جی ہاں! چونکئے نہیں، اس ملک میں ایسے قوانین موجود ہیں جو مسلمانوں کے ساتھ بھید بھاؤ کی اجازت دیتے ہیں اوراسی کا فطری نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب کے مطابق نہ تو سرکاری نوکری ملتی ہے اور نہ ہی وہ پارلیمنٹ اسمبلی اور قانون ساز اداروں میں جاپاتے ہیں۔ اس سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مسلمان تعلیمی میدان میں پچھڑے ہوئے ہیں جس کے سبب وہ مقابلہ جاتی امتحانات میں پیچھے رہ جاتے ہیں مگر اسی کے ساتھ دوسری سچائی یہ بھی ہے کہ ان کے ساتھ قانون بھی ناانصافی کرتا ہے اور ایسا ہی ایک قانون ہے دفعہ ۳۴۱۔یوں تو آئین ہند کے اندر کہا گیا ہے کہ سرکار کی ذمہ داری ہوگی کہ تمام شہریوں کے ساتھ انصاف کرے اور یکساں برتاؤ کرے مگر اسی کے اندر یہ دفعہ بھی ہے جو ناانصافی کی اجازت دیتی ہے۔ اس میں ترمیم کرنے کے لئے مسلمانوں کے مختلف طبقات کی طرف سے آواز اٹھتی رہتی ہے مگر کسی سرکار نے اب تک اس جانب توجہ نہیں دیا اور سابقہ منموہن سرکار نے تو دانستہ طور پر اس سے بے اعتنائی برتی تھی۔ آج بی جے پی کی سرکار ہے اور نریندر مودی بار بار کہتے رہے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ مساوات کا سلوک کرینگے اور انصاف کرینگے۔ ایسے میں ان سے سوال لازمی ہے کہ کیا اس دفعہ میں لگی ہوئی مذہبی قید بھی وہ ختم کرینگے؟ ان کی پارٹی جو تمام شہریوں کے لئے ایک آئین کی بات کہتی رہی ہے اس میں کیا مسلمانوں کے ساتھ ہورہی ناانصافی کا خاتمہ بھی شامل ہے یا صرف زبانی جمع خرچ مقصود ہے؟ ہم آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت سے بھی پوچھنا چاہیں گے کہ وہ جو ملک کے تمام شہریوں کو ہندو قرار دیتے ہیں تو پھر اس اعتبار سے ان ہندووں میں بھید بھاؤ کا مطلب کیا ہے؟ کیا وہ نہیں چاہینگے کہ مذہب کے نام پر ہورہی ناانصافی کا خاتمہ کیا جائے اور ان ہندووں کو بھی انصاف ملے جواللہ کو ایک مانتے ہیں اور محمد ﷺ کو اس کا رسول مانتے ہیں۔ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے ہیں اور روزہ ، زکوٰۃ وحج کو اپنے مذہب کے بنیادی ارکان مانتے ہیں۔
دفعہ۳۴۱ کیا ہے؟
راشٹریہ علماء کونسل نے چند سال قبل راجدھانی دلی کے جنتر منتر پر ایک مسلسل دھرنا کا اہتمام کیا اور حکومت ہند سے مطالبہ کیا کہ دفعہ ۳۴۱ میں ترمیم کیا جائے۔ اگر یہ دفعہ نہ ہوتی تو آج قانون ساز اداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی اس قدر کم نہ ہوتی۔ جمعیہ علماء ہند کے دونوں گروہ سرکار سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ اس دفعہ سے مذہبی قید کا خاتمہ کیا جائے۔ جماعت اسلامی ہند، کل ہند مجلس مشاورت، آل انڈیا ملی کونسل اور دوسری چھوٹی بڑی کئی تنظیمیں اس سلسلے میں آواز اٹھاتی رہی ہیں۔ کسی زمانے میں بہار اسمبلی کے اسپیکر رہے غلام سرور (مرحوم) اس سلسلے میں اکثر آواز اٹھاتے تھے اور اپنے اخبار روزنامہ سنگم ،پٹنہ میں لکھتے بھی تھے ۔ ان کے داماد اور بہار کے مشہور سرجن ڈاکٹر ایم اعجاز علی اور صحافی علی انورنے اس سلسلے میں تحریک چلائی اور دونوں ہی راجیہ سبھا کے ممبر بن گئے اور پارلیمنٹ میں اس ایشو کو اٹھایا بھی مگر آج تک کسی بھی سرکار نے اس پر کان نہیں دھرا۔ہم جن سیاسی پارٹیوں کو ووٹ دیتے رہے وہی ہمارے ساتھ ناانصافی کرتی رہیں۔
کچھ اپنے دوست بھی ترکش بدوش پھرتے ہیں
کچھ اپنا دل بھی کشادہ ہے کیا کیا جائے
دفعہ ۳۴۱ کیا ہے اور اس کے نقصانات کس طرح مسلمانوں کو اٹھانے پڑے اس بات سے اکثر مسلمان ناواقف ہیں۔ اصل میں یہ قانون انگریزی عہد حکومت میں بناتھا اور چونکہ وہی برٹش عہد کا قانون ہی ہمارے ملک میں آج بھی تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ چلتا ہے لہٰذا اس قانون کو بھی باقی رکھا گیا۔ اس قانون میں کہا گیا ہے کہ چونکہ ذات پات کے سسٹم کے سبب ملک کا ایک طبقہ انتہائی پسماندہ رہ گیا جسے شڈول کاسٹ اور شڈول ٹرائب کہا جاتا ہے اس کے لئے سرکار کچھ خصوصی بندوبست کرے گی۔اس خصوصی انتظام کے تحت اس کے لئے ریزرویشن کی سہولت رکھی گئی یعنی تعلیمی اداروں سے لے کر سرکاری ملازمت اور قانون ساز اداروں میں بھی یہ ریزرویشن رکھا گیا۔ ظاہر ہے کہ یہ انصاف کا تقاضہ تھا اور ملک کے عوام کا ایک بڑا طبقہ جو عہد قدیم سے بھید بھاؤ کا شکار رہا اسے انصاف دینے کی یہ ایک پہل تھی۔ اس قانون میں مذہب کی کوئی قید نہ تھی اور شیڈول کاسٹ و شڈول ٹرائب کا خواہ کسی بھی مذہب سے تعلق ہو اسے یہ سہولت دی گئی تھی۔ اس کے تحت اسمبلی اور پارلیمنٹ کی سیٹیں بھی ریزرو کی گئی تھیں جو آج تک ریزرو ہیں۔اس بندوبست کے تحت ساڑھے بائیس فیصد ریزرویشن ملک کے انتہائی پسماندہ ایس سی، ایس ٹی کے لئے رکھا گیا ہے۔ یہ سرکاری ملازمتوں، تعلیمی اداروں سے لے کر پارلیمنٹ اور اسمبلی نیز میونسپلٹی ،کارپوریشن اور پنچایت تک میں جاری ہے۔
مسلم دشمنی کا کھیل
ملک آزاد ہو ا اور اقتدار کانگریس کے ہاتھ میں آیا تو اس نے اس میں ایک ترمیم کرکے بہت خاموشی کے ساتھ مذہبی قید لگادیا۔ اس نے اس قانون میں ترمیم کے لئے پارلیمنٹ میں بل پیش نہیں کیا بلکہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے یہ بدلاؤ کردیا جس کی بیشتر لوگوں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور ایک بڑا غیر منصفانہ کام ہوگیا۔ترمیم میں کہا گیا کہ جو شخص ہندو ہوگا وہی ایس سی،ایس ٹی سے مانا جائیگا۔ گویا غیر ہندو کو یہ سہولیات نہیں ملیں گی۔ دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو ایک حجام، دھوبی، خانہ بدوش، چمڑے کا کام کرنے والا ، گندگی صاف کرنے والا اور اسی قسم کے ذلیل پیشوں سے وابستہ افراد اگر ہندو ہونگے تو انھیں یہ سہولیات دی جائینگی اور وہ مسلمان ہونگے تو انھیں نہیں ملیں گی۔ اس ترمیم میں پہلے سبھی غیر ہندووں کو الگ کیا گیا تھا مگر پھر بدلاؤ کرکے سکھوں اور بودھوں کو شامل کرلیا گیا مگر مسلمانوں کو اس سے الگ رکھا گیا۔ وہ سیٹیں جو ایس سی اور ایس ٹی کے لئے ریزرو ہوتی ہیں ان پر پہلے دلت اور انتہائی پسماندہ مسلمان الیکشن لڑنے کے اہل تھے مگر اس بدلاؤ کے بعد وہ ناہل قرار پائے۔ایک شخص جب تک ہندو، سکھ یا بودھسٹ ہوتا ہے تب تک وہ ان سیٹوں سے الیکشن لڑسکتا ہے، اس کے تحت دیگر سہولیات کا حقدار ہوسکتا ہے مگر اسلام سے اس کا تعلق ثابت ہوتے ہی وہ ان کے لئے نا اہل قرار پاتا ہے۔ چونکہ عہد وسطیٰ میں بھارت کے دلتوں نے ہی سب سے زیادہ اسلام قبول کیا تھا لہٰذا آج بھی ان کے اندر اسی طبقے کے لوگ زیادہ ہیں۔ یہ سبھی لوگ ریزرویشن کی سہولت سے محروم کردیئے گئے۔ ملک کا قانون کہتا ہے کہ کسی بھی شہری کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر بھید بھاؤ نہیں کیا جاسکتا مگر آئین کی دفعہ ۳۴۱ کے ذریعے مسلمانوں کے ساتھ بھید بھاؤ کی اجازت ملی ہوئی ہے اور یہ سلسلہ پنڈت جواہر لعل نہرو کے دور سے جاری ہے۔شاید اس ترمیم کے پیچھے یہ خوف بھی تھا کہ بھارت کے دلت کہیں اسلام نہ قبول کرلیں؟
نا انصافی کے خلاف جنگ
میں نے پوچھا تھا کہ آخر یہ تغافل کب تک؟
مسکراتے ہوئے بولے کہ سوال اچھا ہے
اگر دفعہ ۳۴۱ میں مذہبی قید نہ ہوتی تو اب تک زیادہ مسلمان پارلیمنٹ اور اسمبلی کے ممبر ہوئے ہوتے۔ اگر یہ دفعہ ہمارے آئین کا حصہ نہ ہوتی تو اب تک زیادہ مسلمان سول سروسیز مین آئے ہوتے۔ اگر یہ دفعہ نہ ہوتی تو وہ تمام سہولیات اکثر مسلمانوں کو ملتیں جو آج دلتوں کو مل رہی ہیں۔ اگر یہ دفعہ نہ ہوتی تو اتر پردیش میں دلت ایکٹ کا فائدہ اٹھاکر مسلمان بھی ان مظالم کے خلاف آواز اٹھا سکتے تھے جو ان پر ہوتے ہیں۔اس نا انصافی کے خلاف سب سے پہلے بہار اسمبلی کے اسپیکر غلام سرور مرحوم نے آواز بلند کی اس کے بعد سے ان کے داماد ڈاکٹر ایم اعجاز علی یہ لڑائی لڑ رہے ہیں۔ان کی تحریک پر بہار اور یوپی اسمبلیوں میں قراد دادیں پاس کی گئیں اور مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس قانون سے مذہبی قید ہٹائے مگر اس نے کان نہ دھرا۔ منموہن سنگھ اور سونیا گاندھی سے بھی اس سلسلے میں مسلمان ملے مگر انھوں نے بھی اس ناانصافی کو ختم نہ کیا۔ اس بارے میں سچر کمیٹی کی سفارشارشات میں بھی ذکر ہے جس نے مسلمانوں کی قانون ساز اداروں میں کمی کا ایک سبب اس دفعہ کو بھی مانا ہے۔ فی الحال ایک آخری امید سپریم کورٹ سے ہے جس کے سامنے یہ معاملہ زیر غور ہے۔ بعض دلت مسلمانوں نے ان ریزرو سیٹوں سے پرچۂ نامزدگی داخل کیا اور مذہب کے خانہ میں اسلام لکھا تو ان کے پرچے الیکشن کمیشن نے مسترد کردئیے۔ اس سے ظاہر ہے کہ ناانصافی مذہب کی بنیاد پر ہورہی ہے۔
ریزرو حلقوں کا سوال؟
پارلیمنٹ اور اسمبلی میں مسلمان کم تعداد میں پہنچتے ہیں اس کی کئی وجوہات ہیں مگر ان میں ایک بڑا سبب دفعہ ۳۴۱ بھی ہے۔ اس دفعہ کے تحت جو سیٹیں ریزرو کی گئی ہیں ان میں بعض ایسی سیٹیں ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی کافی ہے اور بعض سیٹوں پر تو وہ اکثریت میں ہیں مگر پھر بھی ان سیٹون کو ایس سی، ایس ٹی کے لئے رزیزرو کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ ان سیٹوں پر ایس سی اور ایس ٹی کی آبادی مسلمانوں کے مقابلے بہت کم ہے۔ اس طرح کی سیٹیں بڑی تعداد میں ہیں مگر مثال کے طور پر چند سیٹوں کو پیش کیا جارہا ہے۔ اترپردیش کا نجیب آباد اسمبلی حلقہ لگ بھگ پچاس فیصد مسلم آبادی والا حلقہ ہے۔ یہاں سب سے زیادہ مسلمان ہی ہیں مگر اسے ایس سی اور ایس ٹی کے لئے محفوط کردیا گیا ۔ یونہی نگینہ میں ۴۲ فیصد اور جانسٹھ میں ۳۶ فیصد سے زیادہ مسلمان آباد ہیں مگر انھیں ریزرو کردیا گیا ۔ بہار کے کورینہ اسمبلی حلقے میں ۳۷فیصد،دھوریوا میں ۳۰ فیصدمسلمان ہیں مگر یہاں سے مسلمان امیدوار نہیں ہوسکتے کیونکہ یہ سیٹیں ریزرو ہیں۔ مغربی بنگال میں ایسی سیٹوں کی بھرمار ہے جو مسلمانوں کی کثیر آبادی والی ہیں مگر انھین ہندووں کے لئے ریزرو رکھا گیا ہے۔ ایسی سیٹوں میں باسنتی اور راجارہاٹ ۴۲ فیصد، نانور ۳۳ فیصد، کلپی ۳۶ فیصد، کیٹو گرام۵ ۴ فیصد، سنکرائل ۳۲فیصد، کھار گرام ۵۲ فیصد، ساگر دیگھی ۶۳ فیصد اور کالی گنج ۵۶ فیصد مسلم آبادی والی سیٹیں ہیں مگر ان پر مسلمان الیکشن نہیں لڑ سکتے۔ آسام اور ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی اسی طرح سیٹوں کو ریزرو کیا گیا ہے۔ یہی حال لوک سبھا حلقوں کا بھی ہے۔
بات صرف ریزرو اسمبلی اور پارلیمنٹ سیٹوں کی نہیں ہے بلکہ اسی مقدار میں تمام سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں بھی ریزرویشن ہے لہٰذا مسلمانوں کے کمزور طبقات اپنے حقوق سے ان سبھی جگہوں پر محروم ہیں۔ مسلمانوں کو ریزرویشن سے محروم کرنے کے لئے کہا جاتا ہے کہ مذہب کے نام پر کسی کو ریزرویشن نہیں مل سکتا مگر اسی مذہب کے نام پر انھیں محروم تو کیا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مذہب کے نام پر مل نہیں سکتا تومذہب کے نام پر محروم کیوں کیا جارہا ہے؟ مسلمانوں کو وزیر اعظم کے اس بیان سے خوشی ہے کہ ملک کے سبھی طبقات کے ساتھ انصاف کیا جائے گا اور سب کوترقی کے برابر مواقع فراہم کئے جائینگے اور ان کے اس قسم کے بیانات کے بعد یہ امید لازمی ہے کہ وہ اس دفعہ سے مذہبی قید کو ختم کرینگے اور ناانصافی کا خاتمہ کرینگے۔ کامن سول کوڈ کے تعلق سے وہ منصفانہ سوچ رکھتے ہیں تو پہلے اس کے ثبوت کے طور پر اس دفعہ میں ترمیم کرنا چاہئے۔
جواب دیں