کالم نگاری کی ربع صدی پوری ہونے پر عارف عزیز کو مبارکباد اور دعائیں

نام یاد آتے ہیں اور وہ ساری شناسائیان جو خلوت و جلوت کی رفیق بنی تھیں۔عام طور پر ہوتا تو یہ ہے کہ کتنے ہی شاگر داپنے استاد کے تعلق سے یاد کیے جاتے ہیں۔ خواہ انہوں نے کسی میدان کو بھی اپنی جولان گاہ بنایا ہو۔ لیکن جب میں عارف عزیز صاحب کے بارے میں سوچتا ہوں تو خود کو احساس کی اِس دولت سے مالا مال پاتا ہوں کہ وہ میرے شاگرد رہے ہیں بلکہ اِس احساس کے ساتھ اِس اضافے سے مجھے اور زیادہ خوشی ہوتی ہے کہ وہ اُن گنے چنے شاگردوں میں سے ایک ہیں جن کے نام کے ساتھ کوئی بھی استاد اپنے نام کو جوڑے جانے پر فخر و طمانیت کے احساس سے خود کو سرشار کرسکتا ہے۔
میں نے عارف عزیز صاحب کی ادبی فتوحات پر ہمیشہ ناز کیا ہے کہ اور بجا طور پر یہ سوچ کر خود پر فخر کیا ہے کہ مجھے اُن کے ساتھ تعلیمی زندگی میں رفاقت کا موقع ملا ہے۔
میں نے اپنی کسی تحریر میں اِس پر تعجب کا اظہار کیا تھا کہ اگرچہ عارف عزیز صاحب صحافتی زندگی سے وابستہ ہیں جسے میں کل وقتی کاروبار سمجھتا ہوں۔ مگر خدا معلوم وہ کہاں سے وقت نکال لیتے ہیں کہ صحافت کے ساتھ دیگر ادبی مشاغل بھی اُن کی قلمرو میں شامل ہیں۔ انہوں نے خود کو کسی موضوع کا پابند نہیں کیا ہے۔ اخبار میں روز کالم لکھنا، پریس کانفرنسوں اور جلسوں میں جانا، ان کی رپورٹنگ کرنا، یہ تو اُن کی صحافتی زندگی کے روز مرہ کا معمول ہے۔ لیکن مختلف ملی و ادبی موضوعات پر تحقیق کا حق ادا کرنا، کتابوں پر تبصرے کرنا، سیمیناروں میں شرکت کرنا، مشاہیر کے روبرو ہوکر اُن کے انٹرویوز کرنا۔ اِسی کے ساتھ زندگی میں ان کا جن افراد سے واسطہ پڑا ہے اور جنہیں اُنہوں نے اپنی اِس کسوٹی پر کھرا پایا ہے جو کسی کو اِس کے مخصوص میدان میں کامرانیوں سے دو چار کرتی ہے۔ اُن پر مضامین اور خاکے لکھنا بھی اُن کے معمولات کا حصہ بن گیا ہے۔ جس کا ثبوت اُن کے دو مجموعے ’’ذکرِ جمیل‘‘ اور ’’سورج چاند ستارے‘‘ ہیں۔ جن میں وہ تمام ہستیاں موجود ہیں جن کے بارے میں لکھنا وہ ضروری سمجھتے تھے۔ اُن میں مشائخ و مصلح، سیاسی و سماجی رہنما، ادیب و صحافی، احباب و رفقاء، سب ہی اپنی چھپ دکھا رہے ہیں۔ مجھے اُس وقت بے حد خوشی ہوئی تھی جب میں اردو اکادمی کا سکریٹری تھا تو ماہرین کی کمیٹی نے ’’ذکرِ جمیل‘‘ کو اشاعت کے لئے منظور کیا تھا۔ عارف عزیز بظاہر ایک خاموش طبع، کم سخن اور اپنے کام سے کام رکھنے والے انسان ہیں لیکن اُن کا ذہن رسا اپنے قلم کی جولانیاں دکھانے کے لئے کسی ایک نکتہ پر نہیں ٹھہرتا۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ بغیر وسیع مطالعے کے ممکن نہیں اور محض مطالعہ ہی کیوں، اِس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جو کچھ پڑھا اور دیکھا ہے اُسے قوت متخیلہ کے سپرد کر دیا جائے تاکہ جب ضرورت محسوس ہو اور دل اُس پر کچھ لکھنے پر آمادہ ہو، اسے تحریر کر دیا جائے۔
عارف عزیز کم و بیش پون درجن کتابوں کے مصنف ہیں۔ اور اُن کی ادبی و تہذیبی حلقوں میں بے حد پذیرائی بھی ہوئی ہے۔ لیکن اِس سے قطع نظر ہم اُن کے کالموں کا شمار کریں تو یہ تعداد ہزاروں سے تجاوز کرتی ہے۔ ابھی اُن کا قلم تھکا نہیں ہے۔ وہ پابندی کے ساتھ روز ایک کالم لکھتے ہیں کیا مجال جو اپنے معیار سے روگردانی کریں۔ اِس معاملہ خاص میں، میں نے صرف فکر تونسوی کو اُن کا ہمسر پایا جو روزنامہ ’’ملاپ‘‘ دہلی میں ہر روز ایک کالم لکھتے تھے۔ 
اِن کالموں میں عصری مسائل، سیاسی کوائف،ادبی موشگافیاں اور تہذیبی زندگی کے سارے شب و روزا ان کی مملکتِ قلم کا حصہ رہے ہیں۔ اگر اِن کالمون کے انتخاب کو جمع کر دیا جائے تو درجنون کتابیں تیار ہوسکتی ہیں جو ایک ایسی دستاویز کی طرح ہوں گی جن میں روحِ عصر سانس لے رہی ہوگی اور جن کی مدد سے ایک ایسی دستاویز تیار ہوسکتی ہے جس میں اپنے زمانے کے چہرے کو اس کے اصلی روپ میں دیکھا جاسکتا ہے۔
میں عارف عزیز صاحب کو ان کی کالم نگاری کی ربع صدی مکمل ہونے پر مبارکبا ددیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اِسی طرح اُن کا ذہن و قلم رواں رہے اور وہ آشنائے فن ہوکر، صحافت کے اِس شعبہ خاص یعنی کالم نگاری، کو اپنی تحریروں سے اجالتے رہیں۔

«
»

نئے بھارت کا مسلمان چیلنج اور خطرات

ڈرون حملے غیر قانونی اور بعض جنگی جرائم کے زمرے میں بھی آتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے