کورونا سے جنگ: تبلیغی جماعت امید کی کرن!

از قلم:     محمد فرقان

 

    کورونا وائرس کی عالمی وباء نے ہندوستان سمیت پوری دنیا میں کہرام مچایا ہوا ہے۔ اب تک 36 /لاکھ سے زائد افراد اس وباء کا شکار ہوچکے ہیں اور تقریباً 3/ لاکھ اموات ہو چکی ہیں۔ پوری دنیا میں اس وائرس کا کسی مذہب یا طبقے سے کوئی تعلق نہیں لیکن افسوس کہ ہمارے وطن عزیزہندوستان میں کورونا کو ایک مذہبی رنگ دے دیا گیا ہے۔ ہمارے ملک کے مختلف حصوں میں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد میں اضافہ کے بعد حضرت نظام الدین مرکز میں منعقدہ تبلیغی اجتماع میں شرکت کرنے والوں کو نشانہ بنایا جارہا تھا اور اسی کے نام پر تبلیغی جماعت کے متعلق بے بنیاد الزامات لگائے جارہے تھے۔ فرقہ پرست طاقتیں اور ملک کی گودی میڈیا اسے ملک بھر میں کورونا پھیلانے کیلئے ذمہ دار ٹھیرا رہی تھی۔ جس کے پیش نظر کورونا وائرس جیسی مہلک بیماری کو مذہبی رنگ دیتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں سے جوڑا جارہا تھا۔ جس کے چلتے ٹی وی چینلز پر”کورونا جہاد“ کے عنوان سے ڈیبیٹ اور ٹویٹر پر ہیش ٹیگ ”کورونا جہاد“ ٹرینڈ کررہا تھا۔ لیکن اب جو خبریں آرہی ہیں اس پر گودی میڈیا پر کوئی چرچا نہیں ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں اور گودی میڈیا کو سانپ سونگ گیا ہو۔ مختلف ذرائع ابلاغ سے ایسی خوشگوار خبر موصول ہورہی ہیں، جس کے مطابق ہندوستان میں کورونا کے خلاف جو جدوجہد اور جنگ جاری ہے وہ اب تبلیغی جماعت کے اراکین کی مدد کے بغیر شاید ممکن نہیں۔ داراصل تبلیغی جماعت کے شرکاء، جنہوں نے گذشتہ ماہ نئی دہلی کے حضرت نظام الدین مرکز میں ایک اجتماع میں شرکت کے بعد کورونا مثبت پائے گئے تھے۔ اب وہ صحت یاب ہوکر متاثرہ مریضوں کی جان بچانے کے لئے اپنا پلازما عطیہ کرنے کے لئے ملک کے مختلف حصوں میں آگے آئے ہیں۔
    داراصل کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کے بعد حال ہی میں طبی ماہرین کی جانب سے محدود سطح پر کی جانے والی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی تھی کہ کورونا سے متاثرہ افراد کے صحت یاب ہونے کے بعد ان کے خون میں اینٹی باڈیز کی تعداد بہت بڑھ جاتی ہے جو دوسرے بیمار افراد کو فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ مذکورہ تحقیقات کے بعد جہاں چین میں بھی کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد سے خون کا عطیہ لے کر کورونا میں مبتلا ہونے والے نئے مریضوں میں بلڈ پلازما دیا گیا تھا، وہیں اب اسی عمل کو دنیا کے مختلف ممالک امریکہ، جاپان، پاکستان سمیت اب ہندوستان میں بھی آزمایا جا رہا ہے۔ عالمی ادارہئ صحت نے بھی پلازما تھراپی کو بہت درست قرار دیا ہے۔ عالمی ادارہئ صحت کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف طریقہئ علاج کے سلسلے میں پلازما تھراپی ایک اہم دریافت ہے۔ 
    بلڈ پلازما دراصل انسانی خون کے دو اہم حصوں میں سے ایک حصہ ہے جسے’’خوناب“ بھی کہا جاتا ہے، انسانی خون بلڈ پلازما اور سیل (خلیات) پر مشتمل ہوتا ہے۔ بلڈ پلازما کا کام انسانی خون میں شامل خلیات کو تیرنے میں مدد فراہم کرنا ہے اور اسی حصے کے اچھی طرح متحرک ہونے سے ہی انسانی جسم میں پیدا ہونے والے اینٹی باڈیز انسان کی قوت مدافعت کو بڑھاتے ہیں۔ اینٹی باڈیز دراصل وہ خلیات ہیں جو غلیل نما دکھائی دیتے ہیں اور یہ انسانی خون میں موجود ہوتے ہیں، جن افراد کا مدافعتی نظام کمزور پڑ جاتا ہے، انہیں ایسی دوائی دی جاتی ہیں کہ ان کے خون میں اینٹی باڈیز کی مقدار بڑھ جاتی ہے یا وہ مضبوط بن جاتے ہیں اور اگر کسی بھی شخص کی ان اینٹی باڈیز کو نکال کر دوسرے بیمار شخص میں منتقل کیا جائے تو وہ فوری طور پر صحت مند ہو سکتا ہے۔ کورونا کے علاج کے لیے پلازما تھراپی کے استعمال پر ڈاکٹرس کا کہنا ہے کہ یہ تھراپی اسی صورت میں مریض کے لیے فائدہ مند ہے جبکہ اس پر دواؤں کا کوئی اثر نہ ہو۔ جب کورونا سے متاثر ہونے والوں کے جسم میں، کورونا سے لڑ کر مکمل صحت یاب ہونے والوں کے خون سے حاصل کردہ اینٹی باڈیز، منتقل کیے جاتے ہیں تو مریض میں اتنی قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے کہ اسکا نظام کورونا سے چھٹکارا پا لیتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک میں پلازما تھراپی کے ذریعہ اب تک کورونا وائرس سے کئی لوگ صحت یاب ہوچکے ہیں۔ چونکہ اب تک کورونا وائرس کا کوئی ویکسین یا علاج نہیں ہے تو پلازما تھراپی ہی ایک واحد صورت نظر آرہی ہے۔یہی وجہ ہیکہ انٹرنیٹ کی تاریکی دنیا ڈارک نیٹ پر کورونا وائرس سے صحت یاب ہوئے مریضوں کا خون 10 /لاکھ روپیہ فی لیٹر فروخت ہورہا ہے۔ جسکا انکشاف آسٹریلیا نیشنل یونیورسٹی (اے این یو) نے کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہیکہ ڈارک نیٹ پر موجود سیلرز یعنی فروخت کنندگان الگ الگ ممالک سے شپنگ کرکے بیرون ممالک ڈیلیوری کررہے ہیں۔ اور ایک رپورٹ کے مطابق کم از کم 12/الگ الگ ڈارک نیٹ مارکیٹ پر یہ سامان فروخت ہورہے ہیں۔
    ہمارے وطن عزیز ہندوستان میں جب اس تھراپی کا استعمال شروع ہوا اور کورونا سے صحت یاب ہونے والے افراد سے بلڈ پلازما عطیہ کرنے کی گزارش ہونے لگی تو ملک کے مختلف حصوں میں کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے تبلیغی جماعت کے افراد از خود اپنا پلازما عطیہ کرنے آگے آئے۔ اسی ضمن میں مرکز نظام الدین کے امیر مولانا سعد صاحب کاندھلوی مدظلہ نے بھی پلڈ پلازما عطیہ کرنے کی تبلیغی جماعت کے احباب سے اپیل کی تھی۔ ملک میں پلازما عطیہ کرنے والوں کی تقریباً تعداد تبلیغی جماعت والوں کی ہی ہے۔ لیکن افسوس کے مین اسٹریم میڈیا نے اس کارخیر کو اپنے چینلوں میں جگہ نہیں دی، حسب معمول اس موقع پر بھی گودی میڈیا کی اسلامفوبیا (اسلام سے دشمنی) صاف نظر آتی ہے، جس نے تبلیغی جماعت کی آڑ میں پوری امت مسلمہ اور مذہب اسلام کو اس طرح بدنام کرنے کی کوشش کی کہ ملک کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کے بائیکاٹ کی خبریں موصول ہوئیں اور بعض علاقوں سے تاجروں کو اس وجہ سے واپس کردیا گیا کہ وہ لوگ مسلمان تھے۔لیکن جب تبلیغی جماعت کے مثبت کارنامے سامنے آنے لگے تو کیا گودی میڈیا کی یہ ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ اسے بھی نشر کرتی اور جس ماحول کو اس نے نفرت سے بھر دیا اسے ختم کرکے امن و امان کی فضاء قائم کرتی؟ لیکن افسوس کہ وہ اس معاملہ پر اس طرح خاموش ہے جیسے انکی زبان کاٹ لی گئی ہو اور آواز بند ہوگئی ہو۔ بھلا ہو اس سوشل میڈیا کے ذرائع ابلاغ کا جس کے ذریعہ دنیا بھر میں یہ خبر حتی المقدور پھیلی ورنہ تبلیغی جماعت کی یہ مخلصانہ انسانیت نواز کارنامہ وہیں دفن ہوجاتا۔ تبلیغی جماعت مخلصوں کی وہ جماعت ہے جو فقط رضائے الٰہی کیلئے اور اپنی اور دوسروں کی آخرت سنوارنے کیلئے محنت کرتی ہے۔اسلام میں انسانیت کی خدمت کو بہترین اخلاق اور عظیم عبادت قرار دیا ہے، جو اسلام کی بنیادی تعلیم بھی ہے۔ تبلیغی جماعت جو لوگوں کو اللہ اور اسکے رسولؐ کی طرف راغب کراتی ہے اور گناہوں کو چھڑا کر نیکی کی راہ دیکھاتی ہے، وہ انسانیت کا قتل تو دور اسکے بارے میں تصور بھی نہیں کرسکتی۔ ایسی مخلص جماعت پر فرقہ پرست طاقتوں اور گودی میڈیا کا بے بنیاد الزام تراشی کرنا یقیناً اسلامفوبیا کی دلیل ہے۔ تبلیغی جماعت کے افراد نے انسانیت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنا بلڈ پلازما عطیہ کرکے فرقہ پرست طاقتوں کو وہ کرارا جواب دیا ہے کہ تاریخ کے اوراق میں اسے سنہرے الفاظ میں لکھا جانا چاہیے۔ یہی وجہ ہیکہ انکے اس انسانیت نواز کارنامے سے سیکولر طبقہ انکی حمایت کررہا ہے۔اس موقع پر مسلم قائدین اور مذہبی تنظیموں کو چاہئے کہ وہ آگے آکر گودی میڈیا کے خلاف مقدمہ درج کریں اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے پر انہیں معافی مانگنے کیلئے مجبور کریں۔جسکی پہل کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ نے گودی میڈیا کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا ہے۔ اسی کے ساتھ ہمیں چاہیے کہ ہم گودی میڈیا کا مکمل بائیکاٹ کریں اور جتنا جلد ہوسکے اپنا ایک میڈیا ہاؤس قائم کریں، جہاں حقیقت پر مبنی خبریں نشر کی جائیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا عجیب و غریب نظام ہے کہ جس تبلیغی جماعت پر کورونا وائرس پھیلانے کا الزام لگایا جارہا تھا آج وہی تبلیغی جماعت کورونا وائرس سے جنگ میں امید کی کرن نظر آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض امن و انصاف پسند لوگ تبلیغی جماعت کے افراد کو ”تبلیغی ہیروز“ کا لقب دے رہے ہیں!
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

7 مئی 2020 فکروخبر

«
»

قوم کے نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کی ضرورت

کورونا وائرس کی وبا اور ماہِ رمضان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے