گزشتہ ماہ کے اواخر میں کانگریس کے سینئر لیڈر نٹور سنگھ نے پارٹی لیڈر سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کے تعلق سے اپنی کتاب میں جس طرح کے انکشافات کیے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نٹور سنگھ بہت دنوں سے پارٹی میں خود کو تنہا محسوس کر رہے تھے اور وقت ہاتھ لگتے ہی دل کے پھپھولے پھوڑ ڈالے۔ ویسے کانگریس کے لیے ایسے حالات کسی بھی طور پر غیر متوقع نہیں، کیونکہ یہ تو اس کی دیرینہ روایتوں میں ہے بلکہ اسے تو کانگریس کی امتیازی خصوصیت کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا اور اس کا سبب بھی غالباً یہی ہوگا کہ کانگریس کبھی بھی معروف معنوں میں ہم خیال و ہم فکر افراد کا مجموعہ نہیں رہی ہے اور شاید یہی وجہ تھی کہ گاندھی جی نے آزادی کے بعد یہ مشورہ دیا تھا کہ کانگریس کو توڑ دیا جائے اور اس کی جگہ پر ہم خیال افراد پر مشتمل ’لوک سیوک سنگھ‘ کے نام سے ایک نئی پارٹی تشکیل دے دی جائے۔
کانگریس کے اس وقت کی قیادت نے گاندھی جی کے اس صائب مشورہ کو نظر انداز کردیا اور نتیجے کے طور پر وہ تمام لوگ جو غیر ملکی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے ایک نکاتی پروگرام پر تو متفق تھے لیکن نئے ہندوستان کی تعمیر اور ملکی معیشت کے آئندہ ڈھانچہ کے تعلق سے الگ الگ رائے رکھتے تھے، ایک قافلہ کی صورت میں ایک ایسی منزل کی طرف گامزن ہوگئے جس کے بارے میں کوئی واضح تصور ان کے ذہن میں موجود نہیں تھا۔ متضاد فکر و نظر کے حامل لوگوں میں ٹکراؤ ایک فطری بات تھی چنانچہ کانگریس بھی نہ صرف یہ کہ اس ٹکراؤ کی آماجگاہ بن گئی بلکہ آزادی کے بعد کے سفر میں کسی بھی موڑ پر وہ لمحہ بھر کے لیے بھی اس سے نجات حاصل نہیں کرسکی۔
پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل اپنی سوچ، اپنے مزاج دونوں ہی کے اعتبار سے ایک دوسرے سے اس حد تک مختلف تھے کہ انہیں ایک دوسرے کی ضد کہنا کچھ غلط نہ ہوگا۔ سردار پٹیل بڑی حد تک قدامت پسند تھے اور یہ مان کر چلتے تھے کہ ہندوستان کی سماجی اور معاشی ترقی کے پیمانے خود ہندوستان کی اپنی کارگاہوں میں ہی ڈھالے جائیں۔ وہ نہ تو کسی ازم کی سحر میں گرفتار تھے نہ اس بات کو ہی پسند کرتے تھے کہ مغرب کو بے کام و کارت معیار مطلوب قرار دے لیا جائے۔ چند لفظوں میں یہ بات یوں بھی کہی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی سوچ اور اپنی ذہنی اٹھان کے اعتبار سے خالص دائیں بازو کے آدمی تھے اور ان کی اسی سوچ نے انہیں ہندو فرقہ پرست عناصر کے لیے بڑی حد تک قابل قبول بنادیا تھا۔ اس کے برعکس پنڈت جواہر لال نہرو کی سوچ میں ترقی پسندی کا عنصر غالب تھا۔ وہ سیکولرزم، سوشلزم اور جمہوریت کے اس تصور پر یقین رکھتے تھے جو مغرب میں پروان چڑھا تھا۔ انہوں نے مغربی مفکرین کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ بھی کیا تھا اور چانکیائی سیاست سے بھی بعض معاملات میں خاصے متاثر نظر آتے تھے۔ ان کی اور سردار پٹیل کی سوچ میں جو بعد المشرقین پایا جاتا تھا اس کے سبب ان دونوں میں ٹکراؤ لازمی تھا اور یہ ٹکراؤ مختلف موقعوں پر مختلف شکلوں میں سامنے بھی آیا لیکن گاندھی جی کے قتل کے دو سال بعد ہی سردار پٹیل کی موت ہوگئی جس کے سبب یہ ٹکراؤ کانگریس کی ٹوٹ پھوٹ یا تقسیم کا سبب نہ بن سکا۔
سردار پٹیل کی موت کے بعد پنڈت نہرو کانگریس کے غیر متنازعہ لیڈر کے روپ میں اُبھرے۔ کئی اعتبار سے وہ کانگریس کے ہم معنی بن گئے۔ ان پر انگلی اٹھانے کی جسارت کرنے والوں کے لیے کم از کم کانگریس میں کوئی جگہ باقی نہیں رہ گئی تھی لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا کہ کانگریس اندرونی گروپ بازی سے پاک ہوچکی تھی۔
