نریندر مودی کی ہندوستانی وزیر اعظم منتخب ہونے سے پہلے ہی سے چین میں ان کی بہت اچھی امیج ہے۔ 2011ء میں انہوں نے چیف منسٹر گجرات کی حیثیت سے چین کا دورہ کیا تھا، جہاں ان کا جس انداز میں خیر مقدم کیا گیا تھا ماضی میں شاید ہی کسی ہندوستانی قائد کا کیا گیا ہوگا۔ مودی نے چین کے سرکردہ صنعتکاروں اور تاجروں کے اجلاس سے خطاب کیا تھا اور جواب میں چین کی مشہور کمپنی TBEAکے سی ای او نے اپنی تقریر میں مودی کی ستائش کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ہندوستان میں چینی صنعتکاروں کے لئے کئی مسائل ہیں، تاہم گجرات میں نریندر مودی نے بہت سہولتیں فراہم کی ہیں، چنانچہ ان کی کمپنی گجرات میں 2500کروڑ کی سرمایہ کاری کرسکتی ہے۔ اب TBEAگجرات کے وڈودرا میں ’’انرجی پارک‘‘ میں سرمایہ کاری کررہی ہے۔
ذی جن پنگ ہند۔چین تعلقات کے استحکام کی غرض سے ہندوستان کا دورہ کررہے ہیں، دوسری طرف چینی سپاہی ہندوستانی علاقوں میں پانچ کلو میٹر اندر تک داخل ہوکر باہمی معاہدات کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ ایک طرف دوستی کی باتیں، دوسری طرف دغا بازی۔ خیر یہ چین کی جانب سے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں ایسے تلخ ترین تجربات ہوچکے ہیں۔ یوں تو ہند۔ چین کے تعلقات ہزاروں سال قدیم ہیں۔ تاہم آزاد ہندوستان اور عوامی جمہوریہ چین کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات یکم ؍اپریل 1950میں قائم ہوئے۔دونوں ممالک کے درمیان 3325کلو میٹر طویل ہمالیائی سرحدی علاقہ تنازعہ کا سبب بنارہا۔
چین نے ’’اکسائی چن‘‘ اور اروناچل پردیش کو اپنا علاقہ قرار دیا جبکہ ہندوستان کا استدلال رہا کہ اکسائی چن کشمیر کا حصہ ہے جبکہ چین اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا کہ اکسائی چن زنجیانگ کا حصہ ہے‘ دراصل ہند۔ چین سرحد کا مغربی علاقہ ہے۔ 1956-57میں چین نے تبت اور زنجیانگ کے درمیان سڑک کی تعمیر کی اور اکسائی چن پر سرحدی چوکیاں قائم کردی تھیں۔ حالانکہ اس سے دو سال پہلے ہی 1954میں ہند ۔ چین نے ’’پنچ شیل‘‘ معاہدہ کے تحت ہندوستان کے سرحدی نقشہ کو تسلیم کرلیا تھا۔ پنڈت نہرو، جواین لائی کے قریب کا شکار ہوئے حالانکہ برمی وزیر اعظم BA-SWEنے انہیں اس سلسلہ میں خبردار کیا تھا کہ وہ جوائن لائی سے بات چیت کے دوران محتاط رہیں۔ پنچ شیل معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان پر امن بقائے دام کے پانچ اصولوں پر مبنی ہے، ایک دوسرے کی علاقائی یکجہتی اور اقتدار اعلیٰ کا احترام ، دخل اندازی سے گریز، مساوات، تعاون باہمی مفاد اور پرامن بقائے دوام ان میں شامل ہے۔ تاہم چین نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عالمی اداروں کو جو نقشے پیش کئے تھے اس میں ایک لاکھ بیس ہزارکلو میٹر ہندوستانی علاقہ کو چینی علاقہ میں دکھایا گیا۔
1959میں 14ویں دلائی لامہ ، تبت میں شورش کے بعد مہاسہ سے تبت آئے تو ہندوستان نے انہیں پناہ دی، جس پر چین چراغپا ہوا۔ اور دونوں ممالک کے درمیان ایک خاموش سی غیر معلنہ جنگ کی شروعات ہوئی۔
جون 1962میں چین نے اسکائی چن پر قبضہ کیا، اور جولائی 1962کو 350چینی سپاہیوں نے میک موہن لائن آف کنٹرول کے قریب ہندوستانی چوکی کا محاصرہ کیا، تاہم بعد میں دستبردار ہوگئے۔ 20؍ اکٹوبر 1962ء کو چینی فوج نے ہندوستان کی سمت پیش قدمی کی۔ اور اچانک حملہ کیا، ایک مہینے تک جاری اس جنگ میں جو چین نے دھوکہ سے مسلط کی دوہزار سے زائد ہندوستانی سپاہی شہید ہوئے تھے۔ 1967میں بھی ’’درہ ناتھولا‘‘ اور ’’جیلی پلہ‘‘میں بھی جھڑپیں ہوئیں، ناتھولا میں 62اور جیلی پلہ میں 88ہندوستانی سپاہی شہید ہوئے تھے۔
چین کبھی بھی ہندوستان کا دوست نہیں رہا، 1971ء کی ہند۔ پاک جنگ کے دوران اس نے پاکستان کی حمایت کی تھی اور اقوام متحدہ میں چینی نمائندہ نے ہندوستان کو سوویت یونین کا ایجنٹ قرار دیا تھا۔ 1977ء میں اندرا گاندھی کی انتخابات میں شکست کے بعد ہند۔ چین تعلقات میں بہتری ہوئی۔ 1979ء میں مرارجی دیسائی کے دور حکومت میں سفارتی تعلقات بحال کئے گئے، تاہم ارونا چل پردیش پر حق ملکیت کا چینی دعوی برقرار رہا۔ واضح رہے کہ اروناچل پردیش کو پہلے نارتھ ایسٹرن ، فرنٹیرالائنس (نیفا) کہا جاتا تھا۔
ڈسمبر1988میں راجیو گاندھی نے چین کا دورہ کیا جس کیب عد 1990میں شنگھائی اور ممبئی میں قونصل خانے قائم ہوئے۔ 1992ء میں وزیر دفاع کی حیثیت سے شردپوار نے چین کا دورہ کرکے دفاعی تعاون کے معاہدے طے کئے۔
نرسمہاراؤ اور لی پینگ کے درمیان ہند۔چین سرحد کے علاوہ گلوبل وارمنگ ، آلودگی، سے متعلق معاہدات طے پائے گئے۔
2000ء میں صدر جمہوریہ کے آر نارائنن اور 2003میں واجپائی نے چین کا دورہ کیا۔ 2006میں ناتھولا اور جیلی پلہ کے راستے دوبارہ کھول دےئے گئے۔ یہ راستے 44برس سے بند تھے۔ ناتھولا ہمالیائی خط سے گزرتا ہوا تجارتی راستہ ہے۔
ہند۔ چین کے باہمی چپخلش، جھڑپوں، کشیدگی کے باوجود باہمی تعلقات کو استوار رکھنے کی کوشش کی۔ دونوں ممالک G-20، BRICSکے رکن ہیں، دونوں ممالک کے درمیان تجارت 70بلین ڈالرس تک پہنچ چکی ہے اور 2050تک ایک ٹریلین ڈالرس کے نشانہ کو چھولینے کا امکان ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان گذشتہ سال 8لاکھ 20ہزار افراد کا مختلف اغراض و مقاصد کے تحت دورہ ہوا ہے۔
ہندوستان اور چین دنیا کے دو عظیم ممالک ہیں، رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے ان کی اہمیت ہے۔ ہندوستان عظیم جمہوریت ہے، تاہم چین میں جمہوریت کو کچل دیا گیا، جمہوریت پسند قائدین کا صفایا کیا گیا۔ اس طرح دونوں ممالک کو عظیم جمہوریتیں کہنا مبالغہ ہے۔ البتہ دونوں ممالک عالمی سطح پر تیزی سے ابھرنے والی طاقتیں ہیں۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ چین کو ہندوستان کے مقابلہ میں برتری حاصل ہے۔
ہند ۔ چین کے درمیان تعلقات کا استحکام اپنی جگہ خوش آئند ضرور ہے۔ تاہم اس حقیقت کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ چینی جہاں عالمی منڈی میں ایک سوپر پاور کی حیثیت حاصل کرتا جارہا ہے وہیں ہندوستانی مارکیٹ میں بھی اس کے قدم مضبوطی سے جم چکے ہیں۔ ہندوستانی مارکیٹ میں چین سوئی سے لے کر کھلونے ، الکٹرانک گیجٹس ، موبائل فونس، دیوالی کے پٹاخے، گرم پانی کی بوتلیں سب کچھ سستے دام پر فراہم کررہا ہے۔ یہ اوت بات ہے کہ اس کی کوالٹی یا معیار گھٹیا ہوتا ہے، تاہم ہندوستانی صارفین معیار کے مقابلہ میں دام کو ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہندوستانی صنعتوں کو ناقابلِ بیان نقصان پہنچا ہے۔ ہندوستانی کھلونے کی صنعت سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ گذشتہ پانچ سال کے دوران 40%کھلونا بنانے والے ادارے بند ہوگئے۔ اگلے پانچ برس میں مزید 20% ادارے بند ہوجائیں گے۔ بھیونڈی اور تھانہ کے صنعتی ادارے تقریباً بند ہوچکے ہیں۔ پٹاخہ کی صنعت کو بھی نقصان پہنچا۔ چینی پٹاخہ ساز کمپنیاں پٹاخوں میں گندھک کا زیادہ استعمال کرتی ہیں، جو مضر صحت ہے مگر ہندوستانی صارفین کو اس سے متعلق شعور نہیں ہے۔ بیشتر ہندوستانی مینوفیکچررس، چینی اشیاء خرید کر Made in Indiaکے اسٹکرس چسپاں کرکے انہیں فروخت کرنے کے لئے مجبور ہیں۔
سافت ویر، ہارڈ ویر، سیمی کنڈکٹرس، ٹیلی کام، پاور اکوئپمنٹس چین سے امپورٹ کئے جارہے ہیں۔ ہاں ہندوستان آئی ٹی سیکٹر اور انٹر نیٹ یوزر کی حیثیت سے چین کے مقابلہ میں برتری کا حامل ہے۔ ہندوستانی آئی ٹی انجینئرس کو چینیوں کے مقابلہ میں سبقت انگلش کمیونیکشن ، اسکلس کی بدولت ہے۔
چین کی ترقی کی ایک وجہ سرکاری سرپرستی ہے جبکہ ہندوستانی حکومت اپنے صنعتکاروں کی خاطر خواہ سرپرستی نہیں کرتی۔
ان حقائق کے پس منظر میں چینی صدر رہندوستان کے دورہ پر ہیں، جیسا کہ کہا گیا کانگریس کے دور حکومت میں ہند۔ چین تعلقات بہتر نہیں رہے، مرارجی دیسائی کے دور میں اور اب مودی کے دور میں تعلقات خوشگوار ہوسکتے ہیں۔
چینی کمپنیاں SANYکنسٹرکشن اور مینو فیکچرنگ میں 60ملین ڈالرس، YGBYفیول ٹینکس کے شعبہ میں چینائی میں 14ملین ڈالرس، HUAWEIبنگلور میں ٹیلی کام سیکٹر میں 150ملین ڈالرس کی سرمایہ کاری کررہی ہے۔
ہندوستان کو اس وقت غیر ملکی زر مبادلہ کی ضرورت ہے، چین کی سرمایہ کاری اس ضرورت کی تکمیل بھی ہے، نریندر مودی نے جاپان میں بھی اپنے مثبت نقوش چھوڑے ہیں، چین سے وہ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔ سرمایہ کاری کے لئے وہ ہندوستانی علاقوں سے دستبرداری اختیار نہیں کرسکتے۔ ماضی کے تلخ تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ چینی صدر سے سرحدی تناؤ کو کم یا ختم کرنے کے لئے وہ کیا کریں گے یہ وقت ہی بتائے گا۔
جواب دیں