ذوالقرنین احمد
کورونا وائرس سے متعلق تحقیقی جائزہ پڑھنے پر پتہ چلتا ہے کہ کورونا وائرس خوف و دہشت پیدا کرنے اور دنیا کی معیشت کو متاثر کرکے معیشت کو مخصوص قوم کے ہاتھوں میں لینا ہے۔ کروانا وائرس سے اب تک جتنی اموات ہورہی ہے وہ ہسپتال میں ہورہی ہے گھروں میں بند افراد میں سے کورونا وائرس سے متاثر ہوکر مرنے کی خبر نہیں ہے۔ کیونکہ وائرس اگر خطرناک ہے تو اموات کی کثرت ہونی چاہیے تھی۔ اخبار اور الیکٹرانک میڈیا کی رپورٹ کے مطابق جتنی تیزی سے پازیٹو کیسز سامنے آرہے ہیں۔ انہیں چیک اپ سے پہلے یہی پازیٹو بتا دیا جارہا ہے۔ اور اگر انکی رپورٹ پازیٹو آرہی ہے تو پھر یہ بات بھی ہے کہ کورونا ایک دم سے جس دن رپورٹ چیک کرنے لے گئے اسی دن ہوا ایسا تو نہیں ہوسکتا اس سے قبل ایک دو ہفتے مہینے بھر پہلے بھی تو وہ مریض پازیٹو ہو سکتا ہے تو پھر چیک کرنے سے پہلے جتنے دن وہ زندہ رہا اور جن لوگوں کے بیچ میں رہا انہیں بھی مرض ہونا چاہیے تھا۔ نہ ملک میں اسکی ویکسین تیار ہوئی ہے صرف کورنٹائن کرنے سے مریض کیسے اچھے ہورہے ہیں۔ جن مریضوں کو کورنٹائن کیا جارہا ہے انہیں کوئی خاص ٹریٹمنٹ نہیں دیا جارہا ہے۔ پیراسٹامول وغیرہ دیے جارہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں اگر کورونا مریض چیک اپ سے مہینے پہلے متاثر ہوا ہو تو پھر جتنا خوف و دہشت پیدا کی گئیں ہے اسکے مطابق کورونا وائرس اگر خطرناک ہے تو وہ مریض گھر پر ہی کیوں نہیں مرگیا۔
ہزروں مزدور پیشہ افراد جو بڑے بڑے شہروں میں کام کاج کرتے تھے جہاں پر کورونا وائرس کے مریض تیزی سے پھیل رہے ہیں ایسے افراد پیدل اپنے گاؤں کے طرف سفر کر رہے ہیں اور سیکڑوں کلومیٹر کا سفر پیدل کرنے والے وہ افراد راستوں میں مر کیوں نہیں رہے ہیں۔ جبکہ وہ ایسے شہر سے ہجرت کر رہ ہے جہاں روزانہ سیکڑوں کورونا وائرس متاثرین کی رپورٹ پازیٹو آرہی ہے۔اتنا ہی نہیں ہے پھر یہ افراد جب اپنے گاؤں کسی طرح سے پہنچ رہے ہیں تو پھر اتنے ہزراوں افراد میں سے کیا کسی کو بھی کورونا نہیں ہوا ہوگا اور اگر ہوگا تو پھر اسکے زریعے اسکے ساتھ سفر کر رہے افراد کو اسکے اہل خانہ کو جہاں جہاں سے وہ مریض گزرا ہوگا ہر گاؤں شہر میں کورونا وائرس وہاں کے لوگوں میں کیوں نہیں پھیلا۔ اتنا خوف و دہشت کا ماحول کورونا وائرس پر پھیلایا جا چکا ہے کہ عام بیماریوں میں مبتلا افراد بزرگ مرد خواتین بچے ہسپتال جانے سے کترا رہے ہیں۔ یہاں تک کے پریگننٹ خواتین کو بھی ہسپتال لے جانے سے لوگ خوفزدہ ہے۔ کے انہیں کورونا وائرس متاثرہ نہ بتلا دیا جائے۔
آئیندہ کچھ دنوں میں یا مہینوں میں زیادہ اموات عام بیماروں کو چھپانے کی وجہ سے ہوگی جسے کورونا کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔اگر یہ وائرس حد درجے خطرناک ہوتا تو اس بیماری سے ان چالیس پینتالیس روز میں لاکھوں افراد موت کا مزہ چکھ چکے ہوتے۔ اگر اس بات کو نہیں سمجھا گیا تو ملک قحط سالی، بے روزگاری بھوک مری اور بہت سارے جرائم سے متاثر ہوگا ملک کی معیشت کو پٹری پر آنے کیلے شائد دس بیس سال لگ جائے۔سرکاری نوکری پیشہ افراد کی اجرت کو کم کرنے پر حکومت غور کر رہی ہے۔ اور کئی اداروں کی اجرت کا فیصد گھٹادیا گیا ہے۔ اسی طرح ملک میں نئی سرکاری نوکریوں پر بھی پابندی عائد کی جاسکتی ہے جس طرح مہاراشٹر میں کوئی نئی بھرتی اور نئے پروجیکٹس پر پابندی لگا دی گئیں ہے۔ مزدور پیشہ افراد جن کی آبادی ملک کی ۷۵ فیصد آبادی پر مشتمل ہے اس معاشی تنزلی سے اور بے روزگاری سے جو حالات آئنڈہ ملک میں ہوگے وہ بڑے سنگین صورتحال اختیار کرے گے۔ جتنی اموات روزانہ ملک میں کینسر، ٹی بی، شوگر، ہرٹ اٹیک، جیسی بڑی بیماریوں سے ہوتی ہے کورونا اس کا ایک فیصد بھی نہیں ہے۔ اگر حکومت اپنے ناجائز عزائم کی تکمیل کیلے لاک ڈاؤن میں توسیع کر رہی ہے تو یہ ملک کے مسلمانوں کیلے ہی نہیں بلکہ تمام عوام کیلے خطرناک ہے۔
ملک کی ترقی افرادی قوت پر مشتمل ہوتی ہے افرادی قوت کے ذریعے جتنا کام ہوگا ویسے ہی ملک کی ترقی کی رفتار ہوگی، جیسے ترقی یافتہ ممالک میں ہر شخص کو حکومت کی طرف سے کچھ گھنٹے کام کرنے کیلے پابند کیا گیا ہیں۔ تاکہ ملک ترقی کر سکے۔ لیکن حکومت اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلے کورونا وائرس کا سہارا لے رہی ہے۔ ملک کی معیشت کا فیصد زیرو پر پہنچ چکا ہے۔ حکومت کے پاس پیسہ نہیں ہے عوام کے پاس روزگار نہیں ہے۔ لاک ڈاؤن کھولنا بے حد ضروری ہے کیونکہ جتنی اموات کورونا وائرس نہیں ہوگی اس سے کہی زیادہ اموات بھوک سے اور دیگر عام بیماریوں سے ہوگی۔ لاک ڈاؤن اس وبائی مرض کا حل نہیں ہے اگر وائرس ہے تو وائرس کی روک تھام کیلے ویکسین کی تیاری پر غور کرنا چاہیے ایسا ضروری نہیں ہے کہ امریکہ چین اور اسرائیل ہی سب سے پہلے ویکسین تیار کرے گے اور ہمارا ملک تیار شدہ ویکسین بھاری قیمت میں خریدے گا۔ جبکہ ملک کے وزیر اعظم غریب مزدور بے بس بے روزگار عوام سے چندے کی اپیل کر رہے ہیں۔ حکومت کے پاس نا ہی لائحہ عمل تیار ہے نا ہی قومی منصوبہ بندی کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد کی پالیسی کیا ہے یہ بھی ابتک سامنے نہیں آئیں ہے۔ اور اگر لاک ڈاؤن بڑھانے پر حکومت بضد ہے تو پھر حکومت کے پاس نا ہی اتنا پیسہ ہے نا ہی کوئی ایمرجنسی فنڈ ہے جس سے ملک کی ایک سو پینتیس کروڑ عوام کو غذا،پیسہ، ضروری اشیاء گھر بیٹھے مفت میں پہنچا دیا جائے۔ جو فنڈ پی ایم کئیر فنڈ کے نام پر جمع کیا جارہا ہے اسکا استعمال بھی کہا کیا جارہا ہے کوئی تفصیل عوام کے سامنے پیش نہیں کی گئی مزید یہ کہ پی ایم کئیر فنڈ آئڈیٹ کی تفصیل وائرل کرنے پر پابندی عائد کی گی ہے۔ حکومت ابتک کروڑوں افراد تک راشن کھانا مریضوں کو ضروری دوائیاں پہنچانے میں ناکام دیکھائی دے رہی ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
11مئی2020(فکروخبر)
جواب دیں