پنڈت جواہر لال نہرو کی قدآور شخصیت اور ان کی غیر معمولی مقبولیت کے باوجود ان کی پالیسیوں سے اختلاف کرنے والے پارٹی میں اب بھی موجود تھے اور اسی طرح کے لوگوں کا ایک گروپ 1952 میں اچاریہ کرپلانی کے ساتھ کانگریس سے الگ ہوگیا اور کسان مزدور پرجا پارٹی وجود میں آئی۔ پھر اسی طرح کی کہانی 1967 میں دہرائی گئی جب چودھری چرن سنگھ اور کچھ دوسرے لوگوں نے کانگریس سے الگ ہوکر نئی پارٹیاں بنائیں۔ بعد ازاں اندراگاندھی کے دور اقتدار میں ٹوٹ کا عمل بڑے پیمانہ پر شروع ہوا اور پارٹی کی مرکزی قیادت کے دو دھڑوں میں تقسیم ہوجانے کے نتیجہ میں اندرا کانگریس اور تنظیمی کانگریس کی تشکیل عمل میں آئی۔ پھر 1977 میں جنتا پارٹی کی زمام اقتدار جن لوگوں نے سنبھالی وہ بھی کانگریس کے آسمان کے ہی ٹوٹے ہوئے ستارے تھے۔ جنتا پارٹی کی حکومت اور جنتا دل حکومت میں جو دو اشخاص وزارت عظمیٰ کی مسند پر براجمان ہوئے وہ کانگریس کی صف اول سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ بعد ازاں جنتا دل حکومت ختم ہونے کے بعد چند رشیکھر نے وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری سنبھالی جو کانگریس میں ینگ ٹرک کے نام سے جانے جاتے تھے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کانگریس میں متضاد فکر اور متضاد ذہن و مزاج کے لوگ ہمیشہ رہے ہیں اور ان کے درمیان جب بھی ٹکراؤ کی نوبت آئی ہے تو پارٹی ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے دوچار ہوئی ہے یا پھر کچھ لوگوں نے پارٹی سے نکل کر اپنے لیے نئے ٹھکانے تلاش کرلیے ہیں۔
نٹور سنگھ معاملے کو بھی مذکورہ بالا حالات کے تناظر میں ہی دیکھنا چاہئے۔ انہوں نے اپنا ٹھکانہ یا تو تلاش کرلیا ہے یا پھر کانگریس دشمنوں کے آلہ کار بن کر کانگریس پارٹی کو ایک بار پھر تقسیم کی دہلیز پر پہنچانا چاہ رہے ہیں۔ اس وقت چونکہ کانگریس کی نیا منجدھار میں ہچکولے لے رہی ہے اس لیے نٹور سنگھ جیسے نہ معلوم کتنے لوگ ساحل نامراد پر بیٹھے ٹھٹھے لگار ہے ہیں۔ لیکن وقت کے بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ حالات کے اُتار چڑھاؤ کانگریس نے بہت دیکھے ہیں۔ موجودہ پڑا وقت بھی گزر ہی جائے گا۔ سونیا گاندھی ایک بردبار خاتون ہیں۔ انہوں نے پہلے بھی کانگریس کی نیا پار لگائی ہے اور پارٹی کے تن مردہ میں جان ڈالی ہے اور اب بھی وہی موجودہ طوفانی لہروں کے چنگل سے بھی چھٹکارا دلائیں گی۔
اس وقت پارٹی جن خطرناک حالات سے گزر رہی ہے ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ پارٹی لیڈران اپنے اور غیروں کو پہچاننے کی کوشش کریں اور غور کریں کہ پارلیمانی انتخاب میں شرمناک شکست سے آخر کیوں دوچار ہونا پڑا؟ ملک کے سیاسی حالات جس طرح کی غمازی کر رہے ہیں اس تناظر میں پارٹی سے ناراض مسلمانوں کی ہمدردی بھی حاصل کی جاسکتی ہے بشرطیکہ پارٹی قیادت کانگریس کو سچ مچ ایک سیکولر اور جمہوریت پسند پارٹی کے قالب میں ڈھال سکے۔ مسلمان کانگریس سے پوری طرح بدظن ہیں، وہ یہ محسوس کر رہے ہیں کہ ان حالات میں انہیں نہ تو انصاف ہی مل سکتا ہے اور نہ ہی ان کے زخموں کے اندمال کے سلسلہ میں کوئی مثبت اور نتیجہ خیز کوشش ہی سامنے آرہی ہے۔ کانگریس سے ان کی بیزاری کا مظاہرہ کئی دہائیوں سے انتخابات میں ہوتا رہا ہے اور پارٹی لیڈران نے اپنے عمل اور بے عمل دونوں کے ہی ذریعہ پارٹی کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں بی جے پی اور اس میں کوئی بہت زیادہ فرق باقی نہیں رہ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سماج کے دوسرے طبقات بھی پارٹی سے بدظن ہوگئے اور نتیجہ اب سب کے سامنے ہے۔
جواب دیں