ہندوستانی جمہوریت کے لئے خطرہ’اپوزیشن مکت بھارت‘
تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی
برسراقتدار بھاجپا تیزی سے بڑھتی جارہی ہے اور اسی تیزی کے ساتھ اپوزیشن پارٹیاں سمٹتی جارہی ہیں۔ملک کی سب سے پرانی اور طویل عرصے تک حکومت کرنے والی پارٹی کانگریس کی حکومت اب صرف پانچ ریاستوں تک بچی ہے اور وہ بھی خطروں کی زد میں ہے۔ تلنگانہ اور آندھرا میں جہاں کبھی کانگریس کا اقتدار ہوا کرتا تھا،آج وہ صفر پر پہنچ چکی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں اپوزیشن ختم ہونے کے قریب ہے اور سماج وادی پارٹی وبہوجن سماج پارٹی کا اتحاد بھی بھاجپا کا کچھ نہیں بگاڑ پایا۔ بہار میں مہاگٹھبندھن کے شکست فاش ہوئی اور اب تک وہ اپنے زخموں کو چاٹ رہا ہے۔ مہاراشٹر میں کانگریس اور این سی پی کا اتحاد کوئی کمال نہیں دکھا پایا اور دونوں پارٹیاں اب اپوزیشن کا رول نبھانے کے لائق بھی نہیں بچی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس اپنی آخری لڑائی لڑ رہی ہے اور آنے والے ایام، اس کے لئے زیاد ہ مشکل ہونے والے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی جمہوریت میں حکومت کو ایک مضبوط اپوزیشن کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بغیر حکومت کے بے لگام ہونے کا خطرہ رہتا ہے اور آج ملک میں ایسے ہی حالات ہیں۔پورے ملک میں ماب لنچنگ کے واقعات ہورہے ہیں، مذہب کے نام نفرت بڑھی ہے،جرائم میں اضافہ ہوا ہے، ہیلتھ سسٹم بگڑا ہوا ہے اور صرف بہار میں سینکڑوں بچوں نے چمکی بخار سے دم توڑ دیا مگر کسی بھی معاملے میں آواز اٹھانے والا کوئی نہیں بچاہے۔ نہ پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن میں دم خم ہے اور نہ ہی ایوان کے باہر اس کا وجود ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارا ملک بھی چین کے راستے پر جارہا ہے جہاں صرف ایک پارٹی ہوتی ہے اور اپوزیشن کا وجود ہی نہیں ہوتا۔
کانگریس بے دم
کانگریس کا کیا ہوگا؟ کدھر جائے گی اور کس کی قیادت میں آگے بڑھے گی؟یا پھر آج جس مقام پر کھڑی ہے، وہیں دم توڑ دے گی اور ختم ہوجائے گی؟اس قسم کے سوال آج عام ہیں۔ اصل میں ملک کی سب سے قدیم سیاسی جماعت کا سب سے برا وقت چل رہا ہے۔ لوک سبھا الیکشن میں ہار کے بعد کشمیر سے کنیاکماری تک کانگریس پارٹی میں شکست وریخت کا سلسلہ جاری ہے۔ کانگریس صدر راہل گاندھی اور یوپی اے صدر سونیا گاندھی کے لئے بھی یہ مشکل گھڑی ہے۔ کانگریس پارٹی کے ایک سابق جنرل سیکرٹری نے انتخابی نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اپنے نیتاؤں میں ہم آہنگی نہیں ہونے کی وجہ سے لوک سبھا الیکشن میں ایک درجن سے زائد نشستیں ہارے ہیں۔ بہرحال کانگریس اپنی تاریخ کے سب سے مشکل دور سے گزر رہی ہے اور اس کے صدر راہل گاندھی کے استعفیٰ دیدیا ہے۔ انھوں نے پارٹی کو کہہ رکھا ہے کہ وہ جلد از جلد ان کا متبادل تلاش کرلے۔حالانکہ اس صورت حال سے پریشان پارٹی کے خیرخواہوں کو لگتا ہے کہ راہل کے استعفیٰ کے سبب پارٹی انتشار کے دہانے پر پہنچ سکتی ہے، جس کا آغاز ہوچکا ہے۔
