چین کی طرح ہندوستان کی بیوروکریسی کی تربیت ہو

عارف عزیز(بھوپال)

  ہندوستان کے ہمسایہ ملک چین نے پچھلی تین دہائیوں کے دوران ۰۷ کروڑ عوام کو غربت سے نکالنے میں بے مثال کامیابی حاصل کی ہے، جس سے دوسرے زیر ترقی ممالک کو سبق لینا چاہئے۔ جو لوگ بھی چین جاتے ہیں تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ وہاں ہر جگہ ترقی کے مناظر انہیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ وہاں پرانی عمارتوں کو ہی محفوظ نہیں رکھا گیا نئی تعمیرات بھی بڑے پیمانے پر ہوئی ہیں۔
    چین کی قیادت نے ایک بڑا کام یہ کیا کہ اس نے چین کے سرکاری عملہ کو بہت مضبوط کیا اور اس کے لئے عالی شان دفاتر اور رہائش گاہیں تعمیر کی گئی ہیں کیونکہ چینی قیادت کے وژن کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سرکاری عملہ کا اہم کردار ہے، جسے ہم بیورو کریسی کہتے ہیں۔ چین کی بیورو کریسی بہت مضبوط ہے۔ مضبوط ہونے کا مطلب یہ نہیں ہیکہ وہ اپنی منمانی کرتی ہے اور بے لگام ہے یا سیاسی قیادت کے کنٹرول سے باہر ہے۔ چین میں دو ادارے بہت اہم ہیں۔ ایک چین کی کمیونسٹ پارٹی اور دوسرا ادارہ چین کی بیوروکریسی۔ چین میں اوپر کی سطح سے لیکر نیچے تک سرکاری ملازمتوں میں بھرتی کے لئے میرٹ کا سخت ترین نظام رائج ہے، جس پر کوئی اثر انداز نہیں ہوسکتا۔ چین کی بیوروکریسی کی تربیت کا معیار بہت بلند ہے اور اس کے احتساب کا بھی ایک مضبوط اور خود کار نظام ہے۔ سیاسی قیادت اپنے وزن پر عمل درآمد کے لئے بیورو کریسی پر انحصار کرتی ہے اور اسے مکمل اختیارات کے ساتھ ساتھ سہولتیں بھی میسر ہیں۔ اس کے کام میں کسی طرح کی مداخلت نہیں ہوتی۔
    ہمارے ملک ہندوستان میں بیوروکریسی زوال و انحطاط سے اس لئے ہمکنار ہوئی کہ ملک کو انگریزوں کے ورثہ کے طور پر جو سرکاری عملہ ملا، جسے برطانوی راج کا آہنی ڈھانچہ بھی قرار دیا جاتا تھا، اصلاحات کے نام پر اس بیوروکریسی کے نوآبادیاتی مزاج و خصوصیات کو ختم کرنے کے بجائے، اس کو سیاست بالخصوص حکمراں جماعت کا تابع بنا دیا گیا، لہٰذا حکمراں اور سیاست داں اسے ستر بہتّر سال سے اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ اس کی بھرتی بھی پہلے صوابدیدی اختیارات اور سفارش کی بنیاد پر ہوتی تھی، آج بھی ریزرویشن کے نظام کے تحت جو عملہ سرکاری ملازمتوں میں داخل ہورہا ہے، اس کی صلاحیت و قابلیت ہرگز بھروسہ کے قابل نہیں، دوسری طرف اس کا سیاسی استعمال جاری ہے بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اسی لئے حکمرانوں کے ذریعہ اس کا بروقت اور صحیح احتساب نہیں ہوپاتا، وہ پہلے اپنے سیاسی آقاؤں کے لئے کام کرتے ہیں،پھر اپنے مفادات کی تکمیل میں بھی مصروف ہوجاتے ہیں۔ ہندوستان کو چین سے جو بنیادی سبق سیکھنا ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستان میں ایک مؤثر، باصلاحیت اور ایماندار بیورو کریسی ہو، جو سیاسی قیادت کے ہاتھوں میں کھلونا تو نہ بنے لیکن عوامی مفاد کے تئیں خود سپر رہ کر دستور وقانون کے تحت کام کرتی رہے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

04جنوری 2020

«
»

جے این یو میں جنگلی ظلم کا ننگا ناچ

سیاسی طنزیہ: جانے کہاں گئے وہ دن؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے