سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس اپنے خاتمے کی طرف بڑھ رہی ہے؟ کیا ملک کی سب سے پرانی پارٹی کے دن اب لد چکے ہیں؟ کیا اب وہ ہمیشہ کے لئے اقتدار سے محروم ہوجائے گی؟ سونیا اور راہل گاندھی اس ڈوبتے جہاز کو نہیں بچاسکتے؟ کیا پرینکا گاندھی اب آخری سہارا کے طور پر سامنے آئیں گی اور جس کام کو ان کی ماں اور بھائی نہ کرسکے اب پرینکا کرینگی؟ یا پھر اب اس خاندان کا راج ہمیشہ کے لئے تمام ہوجائے اور کانگریس تاریخ کا ایک حصہ بن کر رہ جائے گی؟ اس قسم کے سوالات صرف میڈیا ہی نہیں بلکہ خود کانگریس کے اندر بھی اٹھ رہے ہیں اور پارٹی کے اندر زبردست اتھل پتھل ہے۔ اندر بے چینی کی لہر پائی جاتی ہے اور یہ لاوہ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ مہاراشٹر اور ہریانہ سے بھی اس کا صفایا ہوگیا اور ملک کے اندر صفائی ابھیان چلانے والے وزیر اعظم نریندر مودی نے دیوالی سے پہلے اس کے اقتدار کا صفایا کردیا۔اسی کے ساتھ ایک ایسے خاندان کی حکومت ملک سے ختم ہوگئی جس نے
آزادی کے بعد سب سے زیادہ راج کیا تھا۔ سب سے پہلے وہ مغربی بنگال سے ختم ہوئی ۔ اس کے بعد بہار اور اترپردیش سے اس کا صفایا ہوا۔ پھر تمل ناڈو میں اس کے ہاتھ سے اقتدار گیااور گجرات اس کے ہاتھ سے نکلا۔ حالیہ دور میں راجستھان اور دلی سے بھی اس کی حکومت بری طرح ختم ہوگئی جبکہ برسوں قبل وہ مدھیہ پردیش سے اس طرح گئی کہ آج تک واپس نہیں آئی اور اب اس کے آثار بھی دکھائی نہیں دیتے۔ مہاراشٹر اور ہریانہ سے اس کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ملک میں صرف کرناٹک اور کیرل ہی قابل ذکر ریاستیں ہیں جہاں اس کی حکومت بچی ہے۔ آسام میں اس کے اقتدار کا دیا ٹمٹما رہا ہے اور ہلکی سی آندھی بھی اسے بجھانے کے لئے کافی ہے۔کانگریس خود اپنوں کے ہاتھوں اس مقام تک پہنچی ہے اور اب اس کی ناؤ کا کوئی کھیون ہار نہیں ہے۔ سونیا اور راہل پہلے ہی ہمت ہار چکے ہیں اور اسے ہواؤں کے سہارے چھوڑ دیا ہے۔ پرینکا گاندھی کی طرف اب اس کے مسافروں کی نگاہیں اٹھ رہی ہیں مگر سوال یہ ہے جب کشتی ڈوبنے رہی ہے اور اس کے پار لگنے کی کوئی امید نہ ہو تو ناخدا بدلنے سے فائدہ؟
اپنوں نے غرق کیا کانگریس کا بیڑا
مہاراشٹر اور ہریانہ میں کانگریس سرکار کی کمان پرتھوی راج چوان اور بھوپندر سنگھ ہڈا کے ہاتھ میں تھی جو خود ہی سپہ سالار اور خود ہی سپاہی بھی تھے۔ وہ تنہا میدان میں ڈٹے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ کوئی فوج نہیں تھی۔ان کی مرکزی قیادت نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا تھا اور پارٹی کا ہی ایک طبقہ اپنے امیدواروں کو ہرانے میں لگا ہوا تھا۔ کانگریس کی شکست کے لئے یہی کیا کم تھا کہ اس کے لیڈروں پر گھوٹالوں کے الزامات تھے۔ کمر توڑ مہنگائی پر قابو نہ پانے کے سبب اس کے خلاف عوام کی ناراضگی تھی مگر اسی کے ساتھ جب خود کشتی کے سوار اسے ڈبونے میں لگے ہوں تو کون بچاسکتا ہے۔ دونوں ریاستوں میں پارٹی کے اندر ہی ایسے لوگ تھے جو اسے ہرانا چاہتے تھے اور اندر اندر اس کی جڑیں کھولی کر رہے تھے۔ کانگریس کی جیت کے پیچھے نہرو۔گاندھی خاندان کا ہاتھ رہتا تھا مگر اب یہ چمتکار بھی ختم ہورہا ہے اور اس نام پر ووٹ دینے والے باقی نہیں بچے ہیں۔ پہلے لوگوں کا ماننا تھا کہ کانگریس ہی اس ملک کو چلاسکتی ہے مگر جو لوگ ایسا مانتے تھے اب وہ نسل ختم ہونے کے قریب ہے اور نئی نسل اپنے انداز میں سوچتی ہے۔ اب لوگ نہرو خاندان کے نام پر نہیں کام دیکھ کر ووٹ کرتے ہیں اور یہ سچائی ہے کہ کانگریس کے گزشتہ دس سال کے اقتدار میں بڑے بڑے گھوٹالے ہوئے ہیں۔ ہر طرف لوٹ مچی رہی اور سونیا گاندھی نے اسے روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ اگر کسی نے اس لوٹ پاٹ کے خلاف آواز اٹھائی تو اس کا مذاق اڑایا گیا۔ کرپشن روکنے کے لئے لوک پال بل لانے کی بات ہوئی تو اسے دانستہ طور پر کمزور کیا گیا کہ کرپٹ لوگوں کو بچاؤ کا راستہ مل جائے۔ جب اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے حوصلے اس طرح سے بڑھ جائیں تو عوام کب تک برداشت کرسکتے ہیں۔ یہ سب مرکز ہی نہیں بلکہ ریاستوں میں بھی ہوا۔
کانگریس نے زمینی لیڈروں کو ابھرنے نہیں دیا
کانگریس کا ایک خراب پہلو یہ بھی رہا کہ اس نے کسی بھی ریاست میں زمینی سطح کے لیڈروں کو ابھرنے نہیں دیا اور ہمیشہ چاپلوسوں اور حاشیہ نشینوں کو آگے بڑھایا گیا۔ اعلیٰ عہدے اور اہم وزارتیں صرف انھیں لیڈروں کو دی گئیں جن کی اپنی کوئی اوقات نہیں تھی اور پنچائت الیکشن جیتنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ وہ الیکشن جیتتے تھے تو پارٹی کے نام پر اور اس روایتی ووٹ کے سبب جو کانگریس کے ساتھ جاتاتھا۔ جن لیڈروں کی کوئی اوقات نہیں ہوتی تھی انھیں کو وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بھی بیٹھایا جاتا تھا تاکہ وہ مرکزی قیادت کے خلاف بغاوت نہ کرسکے۔جو لیڈران ذرا اونچا اڑے ان کے ساتھ قدرت نے اچھا برتاؤ نہین کیا اور وہ چل بسے۔ ایسے لیڈروں میں مادھو راؤ سندھیا، راجیش پائلٹ اور وائی ایس آر ریڈی کے نام لئے جاسکتے ہیں۔ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی زمینی لیڈر تھیں تو کانگریسیوں نے پارٹی کے اندر رہنے نہیں دیا اور انھوں نے ترنمول کانگریس بنالی۔ آندھرا پردیش میں کرن ریڈی کو ان کے والد کی طرح مقبولیت ملنے لگی تو انھیں جیل میں ڈال دیا گیا اور سی بی آئی کو پیچھے لگادیا گیا۔ آج وہ وائی ایس آر کانگریس بناکر الگ ہوچکے ہیں۔ اس طرح کی کئی مثالیں سامنے ہیں۔ دگوجے سنگھ ، احمد پٹیل، پی چدمبرم، کپل سبل اور سلمان خورشید جیسے بے زمین لوگ اس لئے کانگریس پر چھائے رہے اور ملائی دار وزارتیں پاتے رہے کہ وہ سونیا گاندھی کے درباری اور حاشیہ نشیں تھے۔ ان میں کسی کی بھی اوقات نہیں تھی کہ وہ پنچایت الیکشن بھی اپنے بل بوتے پر جیت پاتے۔ اسی کوالیٹی کی بنیاد پر منموہن سنگھ وزیر اعظم بنے اور پرنب مکھرجی صدر جمہوریہ کے عہدے تک پہنچے۔اگر ان کے اثرات بھی عوام پر ہوتے تو یہ بھی ممتا بنرجی اور کرن کمار ریڈی کی طرح پارٹی سے نکال دیئے گئے ہوتے۔ آج حالت یہ ہے کہ کانگریس کے پاس کسی بھی ریاست میں کوئی لیڈر نہیں ہے۔ مغربی بنگال، آسام، اڈیشہ، بہار، اترپردیش، مدھیہ پردیش، راجستھان، گجرات، تمل ناڈو، کرناٹک، کیرل، مہاراشٹر ہر جگہ پارٹی اچھے اور زمینی لیڈروں سے خالی ہے۔ سونیا گاندھی کے درباری جو پارٹی کے نام پر کرسی کے مزے لیتے رہے ہیں آج پریشان ہیں کہ کیا کریں اور روزگار سے کیسے لگیں۔ کپل سبل کو ہمیشہ اہم وزارتیں ملتی رہیں مگر ان کی اوقات ایسی نہیں کہ وہ دلی کی کسی بھی سیٹ سے کونسلر کا الیکشن جیت سکیں۔ کانگریس کے اچھے دن تھے تو پارٹی کے ووٹ سے جیتا کرتے تھے مگر اب پارٹی کے برے دن آگئے ہیں تو ان کی سیاسی حیثیت بھی دوکوڑی کی ہوگئی ہے۔ دگوجے سنگھ مدھیہ پردیش سے باہر ہوچکے ہیں اور پی چدمبرم کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ سلمان خورشید اور غلام نبی آزاد جیسے کچھ شوبوائے ،مسلمان کے نام پر سامنے کر دیئے جاتے ہیں مگر اپنی بروادری میں بھی انھیں کسی مسلمان کا اعتماد حاصل نہیں۔جو لیڈران ہیں وہ یاتو ٹی وی چینلوں پر نظر آتے ہیں یا سونیا گاندھی کے دربار میں،عوام کے ساتھ کوئی بھی دکھائی نہیں دیتا۔ یوپی میں ریتا بہوگنا کہیں کہیں نظر آتی ہیں مگر بہار میں تو میدان بالکل خالی ہے ،شکیل احمد صرف ٹی وی چینلوں پر دکھائی دیتے ہیں۔یوپی میں چھگن بھجبل ہیں جو کانگریس نہیں شیوسینا کی پروڈکٹ ہیں۔آج انھیں حالات نے کانگریس کو اس مقام پر پہنچایا ہے کہ اس کے وجود پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
پرینکا کانگریس کو بچا پانئینگی؟
جس وقت ہریانہ اور مہاراشٹر کے انتخابی نتیجے آرہے تھے کانگریسیوں کا ایک گروہ سونیا گاندھی کے گھر کے سامنے نعرے لگا رہا تھا ’’پرینکا لاؤ کانگریس بچاؤ‘‘ابھی اس رزلٹ کو زیادہ وقت نہیں بیتا تھا کہ لکھنو اور الہ آباد میں ’’پرینکا لاؤ‘‘ کے پوسٹر لگ گئے تھے۔ اس ملک پر کانگریس کے اقتدار کی پرانی تاریخ رکھتی ہے اور ملک کے اندر آج بھی بی جے پی کے بعد سب سے زیادہ ووٹ پانے والی پارٹی وہی ہے مگرسوال یہ ہے کہ کیا اس کے مستقبل میں واپسی کے کچھ امکانات بھی ہیں؟ کیا پرینکا کے اندر وہ چمتکار ہے جس سے ملک کے ووٹر دوبارہ کانگریس کی طرف لوٹ آئیں؟ اصل میں سونیا گاندھی کے اوپر بھی دباؤ پڑ رہا ہے کہ وہ پرینکا کو سرگرم سیاست میں لائیں اور کانگریس کوبچائیں مگر پارٹی کے حکمت عملی ساز فی الحال اس کے لئے منساب موقع نہیں مانتے اور وہ کسی صحیح وقت کے انتظار میں ہیں۔ لیکن اسی انتظار میں کہیں وقت نہ نکل جائے۔ کیونکہ کانگریس جس ریاست سے گئی ہے وہاں پھر واپس نہین آئی ہے۔ مغربی بنگال میں اس کی زمین سب سے پہلے کمیونسٹوں نے چھینی اور اب ممتا بنرجی کے پاس ہے۔ بہار میں لالو پرساد یادو ابھرے تو کانگریس کا خاتمہ ہوگیا اور وہ اس طرح گئی کہ اب واپسی کے امکانات بھی نہیں ہیں۔ اڈیشہ میں بیجوپٹنائک تو اترپردیش میں ملائم سنگھ یادو نے اس کی زمین چھینی۔ تم ناڈو میں جے للیتا اور کرونانیدھی کے بیچ کانگریس کے لئے کوئی جگہ ہی نہیں بچی ہے۔ گجرات اور مدھیہ پردیش میں بی جے پی ایک مدت سے سرکار میں ہے اور کانگریس اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ دوبارہ اقتدار میں آنے کے امکانات نہیں۔ وہ تو اپوزیشن کا رول بھی ٹھیک طریقے سے نہیں نبھا سکتی۔ اب مہاراشٹر اورہریانہ میں بھی وہ تیسرے نمبر پر چلی گئی ہے۔ ایسے میں اسے مشکل ہی لگتا ہے کہ کوئی سنجیونی دوبارہ زندہ کر سکے۔ پرنیکا کو اس کے مرض کا علاج سمجھا جارہا ہے مگر اس علاج میں بھی اتنی تاخیر کی جارہی ہے کہ شاید مریض چل بسے۔ کانگریس کے خاتمے کے بعد ایسی سیاسی پارٹی کی بھی ضرورت ہے جو اس کا سیکولرمتبادل بن کر ابھرے۔ آج ضرورت صرف ایک متبادل ہی کی نہیں بلکہ ایک مضبوط اپوزیشن کی بھی ہے۔
جواب دیں