ہار کی مار
چند مہینے قبل راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کی حکومتیں بنی ہیں اور اس کے بعد امید کی جارہی تھی کہ کانگریس کم ازکم ان ریاستوں میں بہتر رزلٹ کرے گی مگر ایسا ہوا نہیں اور اب لیڈران ہی ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں۔ راجستھان میں اشوک گہلوت کے خلاف بغاوت کی آگ دھیرے دھیرے سلگ رہی ہے اور بی جے پی اس آگ میں ہاتھ سینکنے کی تیاری میں مصروف ہے۔ پارٹی نیتا اویناش پانڈے تو اشوک گہلوٹ کے ساتھ مکمل طور پر تعاون کررہے ہیں، لیکن سچن پائلٹ کے لئے، یہ آخری موقع ہے۔ریاست میں پارٹی کی کراری ہار کے لئے سچن پائلٹ اور گہلوٹ کے حامی ایک دوسرے پر الزام تراشی کررہے ہیں۔ اسی طرح مدھیہ پردیش میں دگوجے سنگھ اور دوسرے بڑے لیڈران کو الیکشن میں منہ کی کھانی پڑی ہے۔ جیوتیرادیتا سندھیا خود بھی انتخاب ہار گئے ہیں جب کہ وہ ریاست کے بڑے لیڈر ہیں۔ سندھیا کا الیکشن ہارنا سیاست کی نبض ٹٹولنے والوں کو چونکاتا ہے۔گوالیار اور چمبل خطے کے بہت سے نیتا اس پر بیان بازی کر رہے ہیں۔ کانگریس صدر راہول گاندھی نے جیوتیرادتیہ سندھیا، کمل ناتھ اوردگوجے سنگھ کے درمیان توازن قائم کرنے کے لئے سخت محنت کی اور اب بھی کر رہے ہیں مگر اس کا الیکشن میں کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ اس میں پرینکاکا کردار بھی اہم ہے۔ یہاں ایک طرف کانگریسی ایک دوسرے سے دست بہ گریباں ہیں تو دوسری طرف بی جے پی کمل ناتھ حکومت گرانے کی سازشوں میں مصروف ہے۔
سدھو کو آؤٹ کرینگے کیپٹن؟
یہ خبر پنجاب سے آئی ہے کہ کیپٹن امریندر سنگھ کی اپنے ہی وزیر نوجوت سنگھ سدھوسے نہیں پٹ رہی ہے اور انھوں نے سزا کے طور پر سدھو کا محکمہ تبدیل کر دیا ہے۔ ایک طرح سے، کیپٹن نے اشارہ کردیا ہے کہ اگرسدھو چاہیں تو اپنا راستہ الگ کرلیں۔ ویسے کیپٹن آہستہ آہستہ اپنے مخالفین کو پارٹی سے کنارے کر رہے ہیں۔ سینئر کانگریس رہنما پرتاپ سنگھ باجوہ خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ کیپٹن جانتے ہیں کہ انہوں نے لوک سبھا انتخابات میں اچھا رزلٹ دیا ہے لہٰذا یہ صحیح وقت ہے اپنے مخالفین کو کنارے لگاکر پارٹی کو اپنے کنٹرول میں کرنے کا۔ویسے سدھو کا ماضی گواہ ہے کہ وہ کرکٹ ٹیم میں تھے تب بھی کپتان سے لڑتے تھے۔
اترپردیش میں کانگریس ایک سیٹ پر سمٹی
راہول گاندھی خود امیٹھی سے لوک سبھا انتخاب ہار گئے ہیں اور پارٹی ملک کی سب سے بڑی ریاست میں سمٹ کر دوسے ایک سیٹ پر آگئی ہے۔ ویسے تو کانگریس کی یوپی میں پہلے بھی کوئی اوقات نہیں تھی اور اس کے پاس لوک سبھا کی محض دوسیٹیں ہی ہوتی تھیں لیکن حالیہ الیکشن نے اسے مزید نیچے پہنچا دیا ہے۔ یوپی کانگریس کے صدر راج ببر خود بھی ہار گئے ہیں اور انھوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ بھی دیدیا ہے۔اب بڑا سوال یہ ہے کہ کیا یوپی میں پارٹی اسی طرح چلتی رہیگی۔ کانگریس جنرل سیکرٹری پرینکا گاندھی یا جیوترادیہ سندھیا کا کیا کام ہوگا،جنھیں یوپی کی ذمہ داری دی گئی تھی؟اتراکھنڈ میں بھی پارٹی کی اچھی حالت نہیں ہے۔ کئی بڑے لیڈر پارٹی چھوڑ بھاجپا میں جاچکے ہیں اور کئی جانے کی تیاری میں ہیں۔ اسی طرح بہار میں بھی اس کے وجود پر سوالیہ نشان لگاہوا ہے۔جھارکھنڈ میں بھی اس نے بہتر رزلٹ نہیں کیا۔
دلی وہریانہ میں اٹھا پٹک
راجدھانی دلی اور اس کی قریبی ریاست ہریانہ میں کانگریس کا کھاتا بھی نہیں کھلا اور الیکشن کے دوران بڑی بڑی باتیں کرنے والے لیڈران اپنے بلوں میں دبکے ہوئے ہیں۔ان دونوں ریاستوں میں اسمبلی انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔ دلی میں سابق وزیراعلیٰ شیلادکشت تو ہریانہ میں سابق وزیراعلیٰ ہڈ کی ہار ہوئی ہے۔ ہریانہ میں، بہت سے کانگریس کے لیڈرسابق وزیر اعلی بھوپندر سنگھ ہڈا اور ان کے بیٹے دیپندرہڈا کی شکست سے خوش ہیں تو ہڈا نے ریاستی پارٹی یونٹ کے صدر کے خلاف مورچہ کھول رکھا ہے۔ یہ سب ایسے وقت میں ہورہا ہے جب دلی وہریانہ میں اسمبلی انتخابات کو بس چند مہینے باقی ہیں۔جھارکھنڈ اور مہاراشٹر میں بھی اسمبلی الیکشن ہیں۔
مہاراشٹر میں انتشار
مہاراشٹر سے پہلے خبرآئی کہ نیشنلسٹ کانگریس کا کانگریس میں انضمام ہونے والا ہے۔یہ خود شردپوار کی خواہش سے ہورہا ہے مگر پھر اس کی تردید آگئی۔اب کانگریس کے بعض لیڈروں کاماننا ہے کہ ریاست میں کانگریس کو تنہا الیکشن لڑنا چاہئے، این سی پی سے الگ ہوجانا چاہئے۔ دوسری طرف کانگریس کے کئی اہم لیڈران نے پارٹی چھوڑ بھاجپا کا دامن تھام لیا ہے جب کہ ریاست میں جلد ہی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اب سوچا جاسکتا ہے کہ اس انتشار کے بیچ پارٹی اسمبلی الیکشن کیسے لڑے گی؟
جنوب میں کانگریس کا حال
تلنگانہ میں کانگریس کی اچھی حالت رہی ہے اور ایک مدت تک اس خطے کو کانگریس کا گڑھ ماناجاتا رہا ہے۔ یہاں لوک سبھا کی 17میں سے تین اور اسمبلی میں بھی کانگریس کو کچھ سیٹیں ملی تھیں مگر حال ہی میں اس کے 12 ایم ایل اے تلنگانہ راشٹر سمیتی میں چلے گئے۔ گویا پارٹی کا بیشتر حصہ باہر ہوگیاہے۔ آندھرا پردیش میں پہلے ہی جگن موہن ریڈی پوری کانگریس کو کھاچکے ہیں۔وہ اب وزیر اعلی بھی بن گئے ہیں۔ اس طرح آندھرا میں اب کانگریس ختم ہے۔
”اپوزیشن مکت بھارت“
’کانگریس مکت بھارت‘کا نعرہ نریندر مودی اور امت شاہ کی جانب سے لگتا رہا ہے مگر آج ایسے حالات بن گئے ہیں کہ ملک ’اپوزیشن مکت‘ ہوتا جارہا ہے۔کانگریس کے ساتھ ساتھ سماج وادی پارٹی، بی ایس پی، ترنمول کانگریس، این سی پی، آر جے ڈی اور کمیونسٹ پارٹیوں کی حالت بھی اچھی نہیں ہے۔ اپوزیشن کا کردار سب سے زیادہ بااثر طریقے سے میڈیا نبھاتا تھا مگر فی الوقت وہ بھی این ڈی اے کا حصہ لگتا ہے۔ایسے میں ہندوستانی جمہوریت کے تعلق سے کوئی بڑی امید لگانا دیوانے کے خواب جیسا ہی ہے۔ ہمیں کانگریس سے کوئی ہمدردی نہیں۔ ہم یہ بھی بارہا لکھتے رہے ہیں کہ اس ملک کے تمام مسائل کے لئے سب سے زیادہ کانگریس ذمہ دار ہے،اب ایسے میں خواہ کانگریس ختم ہوجائے مگرملک کو ایسی پارٹی کی ضرورت ہے جو اسے آگے لے کر چل سکے
(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے )
30 جون 2019(فکروخبر
جواب دیں