گزری باتیں کیا دہرائیں دسہرے اور محرم کی چھٹیوں کے بعد دوشنبہ کو اسکول کھلا تو آکر بچوں نے بتایا کہ کل پھر چھٹی ہے۔ ہم نے وہی گھسا پٹا سوال داغ دیا کہ کل کاہے کی ہے ؟ جواب ملا کہ معلوم نہیں۔ منگل کو گھر کے کسی بچے نے آکر بتایا کہ وہ جو پریورتن چوک ہے اسے بہت سجایا گیا ہے اور وہاں ڈھیر سارے پھل رکھے ہیں اور بانٹے جا رہے ہیں۔ تب بھی ہم نہ سمجھ سکے اور اس سے بھی نہیں معلوم ہوسکا کہ کس کا جنم دن منایا جا رہا ہے یا کس کی برسی ہے؟
دوسرے دن اخبارات سے معلوم ہوا کہ بالمیکی جینتی تھی۔ بچوں نے بتایا کہ کل پھر چھٹی ہے۔ اور وہ بھی بعد میں معلوم ہوسکا کہ ملک کے پہلے وزیر داخلہ سردار پٹیل کا جنم دن ہے۔ اور وزیر اعظم جو گجرات کے اپنے کہنے کے مطابق 14سال وزیر اعلیٰ رہے انہیں اس زمانہ میں بھی نہیں معلوم ہو سکا تھا کہ 31اکتوبرسردار پٹیل کا جنم دن ہے۔ اور گزشتہ سال انہیں وزیر اعظم بنے ہوئے پورے چھ مہینے ہو چکے تھے اس عرصہ میں بھی انہیں معلوم نہ ہو سکا۔ اس سال خدا خدا کر کے معلوم ہوا تو انہوں نے سفید جھنڈی لہرا کر جسے (ہری جھنڈی بتایا گیا) سیکڑوں بڑوں چھوٹوں کو شاید اس خوشی میں دوڑا دیا کہ مودی کواپنے گرو لوح پرش پٹیل جی کے جنم دن کی تاریخ معلوم ہو گئی۔ اور انہوں نے چھٹی کا بھی اعلان کر دیا۔
ہم نے اب تک کئی بار مودی صاحب کو سردار پٹیل کی قصیدہ خوانی کرتے سنا ہے۔ وہ ہمیشہ ایک ہی بات کہتے ہیں کہ ان کی خدمات کے مطابق انہیں مقام نہیں ملا۔ وہ وزیر داخلہ بھی تھے اور نائب وزیر اعظم بھی۔ اب یہ کہنا کہ ان کا حق نہیں ملا یعنی انہیں وزیر اعظم ہونا چاہئے تھا۔ اس زمانہ میں نہ ہمارے ہاتھ مین قلم تھا نہ مودی کے ہاتھ میں مائک۔ اگر دونوں کے پاس اپنے اپنے اوزار ہوتے تو وہ بھی پہلے رونا روچکے ہوتے۔ اور ہم بھی یہ لکھ چکے ہوتے کہ پٹیل جی کی جتنی تنگ ذہنیت تھی اس کے اعتبار سے تو انہیں وزیر اطلاعات و نشریات سے زیادہ نہ ہونا چاہئے تھا۔ 1952میں جب دستور کے مطابق وزارت بنی تو یہ معلوم ہو چکا تھا کہ ملک میں تین کروڑ مسلمان ہیں جنہوں نے ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یعنی وہ ہندوستان کے ایسے ہی شہری ہیں جیسے نہرو پٹیل اور ابوالکلام۔ اسکے باوجود جو پٹیل صاحب کا تمام ریاستوں کو یہ فرمان بھیجنا کہ مسلمانوں کو پولیس میں بھرتی نہ کیاجائے اور نہ کوئی ذمہ داری کا عہدہ دیا جائے کیا یہ ثابت نہیں کرتا کہ انہیں اتنے بڑے ملک کا وزیر داخلہ بنا کر بھی غلط کیا گیا؟
بات ہو رہی تھی چھٹی کی ۔ کیا مودی صاحب کو اندازہ نہیں ہے کہ ملک میں چھٹی کی وبا آئی ہوئی ہے۔ اور چھٹی دیکر کیا ثابت کیا جاتا ہے؟ مودی نے 2014کا لوک سبھا کا الیکشن لڑنے اور تنگ ذہنیت کے ہندوؤں کا تعاون لینے کے لئے پٹیل جی کا مسئلہ اٹھایا تھا۔ انہوں نے پورے ہندوستان سے لوہے کے وہ ٹکڑے مانگے تھے جو بیکار پڑے ہوں۔ انہوں نے اعلان کر دیا تھا کہ وہ دنیا میں ہر کسی سے بڑا مجسمہ لوہے کا بنوائیں گے۔ اتنے بڑے ہندوستان سے انہیں 280سیٹیں تو مل گئیں مگر اتنا لوہا نہ مل سکا جو اس کا ثبوت ہے کہ پٹیل اتنے بڑے نہیں تھے جتنا بڑا انہیں مودی بتا رہے ہیں۔
بات اگر ملک کے لئے قربانی کی کی جائے تو مولانا آزاد اور رفیع احمد قدوائی دونوں سردار پٹیل سے بہت زیادہ عظیم تھے۔ انہوں نے لیگی مسلمانوں کی بھی گالیاں کھائیں۔ انگریزوں کے مظالم بھی برداشت کئے اور ہندوؤں نے بھی ان کے نام کے ہندی معنی بنا کر انھیں مہا بکّو چھیڑا کہا۔ اور یہ سردار پٹیل ہی تھے جنہوں نے دہلی کے مسلم گھرانوں کی تلاش کا حکم دیا تھا کہ وہ جن ہتھیاروں سے ہندوؤں کو قتل کر رہے ہیں وہ تلاش کر کے لاؤ۔ اور انہوں نے ہی بینروں پر سفید چادر بچھا کر ان کی نمائش کی تھی۔ جن میں سبزی کاٹنے کی چھریاں، دست پناہ، پھکنی ،سنسی ، کوئلے توڑنے کی ہتھوڑی اور لکڑی پھاڑنے کی کلہاڑی جیسے تباہ کن ہتھیار تھے جسے نہرو جی اور مولانا دونوں کو دکھایا تھا اور جن کی تفصیل مولانا آزاد کی کتاب میں موجود ہے۔
ہم کسی اور کی چھٹی کو تو نہیں لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کے نام پر 12ربیع الاول کی چھٹی یا جس ریاست میں الوداع کی چھٹی ہوتی ہے ان کے بارے میں عرض کرتے ہیں کہ ان کو ختم کر دیا جائے۔ باقی چھٹیوں کے متعلق ہندو اور سکھ دانش ور بیٹھ کر مشورہ کریں کہ ہر سابق وزیر اعظم کی سال گرہ پر اگر چھٹی دی گئی اور ہر کسی طبقہ یا ذات برادری کے بڑے کے نام پر چھٹی کی گئی تو کیا وہ وقت نہیں آسکتا کہ 365 دن میں صرف 65دن سرکاری دفتر اور اسکول کھلیں اور باقی دن چھٹی ہی چھٹی ہو؟ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ نے نے 31اکتوبر میں سردار پٹیل کے ساتھ آچاریہ نریندردیو کو بھی ملالیا۔ اب اگر کوئی حکومت ایسی آگئی جو سردار کی خوشی میں 31اکتوبرکی چھٹی ختم کر دے تو اتر پردیش میں 31اکتوبر آچاریہ نریندر دیو کی چھٹی رہ جائے گی۔
ہر سرکاری ملازم کو پورے مہینے کی تنخواہ ملتی ہے۔ہر وہ ٹیچر جو پرائمری اسکول میں پڑھا رہا ہے اسے بھی 30-20ہزار تنخواہ مل رہی ہے۔عربی فارسی بور ڈ کے استادوں کے منہ کو بھی حکومت نے حرام خون لگا کہ انہیں دین کے پیشوا کے بجائے علم دین کا بے ایمان تاجر بنا دیا ہے۔ وہ ماں باپ جو معیاری اسکول میں بچوں کو اس لئے پڑھا رہے ہیں کہ وہ ملک کا اور اپنے خاندان کا نام روشن کریں وہ ہر بچہ کے لئے ہزاروں روپئے خرچ کر رہے ہیں۔ لیکن حکومت کا حال یہ ہے کہ وہ سردی زیادہ ہو یا گرمی زیادہ ہو یا بارش زیادہ ہو یا کچھ بھی نہ ہو جب چاہے ڈی ایم کو حکم دے دیتی ہے کہ چھٹی کر دو۔ اور چھٹی ہو جاتی ہے۔ کیا ذمہ دار حضرات یہ نہیں سوچتے کہ وہ حرام خوروں کو بڑھاوا دے رہے ہیں؟
وہ ملک جہاں آٹھ دس مہینے شدید سردی رہتی ہے یا انتہائی سخت گرمی رہتی ہے کیا اسکولوں کو بند کر دیتے ہیں۔؟ وہ چھٹی تو بہر حال ہونا چاہئے جس میں ملک کے تمام لوگ کسی نہ کسی حد تک حصہ لیں لیکن 20کروڑ مسلمان کی وہ چھٹیاں جسے 100کروڑ ہندو سمجھ بھی نہ سکیں۔ یا 2کروڑ سکھوں کی وہ چھٹی جس کا کوئی تعلق 118کروڑ ہندوؤں اور مسلمانوں سے نہ ہو اس کے لئے ہر دفتر اور ہر اسکول بند کرنا ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟
آج سردار پٹیل کی چھٹی ہوئی ہے اگلے چار برسوں میں گرو گولوالکررجّو بھیا اور ان سے پہلے جو بھی آر ایس ایس کے چیف رہے ان کی ، ان کے علاوہ جن سنگھ کے بڑے لیڈروں پھر ٹھاکرے پریوارکا مطالبہ ہوگا کہ بال ٹھاکرے کے لئے بھی چھٹی کی جائے۔ تو اس ملک میں جوحرام خوری کے لئے یونہی بدنام ہے ، کام کتنے دن ہوگا؟
ہم بڑے دکھ کے ساتھ یہ لکھ رہے ہیں کہ اسکولوں کی وہ چاہے سرکاری ہوں یا کسی تنظیم کے یا پرائیویٹ صرف ہولی دیوالی دسہرہ جنم اشٹمی جیسے بڑے تیوہاروں میں چھٹی کی جائے جن کی تعداد کسی بھی حال میں 8سے زیادہ نہ ہو۔ اسی طرح مسلمانوں کی عید ، بقرعیداور محرم کے علاوہ کوئی چھٹی نہ ہو سکھوں کی گرونانک کے جنم دن پر اور عیسائیوں کو دو چھٹی دیں۔ ان کے علاوہ تین نیشنل ہالی ڈے ۔ ان کے علاوہ کوئی ایک بھی چھٹی دی گئی تو پھر وہی ہوگا جو ہو رہا ہے۔چند دن پہلے پڑھا تھا کہ امریکہ کے کسی کالج میں لڑکیوں نے یوم احتجاج منانے کا اعلان کیا ۔ ادارہ کے ذمہ داروں نے اس شرط کے ساتھ اجازت دی کہ آج کی تعلیم کے لئے آپ کو کوئی چھٹی قربان کرنا ہوگی۔ لڑکے مان گئے۔ انہوں نے یوم احتجاج منالیا۔ اور ایک چھٹی کے دن کلاس میں آکر کورس کی کمی پوری کرلی۔ یہ تو ملک میں لاکھوں نے پڑھا ہوگا تو کیا اس پر غور نہیں کرنا چاہئے ؟ کیا یہ بات فکر کی نہیں ہے کہ ہر حکومت کا بڑا یہ تو سوچتا ہے کہ اس کے نام پر چھٹی دینے سے کتنے ووٹ اور مل جائیں گے۔ یہ نہیں سوچتا کہ کس چھٹی کو ختم کرنے یا کم کرنے سے ملک کا کتنا کام وقت پر ہوگا اور بچوں کی تعلیم پر کتنا اچھا اثر پڑے گا؟
وزیراعظم نریندرمودی نے اسمرتی ایرانی کو وزیر تعلیم بنا کر اور گھریلو تعلیم تک کی تعلیم والوں کو وزیر بنا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ حکومت کے لئے تعلیم یافتہ ہونا ضروری نہیں۔ انگوٹھا چھاپ بھی اچھا وزیر ہو سکتا ہے۔ لیکن مسٹر اکھلیش یا دو ،اروند کیجریوال، نتیش کمار ،ممتا بنرجی جیسے وزیر اعلیٰ تو جانتے ہیں کہ تعلیم کی کتنی اہمیت ہے؟ اور یہ تعلیم کا ہی نتیجہ ہے کہ اکھلیش بابو نے بہرائچ کے ایک ایسے کسان کو وزیر بنا دیا جو تین برس ایم ایل اے رہنے کے بعد بھی اپنے چھپر کے محل میں رہتا ہے اور اس نے اپنا کچھ بھی نہیں بدل کر ثابت کر دیا کہ وہ ایک مثالی وزیر بنے گا۔
جواب دیں