چنئی ٹرین دھماکہ صحیح رخ میں تفتیش کی ضرورت

بم دھماکوں کی تفتیش کے نام پر خفیہ ایجنسیوں ،دہشت گرد مخالف دستوں اور پولس نے جن لوگوں کو گرفتار کیا وہ عدالتوں سے یک بعد دیگرے بری ہوتے رہے ۔ عدالتوں میں جج صاحبان نے بیشتر مواقع پر پولس اور خفیہ ایجنسی کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا اور ان کے کام کرنینیز تفتیش کے طریقہ کار پر بھی سوال اٹھائے ۔لیکن نہ تو خفیہ ایجنسیوں کے کام کرنے کے طریقہ کار میں کوئی فرق آیا اور نہ ہی بیجا اور فرضی گرفتاریوں کا سلسلہ تھما۔بم دھماکے بھی مسلسل ہو رہے ہیں ۔کبھی مسجد میں تو کہیں درگاہ میں اور کبھی پارکوں میں اور پھر ریلوے اسٹیشنوں یا ٹرینوں میں ۔عام طور پر عوام کی رائے یہ ہے کہ اگر پولس اور تفتیشی ایجنسیاں ایماندارانہ اور غیر جانبدارانہ طور پر تفتیش کریں اور خاطیوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی سعی کریں تو یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہ دھماکے رک جائیں گے کیوں کہ جو لوگ اس طرح کی غیر انسانی حرکت کرتے ہیں وہ تفتیشی ایجنسیوں کی خامیوں کی وجہ سے ہمیشہ بچ جاتے ہیں اور ایک نئے دھماکے کیلئے تیاری شروع کردیتے ہیں ۔نتیجہ یہ ہے کہ بے گناہوں کا اتلاف جان جاری ہے ۔ 
ملک میں ہونے والے دھماکوں کو ملکی سلامتی سے جوڑ کر دیکھا جانا چاہئے لیکن ہو تا یہ آیا ہے کہ بم دھماکوں کی تفتیش کو ایک خاص ذہنیت سے تحقیق کے دائرے میں لایا جاتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تفتیشی ایجنسیوں کی پیشہ وارانہ صلاحیت کی جانچ کی جائے اور ان میں سے ایسے لوگوں کو ایسے حساس ادارہ سے الگ کردیا جائے ، کیوں کہ ملک کی داخلی سلامتی اور استحکام سے جڑا ہوا مسئلہ ہے ۔ اس میں ذرا سی بھی کوتاہی ملک اور یہاں کی عوام کی سلامتی پر سوالیہ نشان لگا دیگا ۔جسے کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کیا جانا چاہئے ۔ وزیر اعلی جئے للیتا نے مرکز کے تعاون سے انکار کرتے ہوئے یہ کہا کہ ریاست کی تحقیقاتی ایجنسی اس قابل ہے کہ وہ اس دھماکہ کی تفتیش صحیح سمت میں کرسکتی ہے۔عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ حکومت کی تحقیقاتی ایجنسیاں کچھ بولیں اس سے پہلے ہی بے لگام الیکٹرانک میڈیا قیاس آرائیوں پر جھوٹ کا ایک شیش محل تعمیر کردیتا ہے کہ یہ دھماکہ فلاں دھماکوں کے مماثل ہے ، اسلئے فلاں فلاں تنظیموں کا ہی ہاتھ ہو سکتا ہے ۔ اس پر بریکنگ نیوز کے بعد نام نہاد ایکسپرٹ سے بحث و مباحثہ شروع ہوجاتا ہے ۔جس سے تفتیشی ایجنسیوں کو آسانی سے گمراہ کیا جاتا رہاہے ۔ لیکن حکومت کی طرف سے ایسے نیوز چینل کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی ۔ جس سے ان کے حوصلے بلند ہو تے جارہے ہیں۔ اسی کا انجام ہے کہ حالیہ الیکشن میں میڈیا کے جھوٹ کے سہارے نریندر مودی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے ۔ میڈیا کو کہا تو بہت کچھ گیا لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا کیوں کہ وہ اآواز نہایت کمزور اور نحیف تھی ۔ کچھ ماہ قبل تک جسٹس کاٹجو بھی میڈیا پر خوب برسے اور بجا طور پر برسے لیکن ابھی کے انتخابی ماحول میں وہ بھی خاموش ہیں۔ اروند کیجریوال نے ایک بار کہہ دیا کہ اگر ان کی حکومت آتی ہے تو وہ میڈیا کی جانب داری کی تحقیقات کروائیں گے اور جو خاطی پائے جائیں گے انہیں جیلوں میں ڈال دیا جائے گا ۔ بس پھر کیا تھا میڈیا ان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑگیا اور سیاسی حریف کانگریس اور بی جے پی بھی اروند کے خلاف اور میڈیا کی حمایت میں کھڑے نظر آئے ۔کہتے ہیں کہ میڈیا جمہوریت کا چوتھا ستون ہے ۔ اب جمہوریت کا چوتھا ستون اتنا بے لگام ہوجائے گا تو جمہوری قدروں کا کیا حال ہوگا جن کی دہائی اس دور میں خوب دی جاتی ہے ۔لیکن میڈیا کو لگام لگانے اور اس پر اخلاقی ضابطہ نافذ کرنیکی کسی کو کوئی فکر نہیں ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا کو اس بات کیلئے مجبور کیا جائیکہ وہ اپنا کام ایمانداری سے کرے ۔ اسی طرح تفتیشی ایجنسی بھی کسی سے متاثر ہوئے بغیر اگر اپنے کام کو بہتر طور پر انجام دیں تو ملک میں بم دھماکوں کی جو دہشت قائم ہو گئی ہے جس سے یہاں کے باشندے اپنے آپ کو جو غیر محفوظ محسوس کرنے لگے ہیں ۔اس سے نجات حاصل کرنا اور ان میں احساس تحفظ کو قائم کرنا ضروری ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ چنئی ٹریم بم دھماکہ کی تفتیش ہر زاویے سے کی جائے ۔ اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ موجودہ سیاسی ماحول میں کہیں کسی سیاسی جماعت کو وقتی فائدہ پہنچانے کیلئے کسی نے یہ حرکت تو نہیں کی۔ یہ بات بعید از قیاس بھی نہیں ہے کہ ہماری جمہوری حکومت میں
الیکشن جیتنے کیلئے کئی طرح کے حربے اپنائے جاتے ہیں ۔ سیاسی پارٹیاں اب جمہوری اقداراور اخلاقیات سے عاری ہوتی جارہی ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ تمل ناڈو کی راجدھانی چنئی میں ہونے والا حالیہ دھماکہ تفتیشی ایجنسیوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرائے گا اور ماضی کی غلطیاں تاریخ کا حصہ بن جائیں گی۔

«
»

16مئی کا سورج کو ن سا پیغام لے کر آئے گا؟

کشمیر پھرتلوار کی دھار پر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے