ذوالقرنین احمد آپ چاہے حکومت پر کتنا ہی طنز کرلے، یا حکومت کو اپنی غلط پالیسیوں کے خلاف سوشل میڈیا پر متوجہ کرے یہ کان دھرنے کیلے تیار نہیں ہے۔ اب متحد ہوکر دفاعی اقدامات کرلینے چاہیے۔ لاک ڈاؤن کے ختم ہوتے ہی سڑکوں پر اتر کر احتجاج کرنا چاہیے۔ حکومت کو عوام کی […]
آپ چاہے حکومت پر کتنا ہی طنز کرلے، یا حکومت کو اپنی غلط پالیسیوں کے خلاف سوشل میڈیا پر متوجہ کرے یہ کان دھرنے کیلے تیار نہیں ہے۔ اب متحد ہوکر دفاعی اقدامات کرلینے چاہیے۔ لاک ڈاؤن کے ختم ہوتے ہی سڑکوں پر اتر کر احتجاج کرنا چاہیے۔ حکومت کو عوام کی بے بسی، بھوک،بے روزگاری، اہم ضروریات زندگی کا میسر نہ ہونا جیسی بے شمار پریشانیوں سے کوئی لینا دینا نہیں رہا ہے۔ اسی لیے یہ غیر منصوبہ بند اور بغیر سوچے سمجھے من چاہے فیصلے کر رہی ہے۔ جب دل میں آیا لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ سبزی وغیرہ بیچنے والوں اور چھوٹے موٹے کام کاج کرنے والوں کو پریشان کیا جارہا ہے۔ ملک میں اکثر لوگ یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں، کوئی قلی، حمال، مستری، ٹھیلے لوٹنے والے، چمار، پھل فروش، کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والے، ستار کا کام کرنے والے، ویلڈر، کسان، گیریج مین، ہاتھ مزدوری کرنے والے ہیں۔ کمپنیوں میں کام کرنے والے، ایم آئی ڈی سی، وغیرہ میں محنت کش مزدور انھیں کے بل بوتے پر تمام ملک کی معیشت زیادہ منحصر ہوتی ہے اور انھیں کے ووٹوں پر سایسی پارٹیاں اقتدار حاصل کرتی ہے۔ لیکن اقتدار کے نشے میں غریب متوسط طبقے کی اکثریت والی عوام کو حکومت بھول جاتی ہے۔
لاک ڈاؤن اور کورونا وائرس کے نام پر جو عام عوام کی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے وہ قابل مذمت ہے۔ اس لاک ڈاؤن اور کورونا وائرس کے خوف کے سائے میں عوام کا استحصال کیا جارہا ہیں۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ غریب مزدور پیشہ کروڑوں افراد سے روزگار چھین کر کورونا وائرس وبا سے بچانے کیلے حکومت جھوٹی فکر دکھا رہی ہے۔ عوام کا تحفظ کرنا ضرور ہے حکومت کی اپنی ذمہ داری ہے اگر وائرس ہے تو اسکا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ مسلسل تین ماہ سے ملک کی عوام کو گھروں میں قید کردیا جائے۔ جبکہ اس بات کی بھی فکر نہیں ہے کہ انکے پاس زندگی گزارنے کیلے غذائی اجزاء موجود ہے یا نہیں غریب مزدور عوام کے پاس اتنا پیسہ ہے یا نہیں کہ وہ گہیوں اور چاول کے علاوہ تیل مرچی نمک،دودھ پتی شکر ، آٹا پسانے کیلے پیسے چولہا جلانے کیلے گیس یا لکڑی، ضروری دوائیاں کا انتظام ہے یا نہیں۔ مسلسل تین مہینوں سے زائد عرصہ ہوچکا ہے کام کاج بند ہے جو تھوڑی بہت چھوٹ مل رہی تھی اب اس پر کڑک کرفیو نافذ کرکے پابندی عائد کردی گئی ہے۔
ایک عام غریب مزدور انسان کیسے زندگی گزارے گا جبکہ ملک کا اکثریت طبقہ روز مرہ کام کرکے اپنا اور اپنی فیملی کا گزر بسر کرتا ہے۔ ملک میں آج حالات یہ بنے ہوئے ہیں کہ پڑھے لکھے نوجوانوں کو نوکریاں نہیں ہے۔ اگر وہ کچھ کام کرنا چاہتے ہیں تو روزگار کے مواقع بھی موجود نہیں ہے۔ اگر وہ نیا کاروبار شروع کرنا چاہتا ہے تو حکومت کے پاس کوئی بلا سودی لون کی فری سہولیات بھی موجود نہیں ہیں۔ ناہی کوئی پلاننگ ہے۔ ملک میں بچے غریبی کی وجہ سے اسکول سے ڈراپ آؤٹ ہوکر مزدوری کرتے ہیں جبکہ بچہ مزدوری پر ملک میں پابندی عائد ہے۔ لیکن حکومت کو یہ فکر نہیں ستاتی ہے کہ اگر وہ بچہ مزدوری کرکے کماکر نہیں لائے گا تو اسکے گھر میں اسکی چھوٹی بہن بھائی ماں کا گزر بسر کیسے ہوگا۔ یہ حکومت صرف اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر سیاست کر رہی ہے۔ انکے اندر نہ قانون کا خوف بچا ہے ناہی انسانیت کا مادہ باقی رہا ہے۔اگر قانون ہے تو وہ صرف غریبوں کیلے اقلیتوں مسلمانوں کیلے ہے جس کا استعمال صرف مسلم نوجوانوں پر جھوٹے الزامات لگا کر گرفتاریاں کی جاتی ہے اور انکی جوانی کی عمر ختم ہونے کے بعد باعزت بری کردیا جاتا ہے۔ کورونا وائرس پر قابو پانے کا ہرگز یہ طریقہ نہیں ہوسکتاہے کہ عوام کو ذہنی تناؤ کا شکار بنایا جاتا رہے۔ جو عمر دراز افراد ہے جنہیں عمر کے لحاظ سے کچھ نہ کچھ مرض لاحق ہوتا ہے وہ بھی خوف کے سائے میں جی رہے ہیں۔ نوجوانوں گھروں میں قید ڈپریشن کا شکار ہورہے ہیں۔ گھریلوں تنازعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ دن رات عوام خوف و دہشت میں جی رہی ہیں۔ اگر کورونا وائرس پر قابو پانا ہی ہے تو حکومت کو چاہیے تھا کہ اول روز سے ہی اس وبائی مرض کو سنجیدگی سے لے کر محتاط ہوجاتی اور عوام کو گھر گھر مدافعتی نظام مضبوط کرنے کی دوائیاں تقسیم کرتی، چھوٹے بچوں بوڑھوں خواتین کیلے عام بیماریوں کی دوائیاں فری میں تقسیم کرتی۔ ملک کی معیشت کو نقصان نہ پہنچے اسکے لیے احتیاط کے ساتھ دوکانیں کاروبار کو جاری رکھتی مینوفیکچرنگ، کھیتی، روز مرہ کے کام کاج کو جاری رکھتی تاکہ غریب عوام دو وقت کی روٹی کا انتظام کرسکے۔ تعلیمی اداروں کو کھولنے کی طرف توجہ دیتی تاکہ طلباء کا تعلیمی نقصان نہ ہو اور آئیندہ سال کا نظام تعلیم اس وبا سے متاثر نہ ہوسکے۔ نئے روزگار فراہم کرنے کی طرف توجہ دیتی۔ کیونکہ ہر سال لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں طلباء و طالبات ڈپلومہ و ڈگریاں حاصل کرتے ہیں لیکن ان کیلے کوئی پروگرام تیار نہیں کیا جاتا ہے۔ عوام کو ایک طرح سے محصور کردیا گیا ہے جنہیں غلام ذہنیت بنانے کی تیاری کی جارہی ہے ان پر بے جا قانون کو مسلط کیا جارہا ہے۔ یہ سب پلاننگ کے ساتھ ہورہا ہے حکومت اپنے ناجائز عزائم کو لے کر اس کورونا وائرس کا استعمال کرتی آرہی ہے اور اب پھر سے سخت لاک ڈاؤن لگایا جارہا ہے۔ وزیر اعظم کی گزشتہ تقریر سے ہی اس بات کا اندیشہ ہورہا تھا جب انہوں نے نومبر تک فری راشن کی تقسیم کی بات کی تھی لیکن وزیر اعظم کو اور بی جے پی حکومت کو اپوزیشن کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ صرف دو چار کلو گہیوں چاول فری دینے سے گزارا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ حکومت بلکل بھی اس معاملے پر سنجیدہ نہیں ہے صرف لاک ڈاؤن وائرس سے بچنے کا حل نہیں ہے جتنی اموات ملک میں اس کورونا وائرس کے نام پر ہونے کی خبریں چلائی جارہی ہے ویسے بھی عام دنوں میں اس سے کئی زیادہ اموات ہوتی رہتی ہے۔ اور جو ڈاٹا پازیٹو کیسز کا ہے وہ بھی کوئی خاص نہیں ہے کیونکہ وہ سب ۱۴ دن کے بعد ٹھیک ہورہے ہیں جبکہ کورونا وائرس کی ویکسین ابھی تیار نہیں ہوئی ہے اگر تیار ہوئی بھی تو وہ تجربہ کے مراحل میں ہے۔ لیکن فلحال یہ بات واضح ہے جو مریض ٹھیک ہورہے ہیں وہ فلاح ویکسین یا پھر ٹریٹمنٹ سے صحت یاب ہوچکے ہو ایسا نہیں ہے اس لیے حکومت کے ناجائز عزائم کو ایکسپوز کرنا بے حد ضروری ہے۔ آواز اٹھائیے جس پیمانے پر بھی ہوسکے یہ خاموشی تمہیں غلامی کی طرف لے جارہی ہیں۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
11جولائی2020
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں