کرونا وائرس بیماری ہے یا عذاب کے طور پر قدرت نے انگڑائی لی ہے!

 

تحریر :جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین)

اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنات اور انسان کو اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے، دل، دماغ، آنکھ اور زبان عطا فرمایا ہے ہاتھ اور پاؤں سے نوازا ہے دل اور دماغ اس لئے عطا فرمایا ہے کہ تاکہ سوچے اور سمجھے پھر کارآمد فیصلہ لے، آنکھ اس لئے عطا فرمائی ہے کہ دنیا دیکھے کہ اس میں شجر و حجر، بحروبر، زمین و آسمان یہ سب کچھ موجود ہے تو اس کا بنانے والا بھی کوئی ہے اور جب اس نے ہمیں یہ ساری نعمتیں نوازی ہیں تو ہمیں اس کا شکر ادا کرنا چاہیے اور ایک انسان جب اپنے دل ودماغ کا صحیح استعمال کرے گا تو صحیح فیصلہ بھی لیگا اور جب صحیح فیصلہ لیگا تو ہو ہاتھ جب بھی بلند کریگا تو راہ سخاوت میں بلند کریگا، پاؤں جب بھی بڑھائے گا تو گویا راہ صداقت میں قدم بڑھائے گا اور جہاں تک زبان کا مسئلہ ہے تو یہ ایسی چیز ہے کہ اس بہت بہتر نظام قائم ہوسکتا ہے اور بہت بہتر نظام درہم برہم بھی ہوسکتا ہے اسی لئے بہت سے لوگوں نے نصیحت کے طور پر سمجھایا ہے کہ ایک انسان جب صبح کو نیند سے بیدار ہوتا ہے تو جسم کے سارے اعضاء اس سے کہتے ہیں کہ دیکھ اللہ نے تجھے سیدھا بنایا ہے تیرے اندر ہڈیاں بھی نہیں ہیں تو سیدھی ہی رہنا اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے کیونکہ تو غلط لہجہ اختیار کرتی ہے تو ساری مصیبتیں ہمیں جھیلنی پڑتی ہے اور تو محفوظ رہتی ہے،، زمین و آسمان کے درمیان اور زمین کے اندر اللہ نے اپنے بندوں کیلئے بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں لیکن سب کے بدلے میں صرف اس کا یہی کہنا ہے کہ میری عبادت کرو، مجھے ایک مانو، میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھراؤ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ میری عطا کردہ چیزوں کو کھاؤ پیو لیکن زمین پر فساد برپا نہ کرو، تم ایک دوسرے کا حق نہ مارو، ظلم اور ناانصافی مت کرو میں نے جو تمہیں دستور بتایا ہے اس پر عمل کرو، گناہوں سے توبہ کرو میں معاف کرونگا، مجھ سے مانگو میں تمہیں عطا کرونگا لیکن افسوس صد افسوس بندوں نے سب کچھ بھلا دیا جو جہاں ہے وہ وہیں اپنے آپ کو سب سے بڑا طاقتور سمجھنے لگا، انسانوں نے انسانوں کا حق مارنا شروع کردیا، گھر جلانا شروع کردیا، غریبوں اور مسکینوں سے نفرت کرنا شروع کردیا، ایک دوسرے کا خون بہانا شروع کردیا، یہاں تک کہ قدرت کے قانون میں مداخلت کرنا بھی شروع کردیا، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط کیسے قہرِ الہی کا شکار ہوئی اور نیست و نابود ہوئی یہ سب کچھ بھلا دیا انسان ہوکر انسان پر عرصہ حیات تنگ کرنا شروع کردیا، تھوڑا سا اختیار ملا تو لوگوں کو رعب اور دبدبہ دیکھا کر دہشت زدہ کرنے لگا ایک مذہب کے ماننے والا دوسرے مذہب کے ماننے والوں کو ذلیل کرنے لگا اس کے اوپر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگا ناانصافی کا راستہ اختیار کرنے لگا نتیجہ یہ ہوا کہ آخر قدرت کو بھی جلال آہی گیا ایک جھٹکا دیا قدرت نے آج پوری دنیا لرزہ براندام ہے پوری دنیا تھرا رہی ہے کل قیامت کے دن جب رب ذوالجلال دنیا کے سارے حکمرانوں کو ایک صف میں کھڑا کرکے پوچھے گا کہ بتاؤ لمن الملک الیوم تب کیا حال ہوگا لیکن ہائے رے انسان خود غرضی کی ساری حدیں پار کرتا جارہا ہے آج احتیاطی اقدامات کئے جارہے ہیں تو اس میں بھی دھاندلی کررہا ہے سستے مال کو اونچی قیمت میں فروخت کر رہا ہے، ذخیرہ اندوزی بھی کررہا ہے یعنی آج بھی انسانوں کے سینے میں انسانیت کا درد نہیں جبکہ انسانوں کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ سوچنے اور غور کرنے کا مقام ہے کہ آج دنیا کے جو حالات ہیں کرونا وائرس کی جو بیماری ہے دراصل وہ بیماری ہے یا عذاب الٰہی ہے ،لگتا تو ایسا ہی ہے کہ وبا کی شکل میں قدرت نے انگڑائی لی ہے تبھی تو آج ہم اپنی عبادت گاہوں میں جانے سے محروم ہوتے جارہے ہیں یعنی اللہ کے گھر کے دروازے بھی بند ہونے لگے ہم نے انسان ہو کر انسان سے دوری بنایا، دکھ سکھ میں شریک ہونے سے گریز کیا آج ہمارے اوپر ایسی مار پڑی ہے کہ احتیاطی اقدامات کے تحت ایک دوسرے سے دوری بنانی پڑرہی ہے،، ہم کیا تھے اور کیا ہوگئے، ہم کہاں تھے اور کہاں پہنچ گئے آج پوری دنیا کرونا وائرس جیسی مہلک بیماری سے خوفزدہ ہے جہاں یہ بیماری ہے وہاں کے لوگ بھی پریشان ہیں اور جہاں ابھی نہیں ہے وہاں کے لوگ بھی تشویش میں مبتلا ہیں جہاں ایک طرف مختلف انداز میں احتیاطی تدابیر اختیار کیا جارہا ہے وہیں کچھ ممالک میں احتیاطی تدابیر کا نام دیکر ایسے اقدامات کئے جارہے ہیں جس سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے سامنے شدید بحران اور سخت ترین مسئلہ کھڑا ہوسکتا ہے اور اس مسئلے سے نجات حاصل کرنا انتہائی دشوار کن ہوسکتا ہے یہ شچ ہے کہ وبائی امراض کی روک تھام کرنا اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنا دین کا حصہ ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی ماننا ضروری ہے کہ بیماری اور شفا دونوں کا مالک اللہ ہی ہے کوئی اور نہیں ہرگز نہیں تو ایسی صورت میں احتیاطی اقدامات کا نام دیکر عرب ممالک کے حکمرانوں کے ذریعے مساجد کو بند کرنا اور باجماعت نماز کی ادائیگی پر پابندی عائد کرنا گھروں کے اندر نماز پڑھنے کا حکم دینا یہ احکام خداوندی اور فرمان رسالت کے ساتھ بغاوت ہے اور اس کا انجام بھی بہت ہی بھیانک ہوسکتا ہے کیونکہ ایمان والوں کے لیے یہ خوش قسمتی کی بات ہے کہ اپنی ہر مصیبت کو ٹالنے اور ٹلوانے کیلئے ایک ایسی جگہ ہے جہاں وہ اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہے اور اسلام کی تاریخ میں یہی ملتا ہے کہ جب بھی کوئی ناگہانی حالات پیدا ہوئے ہیں تو مساجد کو آباد رکھنے میں اضافہ ہوا ہے چودہ سو سال کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب ایک بیماری کا وبا کی شکل میں ظہور ہوا ہے تو اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے اور حرمین شریفین کی حفاظت کا دم بھرنے والوں نے مساجد میں نماز پر پابندی لگائی ہے اور انہیں کی دین ہے کہ دیگر ممالک میں بھی ایسا ہی قدم اٹھایا گیا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ کے علاوہ اور کوئی طاقت ہے جو مسلمانوں اور عام انسانوں کو بیماری سے شفا دے سکتی ہے اور جان و مال عزت و آبرو کی حفاظت کرسکتی ہے اگر ہے تو جو مانے وہ سمجھے وہ گمراہ ہے اور نہیں تو پھر پروردگار کے احکامات کے ساتھ دھوکہ کیوں؟  سعودی عرب کے حکمراں شاہ شاہ سلمان اور محمد بن سلمان کو اتنی عجلت بازی سے کام لینے کے بجائے اللہ کی ذات پر بھروسہ کرنا چاہیے تھا دیگر ممالک کے بارے میں غور کرنا چاہیے تھا انہوں نے حال ہی میں جو بھی احتیاطی اقدامات کئے ہیں وہ باعث تشویش ہیں جو اس سرزمین کے حکمراں ہوں جس سرزمین کو بلدالامین کہا گیا ہے، جس سرزمین پر محسن انسانیت آرام فرما ہیں وہ حکمراں ایک بیماری سے اتنا خوفزدہ ہو کہ خود اپنے ہی دین و شریعت کے خلاف قدم اٹھائے تو تعجب خیز ہی کہا جائے گا کیونکہ جس کے پاس رب کا قرآن ہو، نبی کا فرمان ہو پھر بھی وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوجائے مغربی تہذیب کو پروان چڑھا ئے اور اپنائے تو جو غیر ہیں وہ تو اسلام اور مسلمان مخالف ہونے کی بنیاد پر کچھ بھی کہہ سکتے ہیں چاہے کوئی پیر ہو یا فقیر، حکمراں ہو یا رعایا، امیر ہو یاغریب، عربی ہو کہ عجمی، کالا ہو کہ گورا نماز کبھی معاف نہیں ہے اور صحت، زمین، مسجد ہوتے ہوئے بلا عذر شرعی کے جان بوجھ کر باجماعت نماز نہ ادا کرکے تنہا پڑھنا مساجد کو بند کرنا بھی نامناسب ہے آج ہر شخص کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے، حق اللہ اور حق العباد پر عمل کرنے کی ضرورت ہے، باہمی اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے، خلوص عقیدت، احترام و محبت کے ساتھ ایک دوسرے کا دکھ درد محسوس کرنے کی ضرورت ہے موت سے ڈرنے کی نہیں بلکہ موت کو یاد کرنے کی ضرورت ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم تمہیں آزمائیں گے بھوکا رکھ کر ، مالوں میں نقصان پہنچا کر اور دیکھیں گے کہ تم کتنا صبر کرتے ہو اور جس نے صبر سے کام لیا اس کے لیے اللہ رب العالمین نے بشارت بھی سنا دی ہے اسی قرآن کا اعلان ہے کہ تم پر جب بھی کوئی مصیبت پہچے، جب بھی تمہیں بحران کا سامنا ہو تو گھبراؤ نہیں بلکہ صبر سے اور نماز سے اللہ کی مدد حاصل کرو بہرحال جو بھی احتیاطی اقدامات اٹھائے گئے ہیں اس پر عمل درآمد کرنا ضروری ہے خود ہمارے ملک میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا ہے اور علماء کرام و آئمہ کرام سے حکومت و انتظامیہ نے مساجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی نہ کرنے کی اپیل کی ہے اور تقریباً پورے ملک میں مساجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور گھروں میں نماز ادا کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے تو مسلمانوں کو چاہیے کہ گھروں میں نماز کی پابندی کریں حالات بہت نازک ہیں کرونا وائرس پھیلتا جارہا ہے ہزاروں لوگ موت کی نیند سو گئے اس لئے قطعی طور پر مذاق نہ بنایا جائے تالی اور تھالی کے نام پر صرف تلخ کلامی اور طنز و مزاح پر مبنی باتیں نہ کی جائیں، مضامین نہ لکھے جائیں بلکہ ہر پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے کم از کم انہوں نے تالی اور تھالی بجاکر اپنی یکجہتی اور اجتماعیت کا اظہار کیا آج کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں اور ہندوستان میں جو حالات ہیں اس میں صبر بھی کرنا ہے، احتیاط بھی کرنا ہے، کھانے پینے کی چیزوں میں پرہیز بھی کرنا ہے یقیناً ہم اپنے ذاتی مفاد میں بہت آگے نکل گئے تجارت میں دھوکہ بازی کیا، سود و بیاض تک کا بھی سہارا لیا، دولت کے حصول میں ہم نے حرام و حلال کو بالائے طاق رکھ دیا جبکہ احادیث کی کتابوں میں موجود ہے کہ حرام کا ایک لقمہ بھی پیٹ میں ہے تو عبادت کرتے کرتے کمر تیر سے مڑ کر کمان کی طرح ہوجائے تب وہ عبادت وہ دعا ایک بالشت سے اوپر نہیں جائے گی ایک بندہ جب دعا کیلئے ہاتھ اٹھاتا ہے، جب سجدے میں سر رکھ کر روتا ہے تو رب کائنات فرشتوں سے کہتا ہے کہ دیکھو میرا بندہ اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہا ہے لیکن میں کیسے معاف کروں وہ جو کھاکر آیا ہے وہ حرام، جو پی کر آیا ہے وہ حرام، جو پہن کر آیا ہے وہ حرام، جس مکان میں رہتا ہے وہ حرام تو ہمیں چاہیے کہ ہم پوری طرح اپنے دامن کو پاک و صاف کریں اور اللہ کو صرف رحمان و رحیم سمجھ کر اس کی جباریت اور قہاریت کو نہ بھلا دیں،، یہ یاد رکھیں کہ اللہ رحمان و رحیم ہے تو جبار و قہار بھی ہے اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کو رب کے قرآن اور نبی کے فرمان کے سانچے میں ڈھالیں اور اللہ سے لو لگائیں جہاں تک ہوسکے احتیاطی تدابیر اپنائیں اس کے بعد اللہ پر توکل کریں بیشک وہی ساری مصیبتوں کو ٹالنے والا ہے- اللہ تبارک و تعالیٰ پوری دنیا پر رحم و کرم کی بارش فرمائے اور ہر آفت و بلا سے نجات عطا فرمائے آمین یا رب العالمین –

«
»

تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے کی اصلیت سامنے آنے لگی

چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے