چیتے کا جگر چاہیے شاہیں کا تجسس

(اغوائی کا واقعہ اور ہمارا معاشرہ)

عبداللہ غازی ندوی

مدیر ماہ نامہ پھول بھٹکل 

 

گزشتہ دنوں گھر گھر میں اغوا کیے گئے بچے کے سلسلے میں گفتگو ہوئی، بلاشک یہی سب کا موضوع سخن رہا، اس صورتحال میں بعض والدین اس قدر خوف زدہ تھے کہ ہر آن بچوں کے لیے پریشان نظر آئے اور بچوں کے توکیا کہنے! ہر ایک ڈرا ہوا اور والدین، اساتذہ اور بڑوں کی ڈراؤنی نصیحتوں سے سہما ہوا۔

اس دوران میں بعض اساتذہ نے اپنے طلبہ کو اغوا کے مختلف حربوں پر اچھا خاصا سبق پڑھایا، بعض وہ مخفی باتیں بھی بچوں کی زبانی سنی گئیں جن کو شاید خفیہ اور تفتیشی ادارے بھی نہ جانتے ہوں۔ اس خوف اور دہشت کے نتیجے میں بچوں میں جو بچا کھچا دم خم تھا وہ بھی ان حربوں سے متاثر ہوا۔

ہمارے ایک دوست نے اپنے یہاں کے شبینہ مکتب کا ریکارڈ بھیجا، طلبہ کی اچھی خاصی تعداد ان کے یہاں رہتی ہے لیکن گزشتہ روز صرف 4 طلبہ حاضر تھے۔

بعض تعلیمی اداروں کے اساتذہ نے طلبہ کو اغوا کرنے والوں کے وہ ڈراونے حربے بتائے کہ جن کو سن کر ہی طلبہ کی نیندیں حرام ہوجائیں۔

اقبال مرحوم نے ایسوں کے لیے ہی کہا ہوگا کہ

 

شکایت ہے مجھے یارب!خدا وندان مکتب سے

سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا

 

واٹس ایپ کھولیے، ہر گروپ پر وہی موضوع اور اسی کے بارے میں گفتگو۔ ہم اس معاملے میں بال کی کھال نکالنا نہیں چاہتے اور نہ ہی اس گتھی کو سلجھانے کے لیے کسی عقل مند کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ اپنی تمام تر مصروفیات کو بالائے طاق رکھے۔ اتنا تو پتہ چل ہی گیا کہ اس آپسی چپقلش سے عوام و خواص کے جذبات بہت زیادہ متاثر ہوئے اور بہت اعتبار سے جو نقصان پوری قوم کو ہوا اس کا اثر دیر تک ہوگا۔خصوصا والدین نے بچوں کو ڈر اور بزدلی کا جو درس دیا وہ ناقابل تلافی ہے۔

اس ماحول میں ضرورت اس کی تھی کہ والدین اور اساتذہ بچوں کو احتیاطی تدابیر بتانے کے ساتھ ان کے سامنے بہادروں کے وہ قصے چھیڑتے جن سے بچوں کا حوصلہ بڑھتا، جذبات کی سرد انگیٹھیاں گرم ہوتیں اور عزائم اور حوصلوں کو بلندی ملتی۔

کیا اندیشوں کے اس ماحول میں ہماری ماؤں کو وہ واقعہ یاد نہیں آیا جب دو کم سن صحابہ حضرت معاذ اور حضرت معوذ رضی اللہ عنھما نے لشکر کفار کے سرغنہ ابوجہل کو جہنم پہنچایا تھا!

ایک مرتبہ جب دشمن سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کرکے اونٹ لے کر فرار ہوئے تو ایک ننھے صحابی حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے ان کا پیچھا کرکے ان پر تیروں کی بوچھار کی تھی، جن کی عمر اس وقت صرف 12 سال تھی۔سیرت کی کتابوں میں جن کے بارے میں یہ بات ثابت ہے کہ وہ گھوڑوں سے بھی تیز بھاگتے تھے۔

کیا ہماری مائیں حضرت رافع رضی اللہ عنہ کی اس داستان کو بھول گئیں جنھوں نے جنگ احد میں شرکت کے لیے آپ سے التجا کی تھی، پھر کشتی جیت کر اپنی بہادری کا ثبوت دیا تھا اور جنگ میں شامل ہوئے تھے۔

کیا حضرت اسماء بنت ابوبکررضی اللہ عنہا کا حال ہمارے لیے قابل نمونہ نہیں ہے! جب خندق کے موقع پر ان کے بیٹے حضرت عبداللہ بن زبیر رض کی عمر 6 سال سے کم تھی، لیکن وہ ان کو خندق کے گھمسان کا پورا منظر دکھا کر بہادری کا ہنر سکھاتیں۔ اسی تربیت کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ آگے چل کر بادشاہ وقت عبدالملک بن مروان سے ٹکرائے تھے۔

تاریخ کی کتابوں میں ملت اسلامیہ کے بہت بڑے ہیرو اور اللہ کے ولی سید احمد شہید کے بچپن کا واقعہ ہمارے لیے عظیم پیغام دیتا ہے، جب ان کے بچپن میں ان کے علاقے پر دشمنوں کا حملہ ہوا تو وہ فورا نکلنے کے لیے تیار ہوئے،جب والدہ کے پاس اجازت لینے کی غرض سے گئے تو دیکھا کہ وہ نماز میں تھیں، انھوں نے ملازمہ کو بتا کر نکلنا چاہا تو ملازمہ نے ان کو فورا روک لیا،جب والدہ نماز سے فارغ ہوئیں تو انھوں نے ملازمہ سے کہا: 

"بڑی بی! میرا بیٹا تمھیں اتنا پیارا نہیں ہوسکتا جتنا مجھے پیارا ہے"

پھر اپنے بیٹے سے کہا:بیٹا! بزدلی مت دکھانا،خوب بہادری سے لڑنا،اگر منھ پھیر کر بھاگو گے تو میں تمھاری صورت نہ دیکھوں گی"

ان کی اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ سید احمد شہید رح نے اپنی پوری زندگی میں وہ کارنامے انجام دیے جن سے کتابیں بھری پڑی ہیں، انھوں نے انگریزی حکومت کے چولیں ہلادیں اور لاکھوں لوگ ان کی محنت سے راہ راست پر آگئے۔

 

اس وقت ہماری وہ نسل جو دینی اور تربیتی ماحول سے دور ہے وہ آج انٹرنیٹ اور لغو گیمز کی دنیا میں تباہ ہورہی ہے ، ان کے اعضا نرم و نازک بستروں کے عادی بن کر نرم ہوچکے ہیں اور آرام طلبی حد سے گزر چکی ہے۔ اگر اس صورتحال میں ان کے دل میں ہمت،بہادری،حوصلے اور قوم و ملت کے لیے کچھ کر دکھانے کا جذبہ پیدا نہیں کیا جائے گا تو آنے والے دور میں نہ ہمارے پاس قائدین رہیں گے اور نہ ہی قوم میں بہادر پیدا ہوں گے۔

 

وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میں

اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ ورسم شاہبازی

 

اگر ہماری مائیں کم ازکم سوتے وقت اپنے بچوں کو اسلاف کے کارنامے سنائیں تو کوئی بعید نہیں کہ ہمارے بچے بہادر بن کر اپنی صبح کا آغاز کریں گے۔

 

چیتے کا جگر چاہیے شاہیں کا تجسس

جی سکتے ہیں بے روشنیِ دانشِ افرنگ

بچوں کو بہادر بنانے سے پہلے والدین کو بہادر بننا ہوگا،بچوں کو کڑی نگرانی میں رکھ کر تربیت کرنی ہوگی،ان کے ذہنوں کو موبائل کی خباثتوں سے نکال کر تاریخ اسلام کے کارناموں کی طرف لانا ہوگا اور اپنے سے بڑی عمر کی صحبتوں سے آخری درجے کا بائیکاٹ کرنا ہوگا۔

بہترین والدین وہ ہیں جو سونے سے قبل اپنے بچوں کے دن بھر کےحالات سنتے ہیں۔

28 اگست 2022

«
»

ملک کے موجودہ حالات میں گاندھی جی اور ان کے افکار کی اہمیت

علم و تحقیق کے سالار تھے مولانا سید جلال الدین عمری ؒ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے