پر غریبوں کی ضرور مدر کریں ہر کوئی جانتا ہے کہ ایسے دنوں میں پیشہ ور لوگ زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن اس کا مطلب ہرگزیہ نہیں ہے کہ سب کے سب پیشہ ور ہوتے ہیں وطن عزیز میں بہت بڑی تعداد روزانہ کما کر بسر کرنے والی ہے ذرا سوچیں ان کے لیے تو زندگی گزارنا دو دن مشکل ہوجائے گا اکیس دن ان کے لیے بہت لمبی ٹائم ہے اس لیے ہر ممکن کوشش کریں اپنے اپنے علاقوں محلوں میں ایسے شخص کو تلاش کرکرکے ان تک کھانا پہنچائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ جتنے لوگ کورونا سے نہیں مرے اس سے زیادہ بھوک سے مرگئے اس لیے خدارا اپنے اپنے علاقوں میں ابھی سے تلاش کرنا شروع کردیجیے، 

اپنی ہر ممکن کوشش کے ساتھ ساتھ اللہ پر یقین رکھیں، گناہوں سے توبہ کریں نماز کی پابندی کریں حسبنا اللہ و نعم الوكيل کو زیادہ سے زیادہ پڑھیں اپنے اپنے گھروالوں، اپنے عزیز و اقارب اور تمام لوگوں کے تحفظ کے لیے دعا بھی کرتے رہیں لیکن صرف دعا پر اکتفا نا کریں اپنی ہر ممکن حفاظتی تدابیر بھی جارکھیں

حق تعالیٰ جل مجدہ ہم تمام لوگوں کی حفاظت فرمائے آمیــــن

 

«
»

تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے کی اصلیت سامنے آنے لگی

چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے