مضمون نگار: ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
کورونا! انگریزی میں روشنی کے ہالہ کو کہتے ہیں مگر اس وقت تو یہ ساری دنیا میں تاریکی کا سبب بن گیا ہے۔ کورونا وائرس کا ساری دنیا پر اس قدر خوف طاری ہے کہ اس کے اثرات ہر شعبہ حیات پر مرتب ہورہے ہیں۔ چین‘ جو دنیا کے نئے سوپر پاور کے طور پر ابھر رہا تھا‘ اب اس قدر پیچھے چلا گیا ہے کہ اسے دوبارہ اپنے مقام پر پہنچنے کے لئے جانے کتنا عرصہ لگ جائے گا۔ یہ وائرس بقول چینی سائنسدانوں کے امریکی سائنسدانوں نے پھیلایا ہے تاکہ چین کی ترقی کی رفتار کو روکا جاسکے۔ اس کے لئے چین شہر ووہان کا انتخاب اس لئے کیا گیا۔ آمد و رفت کا وہی مرکز ہے اور وہیں سے دنیا کے دوسرے ممالک تک آسانی سے پھیلایا جاسکتا ہے۔ چین کو جو نقصان ہونا تھا وہ ہوچکا۔ گزشتہ 20 برس کے دوران وہ دوسری مرتبہ اس قسم کے وبائی امراض کی وجہ سے معاشی طور پر تباہ ہوا ہے۔ 2002ء میں SARS نے بھی چین کی رفتار میں بریک لگادیا تھا۔ الیکٹریکلس اور الکٹرانکس کا چین سب سے بڑا گلوبل ایکسپورٹر ہے۔ دنیا کی ایکسپورٹ مارکٹ میں اس کا تناسب 30فیصد ہے۔ 2019ء میں صرف جاپان نے 45بلین ڈالرس کے الکٹریکلس اور الکٹرانکس آئٹمس چین سے امپورٹ کئے تھے۔ ساری دنیا سے الگ تھلگ ہوجانے کی وجہ سے چین کی تانبہ کی مارکٹ پر بھی زبردست اثر ہوا ہے۔ ایک طرف ٹوکیو اولمپکس خطرہ میں ہے‘ اگر کورونا وائرس پر قابو نہیں پایا جاسکا تو اولمپکس منسوخ ہوسکتے ہیں جس پر جاپان نے 12.2 بلین ڈالر کا بجٹ مختص کیا ہے۔ 1896ء میں ایک ہی بار اولمپکس منسوخ ہوئے تھے اور وہ بھی جنگ کی وجہ سے۔ 1940ء میں ٹوکیو اولمپکس چین کے ساتھ اختلافات کی نذر ہوگئے تھے۔ اگر اولمپکس منسوخ ہوتے ہیں تو اسپورٹس کی دنیا کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا کیونکہ ہر ایک ملک نے اربوں روپے یا ڈالرس اپنے کھلاڑیوں کی تیاری پر خرچ کئے ہیں۔ خلیجی ممالک سب سے زیادہ معاشی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ صرف ایئر لائنس کو 30 ملین ڈالرس کا ابھی تک نقصان ہوچکا ہے۔اس کے علاوہ چین سے جو تیل کی مانگ تھی‘ وہ بھی کم ہوگئی ہے۔ دبئی جو ایک عالمی سیاحتی مرکز کے طور پر ابھرا تھا‘ اسے بھی ناقابل بیاں حد تک نقصان کا سامنا ہے۔ سعودی عرب نے عمرہ اور عازمین حج کے ویزوں کی اجرائی پر پابندی عائد کی ہے۔ اس سے جہاں سعودی عرب کو اربوں ریال کا نقصان ہوگا وہیں ہر اس ملک کو بھی نقصان پہنچے گا جہاں سے مسلمان فریضہ حج یا عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ سعودی حکومت کی جانب سے اگر چہ کہ احتیاطی تدابیر کے طور پر یہ پابندی عائد کی گئی ہے مگر عالمی سطح پر اس کا منفی رد عمل ہے کیونکہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ وہ شہر ہیں جن کے لئے حضرت ابراہیم ؑ سے لے کر خاتم النبیین حضرت محمد مصطفےٰ ؐ نے دعائیں فرمائی ہیں۔ جہاں امن اور سلامتی کی دعائیں ہوتی ہیں‘ دوران حج دنیا بھر کے عازمین لاکھوں کی تعداد میں اکھٹا ہوتے ہیں اور اکثر وائرل انفیکشن کی شکایت ہوتی ہے اور اس کے تمام عازمین عادی ہوچکے ہیں چنانچہ جنہوں نے عمرہ کی تیاری کی تھی‘ ان میں سے بعض ایر پورٹ سے واپس ہوئے ہیں اور جنہوں نے حج 2020ء کی تیاری کی ہے‘ وہ امیدی اور ناامیدی کی کشمکش میں ہیں۔ویسے عام مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ حرمین شریفین میں اسی کی حاضری ہوتی ہے جس کا بلاوا آتا ہے۔
کورونا وائرس شاید اتنا مہلک اور خطرناک نہیں ہوگا جتنا اسے ظاہر کیا جارہا ہے۔ میڈیا کے ذریعہ خوف طاری کیا جارہا ہے اور خود ہندوستان اس سے خوفزدہ ہے۔ یوروپین یونین کے ساتھ سربراہ کانفرنس ملتوی کی جاچکی ہے۔ ابھی تک ہندوستان کو کورونا وائرس کی وجہ سے 348 ملین ڈالرس کا نقصان ہوچکا ہے۔ اس وائرس اس قدر خوف اور موت کا ڈر اس قدر طاری ہوچکا ہے کہ ایک دوسرے سے مصافحہ کرنا چھوڑ دیا گیا حتیٰ کہ ہولی نہ کھیلنے کا جہاں ہندوستان کی اعلیٰ قیادت نے اعلان کیا وہیں عوام کو بھی مشورہ دیا گیا کہ وہ احتیاط کریں۔ اس طرح یہ اتفاق ہے یا ایک سبق کہ حالیہ عرصہ کے دوران جس طرح سے بعض فیصلے کئے گئے‘ اس کا فوری طور پر جشن منانے پر قدرت کی جانب سے روک لگادی گئی ہے۔ عجیب سا لگتا ہے کہ نقاب کی مخالفت کرنے والے‘ مذاق اڑانے والے اور بعض مقامات پر چہروں سے نقاب کھینچ کر پھینک دینے والے اب خود نقاب لگائے پھر رہے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جس مذہب نے طہارت اور پاکیزگی کو نصف ایمان قرار دیا۔ جس مذہب کے ماننے والے وہ لوگ جو اپنے مذہبی اصولوں پر عمل پیرا ہیں۔ ان میں سے اکثریت کورونا وائرس ہو یا کوئی اور وائرس اس سے محفوظ ہیں۔ جنہوں نے نجاست کو امرت سمجھا‘ وہ اس سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں۔ یوں تو سعودی عرب‘ ایران اور دیگر خلیجی ممالک میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے‘ کورونا وائرس سے متاثرین کی اطلاعات ملی ہیں۔ تاہم ہندوستان جیسے ملک میں جہاں حالیہ عرصہ کے دوران مسلمانوں سے نفرت‘ دشمنی‘ ان کے سماجی بائیکاٹ‘ کی مہم چلائی جارہی ہے‘ قدرت کی جانب سے یہ ایک بہترین موقع ملا ہے کہ اسلامی تعلیمات کی دیگر برادران وطن کے سامنے بہتر اور موثر انداز میں تبلیغ کی جائے۔ جب جب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کوئی بڑے پیمانے پر کاروائی ہوتی ہے‘ قدرتی آفات بھی نازل ہوتی ہیں اور معمولی کیڑے مکوڑوں‘ جانوروں کی وجہ سے ایسے ایسے امراض پیدا ہوتے ہیں جن کے آگے انسان بے بس ہوجاتا ہے۔ بے شک بیماری اور صحت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ انسان نے اپنی ترقی اور تعلیم کا غلط استعمال کرتے ہوئے اسے انسانیت کی تباہی اور بربادی کا سبب بنادیا۔ چاہے وہ ایٹم بم‘ ہائیڈروجن بم‘ نیوٹران بم‘ نیوران بم‘ نیپام بم ہو یا نیوکلیر بم کی ایجاد یا پھر مختلف وائرس ایجاد کرکے اپنے دشمن ممالک یا کے عوام پر اس کا استعمال اس کی مثال ہے۔
لگ بھگ 110 برس پہلے پولیو کے وائرس کو ایجاد کیا گیا تھا‘ جس کی وجہ سے غریب اور ترقی پذیر ممالک کی آبادی کا ایک بڑا طبقہ معذور ہونے لگا تھا۔ کئی برس بعد اس کی دوا ایجاد کی گئی اور یہ اعلان کیا گیا کہ دنیا پولیو سے نجات حاصل کرچکی ہے۔ طاعون(Plague) جو چوہوں کی وجہ سے پیدا ہوتا تھا‘ اس سے1347-1351کے دوران یوریشیاء ممالک کے کم و بیش 20کروڑ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ آخری بار طاعون 1990ء میں گجرات میں پھیلا تھا۔ اڈوانی کی رام رتھ یاترا اور مسلم کش فسادات کے بعد۔ اس وقت صرف گجرات ہی نہیں پورا ہندوستان عالمی برادری کے لئے اچھوت بن گیا تھا۔ایسے کئی وبائی امراض ہیں۔ ویکیپیڈیا کے مطابق 1892ء میں پہلی مرتبہ2 طلبہ نوجوان سائنسدانوں نے پہلی مرتبہ روسی سائنسداں دیمتری ایوانوسکی نے تمباکو سے ہونے والی بیماریوں کا پتہ چلایا تھا۔1898ء میں جانوروں سے پھیلنے والے وائرس کے نتیجے میں پیر اور منھ کے امراض کا پتہ چلایا گیا۔ 1901ء میں پیلا بخار وائرس کا پتہ چلایا گیا جو انسان کے ذریعہ پھیلنے والا پہلا وائرس تھا۔ 1903ء میں Rabies وائرس کا پتہ چلا جو کتوں کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔ 1908ء میں پولیو وائرس‘ 1915ء میں بیکٹیریا سے پھیلنے والے امراض Bacteriophages‘ 1931ء میں خنزیر سے پھیلنے ولے Influenza وائرس‘ 1933ء میں ہیومن انفلواینزا وائرس کا پتہ چلایا گیا اور آپ جانتے ہی ہیں کہ وائرس لاطینی لفظ ہے جس کے معنی زہر کے ہیں۔ اسے وبائی امراض کے پھیلانے کے حامل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ وائرس چاہے کسی بھی قسم کا کیوں نہ ہو‘ جب بھی پھیلتا ہے تو اپنے ساتھ خوف‘ دہشت پھیلاتا ہے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں جب ہم ایک گلوبل ولیج میں ہیں۔ ہر قسم کی معلومات اور شعور رکھتے ہیں۔ اس دور میں یہ زہر ترقی یافتہ ممالک پھیلاتے ہیں‘ پہلے وائرس کا توڑ یا ویکسین کی ایجاد ہوتی ہے‘ پھر وائرس پھیلایا جاتا ہے اور اربوں ڈالرس اس ویکسین سے کمائے جاتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا‘ بلکہ آج بھی ہمارے درمیان بعض ایسے ضعیف افراد نظر آتے ہیں جن کے چہروں پر داغ نظر آتے ہیں جو چیچک کی علامت ہیں۔ اسے ہندوستانی غیر مسلم ماتا کی بیماری کہتے تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب دنیا چیچک سے نجات حاصل کرچکی ہے‘ البتہ کمسن بچوں میں کنکر پتھر اب بھی نکلتے ہیں۔ گوبری‘ کا نکلنا بہتر سمجھا جاتا ہے۔ روبیلا عام ہے‘ اس پر قابو پانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہیپا ٹائٹس پرابھی قابو نہیں پایا جاسکا۔ ایچ آئی وی یا ایڈس کی دہشت ابھی کم نہیں ہوئی۔ ایبولا نے غریب افریقی ممالک میں قیامت ڈھائی تھی اور ہزاروں میل دور رہ کر بھی دوسرے ممالک کے عوام الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے پریشان تھے۔ ڈینگو‘ اب بھی عام ہے۔ ملیریا‘ ٹائیفائیڈ کے بغیر تو کوئی بچہ بڑا ہوتا ہی نہیں۔ نیپاہ‘ وائرس نے بھی کچھ ممالک میں قہر ڈھایا تھا۔ 2011ء میں زیکا وائرس نے بڑے خطرات پیدا کردیئے تھے۔
بہر حال کورونا وائرس سے زیادہ خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ دھوپ اور درجہ حرارت میں اضافہ اس کا سب سے بڑا علاج ہے۔ سورج کی روشنی میں اللہ رب العزت نے صحت کے انمول خزانے پوشیدہ رکھے ہیں‘ جو الصبح اٹھنے کے عادی ہیں‘ وہ اسے حاصل کرتے ہیں۔ اکثر بچوں کی ولادت کے بعد انہیں یرقان ہوجاتا ہے‘ جس کے بعد انہیں Incubator میں رکھا جاتا ہے‘ تیز روشنی سے علاج ہوتا ہے۔ اگر انہی بچوں کو ابتداء سے صبح کی اولین ساعتوں کی دھوپ ملے تو ان کے جسم کی قوت مدافعت میں اضافہ ہوگا‘ ہڈیوں میں طاقت آئے گی اور کئی امراض سے نجات ملے گی۔
کورونا وائرس چند دن کا مہمان ہے‘ کچھ ہی دن میں اس نے پوری دنیا کا تختہ پلٹ کر رکھ دیا۔ اس میں بہت سارے سبق پوشیدہ ہیں‘ بشرطیکہ اس پر غور کیا جائے۔
گندگی تمام امراض کی جڑ ہے‘ صفائی ان سب کا علاج ہے۔ اور صفائی‘ پاکیزگی ہماری پہچان ہونی چاہئے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم چاہے کتنا ہی صاف ستھرے کیوں نہ رہیں‘ ہمارے محلے گندگی‘ سڑکوں اور دیواروں پر پان کی پیک‘ کچرے کے ڈھیر کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ہماری مساجد بڑی عالیشان ہوتی ہیں‘ آج کل تو ایر کنڈیشنڈ کا دور ہے۔ قیمتی ماربلس استعمال ہوتے ہیں‘ مگر ہماری اصلیت طہارت خانوں سے عیاں ہوجاتی ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کریں‘ اپنے ساتھ ساتھ اپنے محلوں کو اطراف اور اکناف کے ماحول کو بھی صاف ستھرا رکھیں تاکہ نہ قریب میں آوارہ جانور آسکیں نہ ہی ٹھہرے ہوئے پانی پر یا کچروں کے ڈھیر پر مچھر پرورش پاسکیں‘ یہی مچھر اور جراثیم تو ہر قسم کے امراض کا سبب بنتے ہیں۔
بیماریاں آتی ہیں‘ انسان کو یہ احساس دلانے کے لئے کہ وہ قدرت کے آگے بے بس ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موت کے سوا ہر بیماری کا علاج ساتھ پیدا کیا ہے۔ نبی کریم ؐ نے بھی اچھے طبیب سے علاج کروانے کی ہدایت فرمائی۔ توہم پرستی‘ بدعقیدگی سے دور رہنے کی ضرورت ہے اور آج کے دور میں یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم سب سے بہترین قوم ہیں اور ہماری پاکیزگی اس کی گواہی دے گی۔(یو این این)
جواب دیں