ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
کورونا بحران سے دنیا کا نظام ہی نہیں حیات انسانی بھی بدل گئی۔ وہ سب کچھ متاثر ہوا جس پر زندگی کی بساط قائم ہے۔ اسی میں سے ایک تعلیم ہے، جو ترقی کی کلید ہے۔ معیاری تعلیم ہر ترقی یافتہ قوم کا خواب ہے، کیوں کہ اس کے بغیر کوئی ملک نہ ترقی کے پیمانہ پر کھرا اتر سکتا ہے اور نہ ہی عالمی طاقت بننے کی سمت میں آگے بڑھ سکتا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ خوشحالی کی کنجی مانی جانے والی تعلیم کورونا کے دوران سب سے زیادہ نظر انداز ہوئی ہے۔ بازار کھلے، الیکشن ہوا، جلسہ، جلوس، روڈ شو، ریلیاں ہوئیں، جیت کا جشن منایا گیا، یاترائیں نکالی گئیں۔ شادی بیاہ کی پارٹیوں پر سے پابندی ہٹی، عبادت خانے کھل گئے مگر نہیں ملی تو اسکول، کالج کھولنے کی اجازت۔ اگر چہ آن لائن کلاسز کے ذریعہ تعلیمی نقصان کو کم کرنے کی کوشش کی گئی۔لیکن وسائل تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، بڑی تعداد میں بچے تعلیم سے دور ہو گئے۔ انہیں دوبارہ کورونا سے پہلے والی سطح تک پہنچنے میں وقت لگے گا۔
اینول اسٹیٹ آف ایجوکیشن رپورٹ یعنی ’اسر‘ کا سروے اسکولی تعلیم کی بے حد تشویشناک تصویر پیش کرتا ہے۔ یہ سروے ستمبر 2020 میں کیا گیا تھا، جب کورونا کی وجہ سے اسکولوں کو بند ہوئے چھ ماہ ہو چکے تھے۔ سروے کے مطابق قومی سطح پر دیہی علاقوں میں رہنے والے 20 فیصد بچوں کے پاس درسی کتب ہی نہیں ہیں۔ ریاستوں کا حال دیکھنا ہو تو راجستھان میں 40 فیصد اور آندھرا پردیش میں 65 فیصد سے بھی زیادہ بچے درسی کتب سے محروم ہیں۔ جس ہفتہ یہ سروے کیا گیا، تب تک صورتحال یہ تھی کہ ایک تہائی دیہی بچے کسی بھی طرح کی لرننگ ایکٹوٹی سے دور تھے تو دوتہائی کو کوئی لرننگ میٹریل نہیں ملا تھا۔ رپورٹ کے مطابق 6 سے 10 سال کی عمر کے 5.3 فیصد دیہی بچوں کا کسی اسکول میں داخلہ ہی نہیں ہوا۔ جبکہ 2018 میں ایسے بچوں کا فیصد محض 1.8 تھا۔ اتفاق یہ ہے کہ اسی سال مرکزی حکومت قومی تعلیمی پالیسی بھی لے کر آئی ہے۔ جس میں بچوں کو سکھانے کیلئے کئی نئی تجاویز پیش کی گئی ہیں، مگر کورونا سے پیدا ہوئے حالات نے خاص طور پر دیہی بچوں کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ انہیں معمول پر لانے کیلئے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہوگی۔
اسکول، کالجوں کے بند ہونے کا اقتصادیات پر بھی منفی اثر ہوا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک کو جی ڈی پی کے ایک بڑے حصہ سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ کورونا بحران میں تعلیم کے متاثر ہونے سے عالمی معیشت کو اربوں روپے کی چوٹ لگی ہے۔ جس نے سب سے زیادہ ایشیائی ممالک کو متاثر کیا ہے۔ کورونا سے پہلے ان ممالک میں پرائمری، ثانوی تعلیم پر چالیس ارب ڈالر سالانہ خرچ کئے جا رہے تھے۔ اسکولوں کے بند ہونے سے جو اقتصادی نقصان ہوگا، وہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ورلڈ بنک کے مطابق یہ نقصان 62 ارب بیس کروڑ امریکی ڈالر سے زیادہ ہو سکتا ہے۔ اسکول بند رہنے سے جنوبی ایشیائی علاقہ میں سب سے زیادہ اقتصادی نقصان بھارت کو اٹھانا پڑے گا، جو چالیس ارب ڈالر ہو سکتا ہے۔ اسکولوں کی اقتصادیات سے جڑی کمپنی آئی ایس ایف سی کا کہنا ہے کہ ملک کے 17.06 فیصد اسکول ایسے رہے، جہاں اس سال فیس کے نام پر کچھ بھی جمع نہیں ہو پایا۔ 59.74 فیصد اسکولوں میں فیس کلیکشن 40 فیصد سے بھی کم رہا۔ اس کا اثر اسٹاف کی تنخواہ پر پڑا، 26.49 فیصد اسکولوں نے ملازمین کی چھٹنی اور 36.43 فیصد نے تنخواہ میں کٹوتی کی بات قبول کی ہے۔ ظاہر ہے یہ صورتحال لمبے وقت تک نہیں چل سکتی۔
موجودہ وبائی بحران میں دنیا بھر کے 150 کروڑ سے زیادہ بچوں کے اسکول بند رہے۔ جن میں سے 70 کروڑ بچے بھارت، بنگلہ دیش جیسے جنوبی ایشیائی ممالک کے ہیں۔ اس صورتحال میں دنیا بھر کے 55 لاکھ بچے پڑھائی چھوڑ سکتے ہیں اور چھ کروڑ نئے بچے بے حد غریبی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ جن میں سے بڑی تعداد کے بچہ مزدور بننے کا امکان ہے۔ اس سے تعلیم اور معیشت دونوں کا نقصان ہوگا یا یوں کہیں کہ ایک نسل کے طلبہ کی کارکردگی پر زندگی بھر اثر پڑ سکتا ہے۔ نقصان کو کم کرنے کیلئے کئی قدم اٹھائے گئے، آن لائن تعلیم ان میں سے ایک ہے۔ اسے کلاس روم میں پڑھائی کے نعم البدل کے طور پر پیش کیا گیا لیکن اگر اقتصادی، سماجی اور ذہنی سطح پر الگ الگ صورتحال والے بچوں کی نشونما کو دھیان میں رکھیں تو اسکول جا کر کلاس روم میں پڑھائی کرنے کا آن لائن تعلیم سے کوئی مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ طالب علم کا جو جسمانی اور ذہنی ارتقا اسکول کے احاطہ یا کلاس روم میں ہو سکتا ہے۔ وہ گھر کے کمرے، موبائل فون یا کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر نہیں ہو سکتا۔ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ آن لائن تعلیم تکلیف دہ حد تک بچوں میں نابرابری کی وجہ بنی ہے۔
آن لائن طریقہ تعلیم کو لے کر کئی طرح کے سوال سامنے آئے ہیں۔ زیادہ تر طلبہ اس سے ہم آہنگ نہیں ہو پاتے۔ اس کی وجہ سے انہیں پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ دوسرے آن لائن طریقہ تعلیم کے متعلق تکنیک سے جڑے بھی کئی مسائل ہیں۔ اسمارٹ فون، انٹرنیٹ اور بجلی کی عدم دستیابی اس طریقہ تعلیم سے طلبہ کو دور رکھتی ہے۔ تیسرے معذور اور نابینا طلبہ کیلئے اس سے فائدہ اٹھانا مشکل ہوتا ہے۔ بھلے ہی 2018 کے مقابلہ اسمارٹ فون رکھنے والوں کی تعداد دوگنی ہو گئی ہے لیکن اب بھی بہت بڑی تعداد انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہے۔ ملک میں انٹرنیٹ تک صرف 31 فیصد یعنی قریب 45 کروڑ لوگوں کی پہنچ ہے۔ اس میں اضافہ بھی ہوگا تو 2021 تک 70 سے 75 کروڑ کے پاس ہی پہنچ پائے گی۔ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے طلبہ میں سے صرف 12.5 فیصد کے گھروں میں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہے۔ ان میں سے شہری علاقوں کے 41 فیصد اور دیہی علاقوں کے 28 فیصد طلبہ کے گھر میں انٹرنیٹ ہے۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں بھی انٹرنیٹ کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ بہار، بنگال جیسی ریاستوں میں تو سات سے آٹھ فیصد دیہی گھروں میں ہی انٹرنیٹ موجود ہے۔ اس سے آن لائن تعلیم کی حالت کو سمجھا جا سکتا ہے۔
مشاہدہ سے معلوم ہوا کہ بڑے شہروں میں رہنے والے تمام سہولیات سے لیس خاندانوں کا ایک چھوٹا طبقہ ہی آن لائن کلاسوں کا فائدہ اٹھا پایا۔ عجیب بات یہ ہے کہ سارے اسکولوں میں آن لائن تعلیم دینے کی سہولت موجود نہیں ہے اور جہاں ہے، وہاں بھی لیپ ٹاپ، کمپوٹر اور موبائل تک محدود پہنچ، بجلی اور نیٹ ورک جیسے مسائل کی وجہ سے زیادہ تر بچے کلاس کی ساری باتیں نہیں سمجھ پائے۔ ایک ہی کلاس میں جانکاری کی الگ الگ سطح رکھنے والے بچوں کو لے کر آگے بڑھنا اساتذہ کیلئے بڑا چیلنج ثابت ہوا۔ بات اتنی ہی نہیں ہے،سال بھر اسکول میں پڑھائی کے باوجود اساتذہ نصاب پورا نہیں کرا پاتے تو آن لائن کلاسز میں یہ کیسے ممکن ہوگا۔ اس معاملہ میں اسکول اور یونیورسٹی کی حالت کم و بیش ایک جیسی ہے۔ اس لئے ماہرین نے آن لائن کلاسوں کو محدود کرنے کو کہا ہے۔ پھر سالانہ امتحان آن لائن کرانا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ آن لائن امتحانات کرانے میں تنازعہ کا ہونا بھی حیرت کی بات نہیں ہے۔ اس لئے زیادہ تر تعلیمی ادارے اس کے حق میں نہیں ہیں۔ دس مہینے کی اس بندی نے بچوں کے تعلیم سے دور ہونے اور تعلیمی نظام کے ڈھے جانے کا خطرہ پیدا کر دیا ہے۔
بہر حال دس ماہ کی طویل مدت کے بعد دہلی، پنجاب، ہریانہ، راجستھان سے لے کر کرناٹک، کیرالہ تک کئی ریاستی سرکاروں نے کچھ شرائط کے ساتھ اسکول کھولنے کی اجازت دی ہے۔ یہ اجازت اس وقت ملی ہے جب کورونا کی ویکسین آ چکی ہے۔ اس ویکسین کے متعلق افواہوں کا بازار بھی گرم ہے۔ پہلے والدین کے من میں ڈر تھا کہ بچے اسکول میں نہ تو منھ پر ماسک لگائے رکھ پائیں گے اور نہ ہی دوستوں سے دوری بنا پائیں گے۔ اب ویکسین کا ڈر بھی اس میں شامل ہو گیا ہے۔ اس ڈر کو دور کرنے کے بارے میں حکومت اور اسکول انتظامیہ کو غور کرنا ہوگا۔ کیوں کہ بچے ہی نہیں آئیں گے تو اسکول کھلنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ کوئی پڑھائی سے دور یا محروم نہ ہو، اس کیلئے تعلیم گاہوں کا کھلنا ضروری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور والدین میں سے کون بچوں کا مستقبل سنوارنے کے لئے انہیں تعلیم سے جوڑنے میں زیادہ سنجیدگی دکھاتا ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
21جنوری2021
جواب دیں