ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز چین کے ساتھ سرحدی جھڑپوں میں 20سپاہیوں نے اپنے ملک پر جان نچھاور کردی۔ ہندوستان بھر میں غم و غصہ کی لہر ہے۔ عوام بدلہ چاہتے ہیں۔ وہ بالاکوٹ کی طرح سرجیکل اسٹرائک کا مطالبہ کررہے ہیں۔ گودی میڈیا تسلی دے رہا ہے کہ چین کے بھی 43سپاہی یا تو […]
چین کے ساتھ سرحدی جھڑپوں میں 20سپاہیوں نے اپنے ملک پر جان نچھاور کردی۔ ہندوستان بھر میں غم و غصہ کی لہر ہے۔ عوام بدلہ چاہتے ہیں۔ وہ بالاکوٹ کی طرح سرجیکل اسٹرائک کا مطالبہ کررہے ہیں۔ گودی میڈیا تسلی دے رہا ہے کہ چین کے بھی 43سپاہی یا تو زخمی ہوئے یا تو مارے گئے۔ خود چین کی جانب سے اس کی تصدیق نہیں ہوئی۔ چین کے سرکاری انگریزی اخبار گلوبل ٹائمز نے اپنے اداریہ میں ان جھڑپوں سے متعلق لکھا کہ چین نہیں چاہتا کہ وہ مہلوکین کی تعداد ظاہر کرکے دونوں ممالک کے درمیان مزید تناؤ کی کیفیت پیدا نہیں کرے۔ ایک طرف چین کی مسلسل ہندوستانی سرحدوں کی خلاف ورزی‘ ہندوستانی علاقہ پر قبضہ اور سپاہیوں سے جھڑپیں ہورہی ہیں جس پر حکومت کی جانب سے ایسا شدید ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا جیسا دوسرے پڑوسی ملک کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے۔ بار بار یہی کہا جاتا رہا کہ دونوں ممالک کے درمیان حالات قابو میں ہے۔ کشیدگی بالکل نہیں ہے۔ اس کے باوجود20ہندوستانی سپاہیوں جن میں ایک کرنل بھی شامل ہیں‘ شہید ہوجاتے ہیں، تو اپوزیشن ہی نہیں عام ہندوستانی شہری بھی غم و غصہ کا شکار ہوجاتا ہے‘ جو واجبی ہے۔ کولکتہ سے نکلنے والے انگریزی اخبار دی ٹیلیگراف نے باقاعدہ صفحہ اول پر ذیلی سرخی دی ہے کہ ”گھر میں گھس کر مارا ہے“ یاد رہے کہ ہمارے قائدین نے اپنی تقاریر میں کہا تھا کہ وہ پاکستان اور چین کو اس کے گھر میں گھس کر رماریں گے۔ اپوزیشن قائدین حکومت سے چین کی جارحیت اور ہندوستانی سپاہیوں کی ہلاکت پر سوال اٹھارہے ہیں۔ موجودہ حکومت کے اہم ذمہ داروں نے بار بار اپنی تقاریروں میں یہ کہا تھا کہ ہند۔چین تنازعہ کے لئے 1962ء کی چین کے خلاف شکست کے لئے کانگریس حکومت ذمہ دار ہے اور اس میں بڑی حد تک سچائی بھی ہے کہ جس طرح مودی نے اپنی تقاریر میں چین اور پاکستان کو للکارا ہے 1962ء میں پنڈت نہرو نے اسی طرح کہا تھا کہ انہوں نے ہندوستانی فوج سے کہہ دیا ہے کہ وہ اپنے علاقہ سے چینی سپاہیوں کو نکال باہر کریں۔ کچھ عرصہ بعد چین نے اچانک حملہ کیا ہے جس کے لئے ہندوستان فوج تیار نہیں تھی۔ پنڈت نہرو امن کے سفیر بننا چاہتے تھے انہوں نے ہندوستانی سرحدی علاقوں میں چین کی جانب سے مسلسل دراندازی کو نظر انداز کیا۔ سردار پٹیل کے مشورے کو بھی اہمیت نہیں دی۔ جس کا خمیازہ ہندوستان کو اپنی بہت ساری زمین سے محروم ہوکر بھگتنا پڑا۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جب کبھی کسی ملک نے دوسرے ملک پر حملہ کرنے میں پہل کی‘ کچھ علاقوں پر قبضہ کیا تو دو ممالک کے درمیان امن بات چیت، مصالحت ہوجاتی ہے۔ بہت کم ایسا ہوتاہے کہ قبضہ کئے گئے علاقہ سے دستبرداری اختیار کی جاتی ہے۔ اس لئے کامیاب جنگ کا اصول یہی ہے کہ اپنے سرحد کی حفاظت کرنا ہو تو بڑھ کر پہلے حملہ کرے۔ چین نے ایسا ہی کیا جس ہندوستان علاقہ پر اس نے قبضہ کیا وہ اب تک اسی کے پاس ہے۔ وہ مشرقی ہمالیائی علاقہ میں 90ہزار کیلو میٹر اور مغربی خطہ میں 38ہزار کیلومیٹر ہندوستانی رقبہ پر اپنا حق جتا رہا ہے۔ 1962 ء کے بعد دونوں ممالک کی سرحدوں کو لائن آف ایکچول کنٹرول (LAC) سے علیحدہ کیا گیا جو لداخ کے مغربی خطہ میں ہے۔ دونوں ممالک اس علاقہ پر اپنا حق جتاتے ہیں۔ انہوں نے یہاں فوج اکٹھا کی۔ سڑکیں، فضائی اڈے اور دیگر انفراسٹرکچر تعمیر کئے۔ ٹیلی فون لائنس بچھائیں۔ اور دونوں کے سپاہی باقاعدہ اس متنازعہ سرحدی علاقہ میں گشت کرتے ہیں۔ چین نے اپنی PLA اور تبت ملٹری کمانڈ کے ساتھ مشکل جنگی مشقیں بھی کی ہیں جس میں بھاری گولہ بارود استعمال کیا گیا تھا۔ جس کا مقصد ہندوستانی سپاہیوں سے مقابلہ کے لئے ریہرسل کرنا تھا۔ ہندوستان اور چین میں 1962ء کی جنگ کے بعد 1975، 2013 اور 2017ء میں جھڑپیں ضرور ہوئیں مگر زائد از نصف صدی عرصہ میں اتنے بڑے پیمانے پر لڑائی نہیں ہوئی تھی جس میں 20ہندوستانی سپاہی شہید ہوئے۔ یہ لڑائی ہتھیاروں کے بغیر ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چینی سپاہیوں کے پاس ایسی لاٹھیاں تھی جن پر لوہے کی کیلیں اور کانٹے لگے ہوئے تھے جس سے انہوں نے حملہ کیا۔ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ پہلے سے حملے کے لئے تیار تھے۔ اور ہندوستانی سپاہیوں کو اس کا وہم و گمان میں بھی نہ تھا پھر بھی بہادر جوانوں نے مقابلہ کیا اور دھوکہ باز دشمن کو اچھا خاصا جانی نقصان پہنچایا۔ دشمن ملک کو چاہے جتنا بھی نقصان ہوا ہو ہمارا ایک بھی سپاہی شہید ہوتاہے تو اس کے لئے پورا ملک غمزدہ ہوجاتا ہے۔چین کے سرکاری اخبار نے اس خونریز جھگڑے کے لئے ہندوستان پر ہی الزام عائد کرتے ہوئے لکھا کہ اس نے سرحد کے ساتھ انفراسٹرکچر تعمیر کیا۔ اور LAC کے چینی علاقہ میں جبری طور پر تعمیرات کیں۔ گلوبل ٹائمز نے کہا کہ ہندوستان نے سرحدی تنازعات پر سخت اور جارحانہ موقف اختیار کررکھا ہے جو دراصل اس کی غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ اس کا یہ ایقان ہے کہ چین‘امریکہ کے بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے ہندوستان سے اپنے تعلقات خراب نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ ہندوستانی عوام کو اس بات کا غلط ایقان ہے کہ ان کے ملک کی فوج چین کے مقابلہ میں زیادہ طاقتور ہے۔ ان غلط فہمیوں کا ہندوستا نی رائے عامہ پر اثر ہوا ہے اور ہندوستان کے چین سے متعلق پالیسی پر بھی۔ گلوبل ٹائمز لکھتا ہے کہ چین‘ ہندوستان سے لڑنا نہیں چاہتا۔ وہ باہمی سرحدی تنازعہ کا پُرامن حل چاہتا ہے۔ یہ چین کا جذبہ خیر سگالی ہے۔ تاہم چین امن کے لئے اپنی سالمیت کو قربان کیسے کرسکتا ہے۔ حکومت چین کی ترجمانی کرتے ہوئے گلوبل ٹائمز نے مزید لکھا کہ ہندوستان کو یہ سمجھ لینا چاہے کہ امریکہ کا جو کچھ بھی اقدام ہوگا وہ عارضی اور محدود ہوگا۔ وہ ہندوستان کو اُکساکر چین کے ساتھ تعلقات کوبگاڑ کر اپنا استحصال کرے اور اسے واشنگٹن کے مفاد کے لئے کام کرنے کے لئے مجبور کرے گا۔ چین اپنے خطہ کی ایک ایک انچ زمین کی حفاظ کرے گا۔ دی اکنامسٹ نے ہند۔چین جھڑپوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر کی دستوری خود مختاری کے خاتمے اور لداخ کو علیحدہ علاقہ قرار دینے کے حکومت ہند کے فیصلے نے چین کو مشتعل کیا ہے۔ دوسری طرف چین کی اس کے پڑوسی ممالک پاکستان، نیپال اور بھوٹان، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے بڑھتی ہوئی معاشی قربت سے ہندوستان مضطرب ہے۔واشنگٹن پوسٹ نے تنقید کی کہ چین عالمی وباء سے پیدا شدہ بحران کے دوران اپنی طاقت کا مظاہرہ کررہا ہے۔ پس منظر میں جنوبی چین کے سمندی علاقہ میں ملیشیا اور ویتنام کے جہاز موجود ہیں۔وہ ہانگ کانگ پر بھی اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کا خیال ہے کہ چین نے جو بھی کیا ایک بڑے منصوبہ کے تحت کیا ہے۔ گلف نیوز نے بھی موجودہ حالات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے بڑی طاقتوں کو مشورہ دیا کہ وہ دخل اندازی کرتے ہوئے قیام امن میں مداخلت کرے۔ چین کی جارحیت کے خلاف ہندوستان کے مختلف علاقوں میں احتجاج جاری ہے۔ چینی پراڈکٹس کی بائیکاٹ کی اپیل کی جارہی ہے۔ چینی صدر کے پتلے اور پورٹریٹس،نذر آتش کئے جارہے ہیں۔ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے فون پر بار چیت کی۔تناؤ کم کرنے سے اتفاق کیا۔ وزیر اعظم مودی نے اپنے ٹوئیٹ کے ذریعہ اعلان کیا کہ 19/جون کو اس مسئلہ پر کل جماعتی اجلاس طلب کیا جائے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہندوستان امن ضرور چاہتا ہے مگر چین کو اس کی جارحیت کا جواب دیا جائے گا۔ سونیا گاندھی، راہول گاندھی نے یہ جاننا چاہا کہ آخر ہندوستان کے فوجی جوان کیسے شہید ہوئے۔ محبوبہ مفتی جو نظربند ہیں‘ اپنی ٹوئیٹ پیغام میں کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ چین نے گھر میں گھس کر ماریں گے کا نعرہ اپنایا لیا ہے۔ چین کو اس وقت دوسرے پڑوسی ملک پاکستان کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ چین نے سرحدی تنازعہ کو باہمی طور پر حل کرنے کی بہترین کوشش کی مگر ہندوستان نے ایسے جذبے کا اظہار نہیں کیا اور وہ متنازعہ علاقہ میں تعمیرات کا سلسلہ جاری رکھا۔ جس کے نتیجہ میں خونریز جھڑپیں ہوئیں۔ اس واقعہ سے ہندوستان کے قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی کی خارجہ پالیسی پر ہونے والی تنقید میں اضافہ ہوا ہے۔ نیپال کے ساتھ سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے مسئلہ پر بنگلہ دیش سے ناراضگی مول لی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے اپنے بیان میں کہا کہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے جو کئی دہوں بعد خونریز جھڑپوں کی شکل میں ظاہر ہوئی ہے۔ یہ ہندوستان کی ہندوتوا آئیڈیالوجی کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے جموں و کشمیر کے خصوصی موقف کی برخواستگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ چین اور پاکستان نے ہندوستان کی اس متنازعہ موقف کو مسترد کردیا ہے۔ قصوری نے کہا کہ ہندوستان بجائے اعتدال پسند رویہ اختیار کرنے کے انتہاپسندی کا طریقہ اختیار کررہا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے۔ تاہم اگر ہندوستان یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان اس کے جارحانہ ریو سے ڈر جائے گا تو یہ ایک محض غلط فہمی ہوگی۔ اسی اثناء میں پاکستان کے ایک یوٹیوب چیانل صابر شاکر چیانل نے اس اندیشہ کا اظہار کیا کہ چین کے ساتھ جھڑپوں کے بعد کے حالات کا رخ موڑنے کے لئے ہندوستان پاکستان کے خلاف کاروائی کرسکتا ہے۔ انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ پاکستانی سرحدوں کے قریب ہندوستانی فوج کی نقل و حرکت کا سٹیلائٹ کے ذریعہ مشاہدہ کیا گیا ہے۔ بہرحال! حالات بظاہر قابو میں ہیں‘ مگر حقیقت کچھ اور ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضرروری نہیں ہے
20جون 2020 (ادارہ فکروخبر)
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں