یہ درست ہے کہ یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کا مطالبہ اور مشورہ دستورِ ہند کی دفعہ ۴۴ کو بنیاد بناکر کیا جاتاہے اور اس کے تحت حکومت کو یہ کوشش کرنے کا حق ملا ہوا ہے کہ وہ ہندوستان کے تمام علاقوں کے شہریوں کیلئے ایک قانون بنائے لیکن یہ کام دستور کے رہنما اصولوں کے تحت آتا ہے۔ اور جہاں رہنماء اصو ل اور بنیادی حقوق میں ٹکراؤ ہو وہاں بنیادی حقوق کو ہی اولیت حاصل رہے گی جیسا سپریم کورٹ اپنے ایک فیصلہ ’’ مزواملس بنام یونین آف انڈیا‘‘ اے آئی آر ۱۹۸۰ء میں واضح کرچکا ہے کہ’’ بنیادی حقوق پر رہنما اصولوں کو اولیت دیکر دستور کے بنیادی ڈھانچہ کو متاثر نہیں کیاجاسکتا‘‘
لہذا جب ملک کی پارلیمنٹ کو ایسا کوئی قانون بنانے کا حق نہیں جو دستور کے سیکولر کردار کے منافی ہو یا بنیادی حقوق پر رہنما اصول کو ترجیح دے تو رہنما اصول کی دفعہ ۴۴ کو بنیاد بناکر یکساں سول کوڈ کی عمارت کھڑی کرنا کس طرح درست ہوسکتا ہے جبکہ اس کی وجہ سے نہ صرف مذہبی آزادی کا بنیادی حق متاثرہوگا بلکہ ملک کا سیکولر کردار بھی مذاق بن کر رہ جائے گا۔
اس قدر بنیادی اور اہم پہلو کو نظرانداز کرکے عدلیہ، عوام اور سیاسی پارٹیوں میں سے جو عناصر یکساں سول کوڈ بنانے کی وکالت کررہے ہیں ان کے اس جذبہ کی ملک کے سیکولر اور انصاف پسند حلقوں کی طرف سے حوصلہ شکنی ہونا چاہئے۔ کیونکہ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں، عیسائی بھی اپنا علاحدہ پرسنل لا رکھتے ہیں اور سکھوں کے طرف سے بھی مطالبہ ہوتا رہا ہے کہ دستور کی دفعہ ۲۵ میں ترمیم کرکے ان کا پرسنل لا الگ کیا جائے، اس طرح پرسنل لا کا دائرہ سمیٹنے کے بجائے مزید پھیلانے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک سپریم کور کے چند سال پہلے دیئے گئے فیصلہ میںیکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی حمایت کا سوال ہے تو اس بارے میں ۱۹۹۶ء کے سپریم کورٹ کے ہی ایک فیصلہ کا حوالہ کافی ہوگا جس میں اس وقت کے چیف جسٹس اے ایم احمدی، جسٹس سجاتا تاوی منوہر اور جسٹس ویکٹا سوامی پر مشتمل سہ رکنی بنچ نے اپنے فیصلہ میں کہا تھا کہ ’’ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی سفارش کرنا عدالتوں کا کام نہیں ہے، یہ کام قانون ساز ادارے کرسکتے ہیں، اگر اس بارے میں کسی کو شکایت ہے تو اسے عدالت کے بجائے مجالسِ قانون ساز سے رجوع کرنا چاہئے۔
بہتر بات یہی ہوگی کہ اقلیتوں کو آئے دن کی پریشانی اور ذہنی انتشار سے بچانے کے لئے یکساں سول کوڈ کے رہبر اصول کو دستور سے خارج کردیا جائے، جن ممالک میں اقلیتیں آباد ہیں وہاں ان کا اپنا پرسنل لاکام کررہا ہے ایسے ممالک میں سابق کمیونسٹ ملک اور چین بھی شامل ہیں، پھر ہندوستان جیسے متعدد مذہبوں، زبانوں اور تہذیبوں کے ملک میں یہ کس طرح ممکن ہے کہ سب کو ایک لاٹھی سے ہانک دیا جائے کیا ایسی کوئی بھی کوشش ملک میں فتنہ وفساد بڑھانے اور قومی یک جہتی کو نقصان پہونچانے والی ثابت نہ ہوگی۔ جہانتک قانون ساز اداروں کا تعلق ہے تو ان پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسا کوئی قانون نہ بنائیں، جس سے کسی فرقے یا طبقے کے جذبات مجروح ہوتے ہوں کیونکہ لیجسلیچر عوام یا قوم کا نمائندہ ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ بنایا گیا قانون عوام کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے لہذا کوئی قانون بنانے سے قبل اس کے مضمرات پر غور وخوض ضروری ہے ، مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی کابینہ اس کا لحاظ بھی رکھتی ہیں جیسا کہ مطلقہ خواتین کے حقوق سے متعلق مجوزہ بل کو مہاراشٹر حکومت کی کابینہ نے اقلیت بہبود کے سابق وزیر عارف نسیم خاں کے احتجاج پر ایوان میں پیش کرنے پر روک لگادی تھی کیونکہ یہ قانون جہاں شرعی قوانین میں مداخلت ہے، وہیں اس کو آئین کی صریح خلاف ورزی سے بھی تعبیر کیا جاسکتا تھا، ماہرین کی رائے ہے کہ شادی اور طلاق کے امور سے متعلق قوانین بنانے کا حق آئین کی رو سے صرف پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔ ریاستی اسمبلیوں کو نہیں، مہاراشٹر اسمبلی ہو یا کوئی دوسری اسمبلی یا ریاستی سرکاریں حسب ضابطہ انہیں ایسے کسی قانون کو بنانے کا اختیار آئین ہند نے نہیں دیا ہے۔ ’’شاہ بانو مقدمہ ‘‘ کے فیصلہ میں بھی عدالت کی طرف سے ایسی ہی جسارت ہوئی تھی تو اسے شریعت میں مداخلت سے تعبیر کرکے مسلمانوں نے نہ صرف تحریک چلائی بلکہ قانون کو تبدیل کراکر ہی دم لیا تھا، بہتر ہے کہ ایسی کوئی صورت حال پیدا نہ ہو، اس کا مرکز اور ریاستی حکومتیں لحاظ رکھیں، کیونکہ کامن سول کوڈ کے ڈنڈے سے سبھی کو ہانکا نہیں جاسکتا، یہ حقیقت کم از کم ماہرقانون جسٹس مارکنڈے کاٹجو کو ذہن نشین کرلینا چاہئے کیونکہ وہ اکثر مسلم پرسنل لا کے خلاف بیان دیتے رہتے ہیں۔
جواب دیں