مہنگائی کے ایشو پرانہیں ڈرائیں اوردوڑائیں نہ،وہ توپہلے ہی بہت ڈرے ہوئے اورتھکے ہوئے ہیں۔ حالات وواقعات نے انہیں اس قدر ٹچی بنادیاہے کہ سوئی کی آواز بھی انہیں کسی دھماکے سے کم نہیں لگتی۔ اس کے لئے موجودہ سرکارکو عوام کے لئے ’’کاروبار‘‘ کرنا ہوگا پھرکہیں جاکر ان کابازار چلے گا۔ ان کی مسکراہٹ سے کسی خوش فہمی میں مبتلانہ ہوجائیں۔ مسکراتے ہوئے چہروں کے دل بہت اداس ہوتے ہیں،ان کے توخواب بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتے۔ ہررات کوشب برأت سمجھنے والوں کویادوں کی بارات کاکیاپتہ ،انہیں اس کاپہلے سے اندازہ ہوجائے تو وہ آنکھ بند کرنے سے ہی توبہ کرلیں۔ بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھلی ہوئی ہوتی ہیں مگران کے ضمیر سو رہے ہوتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتاہے کہ آنکھیں ہمیشہ کے لئے بندہوجاتی ہیں مگران کی تعبیرجاگتی رہتی ہے۔
بہت سے خواتین وحضرات کوآنکھوں کی’’چہل قدمی‘‘ کابڑا شوق ہوتاہے‘انہیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتا کہ آنکھیں بھٹک جائیں یاکہیں اٹک جائیں۔اسی شوق چشم میں وہ بہت سے روگ بھی لگاجاتے ہیں۔ دوسروں کے گھروں میں ’’نظراندازی‘‘ کرنے والوں کو اپنی چادروچاردیواری کے اندربھی دیکھناچاہئے کہ اس تاک جھانک سے دل پر کیا گزرتی ہے۔ من کاویسے بھی دھن سے کیا رشتہ ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ دل نہ بھریں،یہ بھرگیا توبہت سے سیلاب جسم کوڈبودیں گے۔ سیاست میں یہی سیلاب،سونامی بن جاتے ہیں۔ پیارے پاکستان میں بہت سے سیاستدان اقتدارکے بغیر نہیں رہ سکتے اور اسلام آباد ان کے بغیر نہیں رہ سکتا،ہماری بربادی میں ان لوگوں کی آبادی کاسب سے بڑا ہاتھ ہے ۔ کہاجارہاہے کہ آمریت کے کسی نئے طوفان کے لئے تشدد کوہوادی جارہی ہے۔ جب تک سمجھوتے دل سے نہیں ہوں گے ،اس کے لئے چاہے جتنے مرضی الفاظ جمع کرلیں،کاغذ کو راہی رہے گا۔لوگ تویہ بھی کہتے ہیں کہ محبت صرف ایک بار ہوتی ہے اوراس کے بعدسمجھوتے ہی چلتے ہیں،جب تک جان ہے ،جہان داری تونبھانی ہی پڑے گی،جس میں ہارجیت چلتی رہتی ہے۔ جیتنے والوں کویہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ قوم دکھوں سے ہاررہی ہے۔آئے دن کوئی ماں اپنے معصوم بچوں سمیت خود کوٹرین سے کٹواکر ہمارے سسٹم کو کاٹ کررکھ دیتی ہے ۔ہمارے یہاں توزندہ لوگوں کاحساب نہیں لیاجاتا،مرے ہوئے کس کھاتے میں آئیں گے۔
صرف اگراپنی ضرورتوں کوپوراکرنے کے لئے سخت فیصلے کریں گے تولوگوں کاری ایکشن بھی اسی طرح کاسخت ہوگا۔فیصلے توتاریخ میں کچھ اس قسم کے بھی رقم ہوئے ہیں۔ جب سکندرمرزاپشاورکے ڈپٹی کمشنر تھے توان دنوں وہاں ڈاکٹر خان صاحب کی قیادت میں ایک جلوس نکالاگیا۔ سکندرمرزا نے جلوس کومنتشر کرنے کے لئے پولیس تک طلب نہیں کی بلکہ اس کے راستے میں ٹھنڈے شربت کی سبیلیں لگائیں،گرمی کاموسم تھا،جلوس کے شرکاء جی بھرکراپنی پیاس بجھاتے رہے۔ شربت میں جمال گوٹہ ملایاہواتھا۔ پھرایک روز جب ڈاکٹر خان صاحب وزیربن گئے توسکندرمرزانے بیوروکریسی کونصیحت کی کہ ’’ڈاکٹر صاحب کوخوش رکھنے کاخیال رکھاکرو،اس شخص نے ساری عمر جیل کی ہوا کھائی ہے یاپولیس کے ڈنڈے ،ہم اسے بڑی مشکل سے گھیرگھارکر حکومت میں لائے ہیں۔ اب اسے Good Lifeکاایساچسکا لگاؤکہ وہ اس پنجرے سے باہر نہ نکل سکے۔‘‘ سکندرمرزا کے ری پبلکن پارٹی کے خواب کی تعبیر ڈاکٹر صاحب کے ہاتھوں ہی ہوئی۔
جب بھی کوئی سرکارگڈلائف کے پنجرے کی اسیرہوئی،اس کے نتیجے میں خلقت صرف حقیر ہوئی۔ عوام نے موجودہ سرکار کوبڑی تمناؤں کے ساتھ چناہے۔ صرف ماضی کے ہی تذکرے نہ کریں،عوام کے علم میں سب کچھ ہے۔ اب باتوں کی بجائے عمل کرکے دکھائیں،عوام کو دئیے گئے ریلیف سے ہی ان کے گریف ختم ہوں گے۔ انسان کے جذبات ناقابل تسخیرہوتے ہیں۔مگریہ بھی توسوچیں کہ ان کے دردکے فاصلوں کو کیسے کم کرناہے۔فاصلے توایک ہی جسم میں دل ودماغ کے درمیان دشمنی لگادیتے ہیں۔ایسے میں دل اپنانہ دماغ حالانکہ ان کی ورکنگ ریلیشن شپ سے ہی قدم آگے بڑھتے ہیں۔ سرکارکادعویٰ ہے کہ پہلی بار پیارے پاکستان کوجمہوریت ملی ہے،یہ واقعی مل گئی ہے، لوگ توتب مانیں گے۔
تمہیں ملنے سے بہترہوگیاہوں… میں صحرا تھا سمندر ہوگیا ہوں
صحرامیں سراب بھی کسی خوبصورت خواب سے کم نہیں دکھائی دیتا،جس کی مرہون منت آنکھیں امیدسے ’’تربتر‘‘ رہتی ہیں۔امیدکسی حال میں بھی نہیں ٹوٹنی چاہئے۔ بصورت دیگر انجام اس عمارت کی طرح کاہوتاہے جولمحوں میں مسمارہوجاتی ہے۔امیدکوبارودکے ساتھ ساتھ ’’نمرود‘‘ سے بھی بچاناہوتاہے کیونکہ یہ زندگی کی سب سے واضح علامت ہوتی ہے۔ یہ وہ سورج ہے جورات کوبھی روشن رکھتاہے۔امیدٹوٹ گئی توسمجھو کہ قسمت ہی پھوٹ گئی۔اب بھی یہی کہاجارہاہے کہ ملکی معیشت کے لئے مزید سخت فیصلے کرنے پڑیں گے۔بجلی کے اضافی بلوں کے ذریعے دن دیہاڑے جوڈاکہ ڈالاگیاہے اس کے مجرموں کوکیفرکردارپہنچانے میں لیت ولعل سے کیوں کام لیاجارہاہے؟ اوپر تبدیلی آگئی ہے کیا،جونیچے اسی طرح کے سخت فیصلے ہوں گے؟ گستاخی معاف!اس کامطلب تویہ ہوا کہ صرف چہرے ہی بدلے ہیں۔
جواب دیں