اس بار من کی بات میں شری مودی نے جھاڑو کو موضوع نہیں بنایا ان کا پورا زور بابا رام دیو مارکہ یوگا پر رہا جس میں شری موہن بھاگوت کے سوریہ نمسکار کی بہت چوڑی گوٹ لگی ہوئی تھی۔
ہمیں مسٹر غلام نبی آزاد کی طرح ان کی ہر بات پر اعتراض کرنے کا شوق نہیں ہے۔ انہوں نے اگر رکشا بندھن یا بیٹی کا ذکر کیا اور رمضان کا نہیں کیا تو کون سا گناہ کردیا؟ رمضان شریف کوئی تہوار نہیں ہے وہ عبادت کے ہر مہینے کے مقابلہ میں ایک ایسا مہینہ ہے جس میں اسلام کے ایک رکن روزہ کی عبادت کا اضافہ ہوجاتا ہے جس کا تعلق صرف مسلمانوں سے ہے۔ سابق اور آنجہانی وزیر اعظم راجیو گاندھی تو پنڈت نہرو کے نواسے اور مسز اندرا گاندھی کے بیٹے تھے۔ انہوں نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اس وقت کے صدر مولانا علی میاں اور جنرل سکریٹری مولانا منت اللہ رحمانی کی اس خواہش کے جواب میں کہ آپ شاہ بانو والے معاملہ میں جو ترمیم دستور میں کرانا چاہ رہے ہیں وہ جلد کرادیں۔ کیونکہ گرمی بھی بڑھ رہی ہے اور رمضان بھی آنے والے ہیں اس وقت ہمارے لئے سفر ناممکن ہوجائے گا۔) راجیو گاندھی نے فرمایا تھا کہ مولانا آپ رمضان سردیوں میں کیوں نہیں کرلیا کرتے؟ گرمی میں رمضان کے روزوں سے تو بہت تکلیف ہوتی ہوگی؟ یہ ثابت کردیا تھا کہ ہندوستان کے وزیر اعظم کے لئے یہ جاننا بھی ضروری نہیں ہے کہ اس کے ملک کے پندرہ یا بیس کروڑ مسلمان جو ایک مہینہ تک اس طرح روزہ رکھتے ہیں کہ وہ کھانا پینا تو کیا بیڑی سگریٹ بھی نہیں پی سکتے جس سے نہ بھوک مرتی ہے نہ پیاس۔ اس کا وقت مقرر کرنا بندوں کے بس میں نہیں ہے اور وہ شمسی مہینے کے حساب سے نہیں رکھے جاتے بلکہ قمری مہینے کے حساب سے رکھے جاتے ہیں جو سڑی گرمی میں بھی آتے ہیں بھری برسات میں بھی اور کڑکڑاتی سردی میں بھی۔
اور ہم یہ بھی نہیں سمجھ سکے کہ کوئی وزیر اعظم وہ چاہے غلام نبی آزاد جیسا مسلمان ہی کیوں نہ ہو ایک ایسے ملک کا اگر وزیر اعظم ہو جس میں 100 کروڑ سے زیادہ غیرمسلم ہوں اور 20 کروڑ سے کم مسلمان تو وہ رمضان کا ذکر کیوں کرے؟ رمضان ایک رکن ہے جس میں ایک مہینہ کے روزے بالغ مسلمانوں پر فرض کئے گئے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے سال کے ہر مہینہ اور ہر دن میں پانچ وقت کی نماز فرض کی گئی اور اسلامی قانون کے مطابق دولت پر زکوٰۃ فرض کی گئی یا اگر حیثیت ہو تو زندگی میں ایک بار حج فرض کیا گیا۔ ان باتوں کے تذکرہ کی ہندوستان جیسے ملک کے وزیر اعظم کو کسی بھی موقع پر کیوں ضرورت ہے؟
اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے صرف وہ کہا جسے کوئی بھی نہیں سننا چاہ رہا تھا اور ان معاملات کے متعلق ایک لفظ بھی نہیں کہا جس کے سننے کے لئے سب گوش برآواز تھے۔ ساٹھ سال کی رنگ برنگی حکومتوں کی کارگذاریوں سے کھیلنا نریندر بھائی کا محبوب مشغلہ ہے۔ کس نے کتنا لوٹا؟ کس نے کتنا کھایا؟ کتنا کس کو کھلایا۔ کس نے دوسرے ملکوں سے کتنی بھیک مانگی؟ کس نے ملک میں کتنی گندگی کی؟ جسے 2 اکتوبر 2014 ء کو انہوں نے جھاڑو سے خود صاف کیا۔ وغیرہ وغیرہ۔ انہوں نے کیوں نہیں بتایا کہ ایک بھگوڑے کے ساتھ صرف انسانی ہمدردی میں وزیر خارجہ جیسی ذمہ دار نے ہاتھ کالے کیوں کئے؟ کیا ہندوستان میں جس کسی کو ہمدردی کی ضرورت ہو مودی سرکار کا وزیر اس کی ایسی ہی مدد کرتا ہے چاہے وہ عدالت کو مطلوب ہو؟ چاہے وہ سات سو کروڑ کے کالا دھن کا ملزم ہو جس نے مودی کی شخصیت آدھی کردی اور ان کا سینہ جو 56 اِنچ کا تھا اسے 36 اِنچ کا کردیا؟
ان کی منھ بولی بہن نے جو دہلی، گجرات اور امیٹھی میں حلف ناموں میں اپنی علمی لیاقت کے الگ الگ ایک دوسرے سے بالکل مختلف بیان دیئے ہیں اور وہ وزیر تعلیم ہیں تو کیا یہ اتنی اہم بات نہیں ہے کہ ان سے منھ بولا ہی سہی رشتہ توڑنے کا اعلان من کی بات میں کیا جاتا اور انہیں نہ صرف وزارت سے نکالا جاتا بلکہ فریب اور جعلسازی کا مقدمہ بھی ان کے خلاف چلایا جاتا؟ اور اس کا انکشاف کیا جاتا؟ ہم نہ کوئی قانون داں ہیں نہ حکومت کے محتسب۔ ہم تو صرف ایک معمولی سے صحافی کی حیثیت سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا صرف کامن ویلتھ کھیلوں میں لوٹ پاٹ یا کوئلہ کی کھانوں کی خیرات کی طرف تقسیم یا ریلوے کے کسی افسر سے پچاس لاکھ لے کر اس کی من چاہی پوسٹنگ۔ یا کانگریس کے دَور میں وزیروں کے فریب ہی بھرشٹاچار اور گھٹالہ تھے۔ اب جس کا جو جی چاہے کرے وہ سب اس لئے جائز ہے کہ پارلیمنٹ میں حکومت کے 300 ممبر ہیں؟
شری گووند آچاریہ نہ کانگریسی ہیں نہ سپائی وہ کل بھی بی جے پی کا دماغ تھے اور آج بھی ہیں وہ بھی جب یہ کہہ دیں کہ ممبروں کی گنتی کچھ نہیں ہوتی ساکھ سب کچھ ہوتی ہے اور مودی سرکار کی ساکھ گرتی جارہی ہے تو معمولی بات نہیں ہے۔ اپنے طور پر ہم تو یہ محسوس کررہے ہیں کہ سرکار کا دوسرا سال اسی طرح بدنامیوں سے شروع ہوا ہے جیسے منموہن کا۔ 2009 ء سے دوسرا دَور کہ ہر طرف بے ایمانی ہی بے ایمانی ہے اور مودی صاحب بھی ڈاکٹر منموہن کی طرح صرف دیکھنے پر مجبور ہیں۔ کچھ کرنے کی ہمت اس لئے نہیں کرپارہے ہیں کہ جو بی جے پی کانگریس اور جنتادل کی طرح ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہوئی ہے اس کی تقسیم کی ذمہ داری ان پر نہ آئے۔
وہ بارہ برس گجرات نریش رہے۔ کسی کی ہمت نہیں تھی کہ وہ سوشما، ایرانی یا وسندھرا کی طرح من مانی کرسکے؟ اپنے اقتدار میں مکھی نگلنا تو کیا وہ تو پورا ہاتھی نگل گئے اس کے بعد بھی وہ پورے ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ اور وزیر اعظم بن کر ہی انہیں معلوم ہوا کہ اٹل جی چھ برس حکومت کرگئے اور انہوں نے رام مندر یا دفعہ 370 کا نام کیوں نہیں لیا؟ اور جب مودی 300 ممبروں کی حمایت کے بعد بھی کشمیر کے الگ سرخ پرچم اور الگ دستور کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے تو اس کا اندازہ ہوا کہ سب سے اونچی کرسی پر بیٹھنے کے بعد نیچے کا بہت کچھ نظر نہیں آتا۔ یا نظر آنے کے باوجود نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے کہ چھوٹے پریوار گجرات کو کوی تقسیم کرتا تو کیا کرتا؟ جبکہ ہندوستان پر 100 برس پرانی کانگریس اپنی حکومت میں اپنی پارٹی کو صرف 19 برس میں ٹوٹنے سے نہ بچا سکی۔ شری مودی من کی بات میں جو کہہ رہے تھے وہ من کی بات نہیں تھی پورا راجستھان اور مہاراشٹر میں ٹھاکرے کی آل اولاد بزرگوں میں اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، یشونت سنہا اور گووند آچاریہ سب موٹے موٹے شیشوں کے چشمے لگائے دیکھ رہے ہیں کہ مودی سرکار کی جو ہڈی کمزور ہو اسی پر ایک چھڑی ماری جائے۔ ایسے میں مودی کے لئے ایک ہی پناہ گاہ تھی اور وہ تھی بابا کا یوگا۔ اس لئے من کی بات کا 75 فیصدی حصہ یوگا پر خرچ ہوگیا دس فیصدی راکھی بندھن میں باقی بیٹیوں پر۔ بہن کا نام شاید اس لئے نہیں لیا کہ ایک کو بنایا تھا سو وہ من کا بوجھ بنی ہوئی ہے۔ اب نریندر مودی نے تسلیم کرلیا ہوگا کہ سنجے گاندھی کا نعرہ چھوٹا پریوار سکھی پریوار 100 فیصدی صحیح تھا۔(یو این این)
جواب دیں