چھوٹا سا کردار…………………!

 

   ام ہشام،ممبئی 

بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے کوئی اگر آپ کو بار بار پریشان کر رہا ہے تو اصولاًاسے حل کرنے کی ذمہ داری بھی پوری طرح آُ ہی کی ہینا کہ دوسروں کی،آُ کو جو پریشانی لاحق ہے اسے ٹھنڈے دل  اور حکمت کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کریں۔

آپ کا بچہ اگر پڑھائی میں کمزور ہے یا دل نہیں لگاتا،اسکول سے اس کی مسلسل شکایتیں آتی رہتی ہیں،یا وہ اپنے بزرگوں اور ساتھیوں کے ساتھ بد اخلاقی سے پیش آتا ہے،مسائل چاہے جیسے ہوں ان ساری پرابلمز کا سلیوشن آپ خود غور و فکر کرکے تلاش کریں ان شاء اللہ ا س کا حل بھی وہیں ہوگا جہاں سے یہ پرابلمزشروع ہوئی ہیں۔

ایسے باریک مسائل کو ایک ماں کے علاوہ دوسرا کوئی نہ سمجھ سکتا ہے اور نہ حل کر سکتا ہے۔لیکن افسوس اس بات کی ہے کہ ہماری مائیں کبھی اس معاملہ میں خود کو ذمہ دار نہیں سمجھتیں بلکہ ہمیشہ شوہر سے یہ شکوہ رہتا ہے کہ……………………ہم تمہارے بال بچے پال رہے ہیں،یہی احسان سمجھو…………….نہیں تو ہم سے یہ گھر کے سینکڑوں کا،اس پر آپ کے یہ بگڑیل بچوں کی رکھوالی،اب آپ ہی سنبھالیں یہ سارے جھمیلے۔

اگر اولاد ایک مسلمان عورت کے لئے جھمیلے ہونے لگے تو پھر آپ تین چار کیا ایک بھی بچے کی پرورش خو ش اسلوبی سے نہیں کر سکتیں۔اور ایسا سوچنے اور سمجھنے والی بہنوں سے میرا ایک محبت بھرا سوال:  اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کے دامن میں یہ جو ہیرے موتیوں جیسی پیاری پیاری اولاد تحفے میں دی ہے کیا آپ بیزار ہوجانے پر انہیں کل کو کسی اور کے حوالے کردیں گی…………………..کیا جواب ہے آپ کا……………………یقینا آپ کاً جواب نفی میں ہوگا،بلکہ سوال کرنے والا آپ کے غصے کا شکار ہوجائے گا،تو پھر یہ اولاد جو اللہ نے آپ کو عطیہ کی ہے،اس کی صحیح تعلیم و تربیت اور پرورش کے مسائل کو آپ دنیا کے حوالے کیوں کرتی ہیں…………………….

اپنی ذمہ داریوں کی عدم کوتاہی کا سبب و نتیجہ کسی دوسرے کے سر کیوں منڈھ دیتی ہیں۔اللہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں کرتا،آپ تو خوش نصیب ہیں جو اللہ نے آپ کو ”ماں“جیسا اعزاز بخشا اس پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ جیسی ذات نے اپنی امانت (بچے) آپ کو سونپی ہے تاکہ آپ اسے اللہ کا سچا بندہ بنا سکیں۔ رب دو جہاں  کسی کو یوں ہی تو اس عظیم ذمہ داری کو نہیں سونپے گا،یقیناً آپ اس لائق نہیں کہ اللہ کی امانت کا پورا خیال رکھ سکیں تبھی تو اس نے آپ پر تربیت جیسا بوجھ ڈالا۔

گر کبھی بچوں کی تربیت سے بیزاری آنے لگے تو ذرا ان ماؤں  کی اذیت اور یاس و حسرت کا بھی مشاہدہ کرلینا جنہیں اللہ نے نعمت اولاد سے محروم کر رکھا ہے،ج کے آنگن ننھی منی کلکاریوں سے خالی ہیں،جن کے درو دیوار پر خاموشی اور وحشت کا ڈیرا لگا ہوا ہوتا ہے۔

بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی نگہداشت میں خواتین اپنا طے شدہ کردار سمجھ لیں اور پوری رضا کے ساتھ اسے تسلیم کریں۔جس طرح شوہر کو روٹی،کپڑا اور مکان کی سہولیات فراہم کرنے کو مکلف بنایا گیا ویسے ہی عورت کو بچوں کی تعلیم و تربیت کا مکلف بیایا گیا ہے اور عورت ہر حال میں یہ ذمہ داری نبھانے کی کوشش کرے کیونکہ اس کا گھر اس کے بچے اس کی فیملی ہی اس کا ورک پراجیکٹ ہیں،جن کے لئے وہ اپنی  تمام تر صلاحیتوں کا نمونہ پیش کر سکتی ہے۔

بچوں کی کامیابی ایک عورت کی نیک نامی اس کی حوصلہ افزائی اور صلاحیتوں میں اضافے کا باعث ہوتی ہے جبکہ بچوں کی ناکامی،ہٹ دھرمی،بد اخلاقی،ماں کی تربیت پر سوالیہ نشان کھڑا کرتے ہیں،لہٰذا عورت بغیر کسی شکوہ شکایت کے یہ ذمہ داری بخوبی نبھائے۔اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے پابندی کیساتھ مدد کی التجا کرتی رہی۔

یہ کسی بھی طور مناسب نہیں کہ دن بھر نان شبینہ کی تلاش میں تھکے ہوئے شوہر کو گھر کے دروازہ پر قدم رکھتے ہی شکوہ شکایتوں کی ایسی لمبی لسٹ پکڑا دی جائے کہ وہ بیچارہ گھر آنے پر پچھتانا شروع کردے۔حقیقت تو یہی ہیکہ شوہر تو اپنی ذمہ داری نبھاکر گھر لوٹا ہے آپ خود کو چیک کریں………….کہ کیا آپ نے اپنی ذمہ داری نبھائی……….بلکہ……….یہاں تو آپ نے اپنی ذمہ داریوں کے حصے بخرے کر کے آس پاس کے سبھی لوگوں،مثلاً شوہر،سسرالی رشتے دار،پڑوسی،دوست،ٹی وی،میڈیا یا اسمارٹ فون پر الزام رکھ کر خود کو بری الذمہ تصور کرلیا ہے۔

              یہ کیسی زیادتی ہے کہ جب بچوں کی تعلیم و تربیت کیسا تھ ان کی نگہبانی کرنی تھی……تب آپ غافل رہیں اور جب بچہ کی تعلیمی کارکردگی یا اخلاقی معیار متاثر ہوا تب آپ نے فرسٹریشن میں بل شوہرپر پھاڑ دیا۔کہنا مقصود ہے کہ ایک خاتون خانہ کو اللہ کی جانب سے جو ذمہ داری دی گئی ہے وہ اسے پوری لگن کیساتھ نبھائے،بچوں کو اللہ کی امانت اور اپنی صلاحیتوں اور خوبیوں کا مرجع سمجھ کر پالے پوسے۔اپنے غافلانہ رویوں سے شوہر اور بچوں کا جذباتی استحصال اور نا قابل اصلاح نقصان نہ کرے۔ورنہ ہوگا یہی کہ شوہر کے دل میں آپ کے لئے میل آجائیگا اور ا سکی طبیعت میں آپ کی جانب سے ایک بیزاری آجائیگی جس کے خطرناک نتائج سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ اور دنیا اور آخرت میں ہمارے لئے سب سے بڑا خسارہ یہ ہوگا کہ جن گوہر آبدار (بچے) کو ہمیں دنیا میں سجا سنوار کر،بڑی ہی حفاظت کے ساتھ اللہ کے حوالے کرنا تھا انہیں ہم نے اپنے پاتھوں ضائع کردیا۔

 

«
»

اسلامی اَیپس۔ دشمن کے ہاتھ مسلم ڈاٹا

صحافیوں پرظلم وتشددکےبڑھتے واقعات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے