چین کے ساتھ مسئلہ کا حل قومی مفاد میں ہو چناوی مفاد میں نہیں…

 ظفر آغا

سیاہ کو سپید اور سپید کو سیاہ کرنے کا فن ذرا کوئی وزیر اعظم نریندر مودی سے سیکھے۔ ارے صاحب، بڑی سے بڑی بات پر غلط بیانی سے کام لینا ان کے لیے چٹکیوں کا کھیل ہے۔ دور کی بات تو جانے دیجیے، ابھی لداخ میں چین کی گھس پیٹھ کے معاملے میں انھوں نے اپنی کھال بچانے کے لئے غلط بیانی کا سہارا لیا۔ اب دنیا واقف ہے کہ چینی فوج نے لداخ میں ہماری گلوان گھاٹی میں گھس کر اپنا قبضہ جما لیا ہے۔ خود ہمارے وزیر داخلہ اور ہماری فوج دونوں اس بات کا اقرار کر چکے ہیں۔ پھر بھی وزیر اعظم نے اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ ایک میٹنگ میں پچھلے ہفتے یہ بیان دے دیا کہ چین نے ہماری ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہیں کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس بیان پر ہنگامہ ہونا ہی ہونا تھا، سو وہ دوسرے روز ہوا۔ لیجیے اب وزیر اعظم کے دفتر کی جانب سے یہ صفائی پیش ہوئی کہ لوگ زبردستی میں مودی جی کے بیان کو غلط معنی پہنا رہے ہیں۔ صاحب بھلا یہ کوئی بات ہوئی۔ غلط بیانی آپ کریں اور جھٹلائیں دوسروں کو! ہاں ان کا تو شیوہ بھی یہی ہے۔ سنہ 2014 کے چناؤ کے دوران یہ وعدہ تھا کہ ہر بینک اکاؤنٹ میں کالے دھن کا پندرہ لاکھ روپیہ آئے گا۔ چھ برس بیت گئے ابھی تک پھوٹی کوڑی تو آئی نہیں۔ اسی طرح نوٹ بندی معاملے میں روز ایک نیا جھوٹ بولا گیا۔ بات یہ ہے کہ مودی جی کے ہر کالے سفید کو سچ کرنے کے لیے ٹی وی اینکرز موجود ہیں تو پھر ڈر کاہے کا!

لیکن مشرقی لداخ کے علاقہ میں چینی فوج نے جس طرح گھس کر ہندوستانی سرزمین پر کھلے بندوں اپنا قبضہ جما لیا وہ کوئی چھوٹی موٹی بات نہیں یا پھر کوئی الیکشن کمپین نہیں کہ آپ جو چاہیں بولیے اور نتائج آتے آتے سب بھول جائیے۔ یہ ہماری سرحدوں کی حفاظت کا معاملہ ہے۔ چین نے گلوان گھاٹی پر اپنا قبضہ جما لیا ہے اور اب وہ اعلان کر رہا ہے کہ یہ تو ہماری سرزمین ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں، اسی کے آس پاس دوسرے علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا اور وہاں اپنی چوکیاں قائم کر لیں۔

اور تو اور، اسی علاقہ میں ہمارے 20 نوجوان چینی فوج کے ہاتھوں مارے گئے۔ ظاہر ہے کہ یہ انتہائی سنگین صورت حال ہے۔ ملک پر بیرونی حملہ ہو چکا ہے، ہماری زمین چھینی جا چکی ہے، اب یہ ملک کی ناک کا معاملہ بن چکا ہے۔ ہماری ایک ایک انچ زمین واپس ملنی چاہیے۔ ہمارے نوجوانوں کا خون رائیگاں نہیں جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم جو بھی قدم اٹھا رہے ہیں، ہر سیاسی پارٹی ان کا ساتھ دے رہی ہے۔ ہر ہندوستانی کا فرض ہے کہ وہ اس وقت حکومت کے ساتھ اس معاملے میں کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑا رہے۔ آئے دن کی سیاسی نااتفاقیوں کو بھلا کر سب کو اس وقت اس مسئلہ کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ اس معاملے پر کسی قسم کی مفاد پرستی سے بالاتر ملک کے مفاد میں سب کو مل کر آگے بڑھنا ہوگا۔ اس لیے حکومت کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اس معاملے میں غلط بیانی سے قطعاً گریز کرے۔

اب سوال یہ ہے کہ ہند-چین سرحد پر اس وقت جو سنگین صورت حال ہے، اس کا حل کیا ہو! یہ انتہائی ٹیڑھا سوال ہے اور اس کا جواب فی الوقت وزیر اعظم سمیت کسی کے پاس نہیں ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ چین کوئی پاکستان نہیں کہ جس کو جب چاہے چپت ماریئے اور واپس لوٹ آئیے۔ چین تو چین ہے۔ یعنی چین کے ساتھ سیدھے دو دو ہاتھ کرنے سے پہلے بہت کچھ سوچنا سمجھنا ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہماری فوج تو ہر قربانی دینے کو تیار ہے، لیکن ملک اس وقت اس صورت حال میں نہیں کہ وہ کسی لمبی جنگ کا بوجھ اٹھا سکے۔ اگر کسی فوجی آپشن کا اس وقت استعمال ہوا تو چین اس معاملے کو پھیلا دے گا۔ سینکڑوں میل لمبی ہند-چین سرحد کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ اس سے بھی بڑی مشکل یہ ہے کہ اس وقت ملک کی معاشی حالت اتنی بدحال ہے کہ جنگ کا خرچ ملک کو ڈبو ہی دے گا۔ نوٹ بندی معیشت کی کمر پہلے ہی توڑ چکی تھی۔ پھر بچی کھچی کسر ابھی لاک ڈاؤن نے پوری کر دی۔ اگر کہیں لمبی جنگ چھڑ گئی تو جناب حکومت کے لیے تنخواہ بانٹنے تک کے لالے پڑ جائیں گے۔

ان حالات میں جنگ کا 'آپشن' استعمال کرنا کوئی عقلمندی کی بات نہ ہوگی۔ پھر امریکہ بہادر کے سہارے جنگ میں کود پڑنا بھی کوئی بہت کارگر نہیں ہو سکتا۔ امریکہ کا جہاں تک تعلق ہے تو اس کے لیے بس یوں سمجھیے کہ "ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو"۔ ارے پاکستان اور افغانستان کی مثال دنیا کے سامنے ہے۔ دونوں نے امریکی حریف سابق سوویت یونین کے خاتمے کے لیے امریکہ کے اشارے پر کیا کچھ نہیں کیا۔ ادھر سوویت یونین کا خاتمہ ہوا نہیں کہ امریکہ بہادر نے پاکستان اور افغانستان سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ اس لیے امریکہ اپنا فوجی بیڑا بھیجے یا پھر کچھ اور کرے، امریکہ کے کہے سولی پر ہرگز نہیں چڑھنا چاہیے۔

اب سوال یہ ہے کہ ان حالات میں ہو تو ہو کیا! ہندوستان کو اپنی زمین واپس لینی ہے۔ صرف گلوان ہی نہیں اور دوسرے علاقے بھی خالی کروانے ہیں۔ چین کی حکمت عملی یہ ہے کہ جب بات چیت شروع ہو تو وہ دوسرے علاقے چھوڑ دے لیکن گلوان پر قبضہ جاری رکھے۔ اس لیے چین سے بات چیت کے ذریعہ بھی کوئی حل نکال پانا آسان نہیں ہے۔

ایسی صورت حال میں صرف ایک راستہ بچا ہے اور وہ ہے چین کے ساتھ تجارت کا کارڈ استعمال کر چین پر دباؤ بنا کر کسی طرح اپنا الو سیدھا کیا جائے۔ ہندوستان امریکہ کے بعد چین کا دوسرا سب سے بڑا مارکیٹ ہے۔ ہر سال چین ہندوستان میں لاکھوں کروڑ کا مال بیچتا ہے۔ دیوالی کی بجلی کی لڑی سے لے کر گنیش اور لکشمی جی کی مورتی تک ہر شئے چین کی ہوتی ہے۔ پھر ہر سال کروڑوں سستے موبائل چینی فون ہمارے یہاں بکتے ہیں۔ فٹ پاتھ پر بکنے والے جوتے چپل سے لے کر مہنگا سے مہنگا الیکٹرانک کا ہر سامان تک چین کا مال ہندوستان میں بک رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ چین کو یہ گوارہ نہیں ہوگا کہ ہندوستان کے ساتھ اپنی تجارت ختم کر لے۔ اس لیے ہندوستان کے حق میں بہترین راستہ یہی ہے کہ وہ تجارت ختم کرنے کی دھمکی دے کر کسی طرح چین پر دباؤ بنائے اور اپنا مسئلہ بات چیت کے ذریعہ حل کروائے۔

لیکن مودی حکومت کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ چین کے ساتھ جو بھی مفاہمت ہو وہ قومی مفاد کے تحت ہی ہو۔ لیکن بہار ریجمنٹ کے پانچ جوانوں کی چینی فوج کے ہاتھ موت کو خود مودی جی نے نومبر میں ہونے والے بہار اسمبلی چناؤ جیتنے کے لیے استعمال کیا۔ اس سے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ مودی ملک کے مفاد میں کم اور پارٹی کے مفاد حل کرنے کے موڈ میں زیادہ ہیں۔ انھوں نے بالاکوٹ کا استعمال 2019 کا لوک سبھا چناؤ جیتنے کے لیے بخوبی کیا۔

بی جے پی کو اس قسم کی چناوی کامیابیوں کا خون منھ میں لگ چکا ہے۔ اس لیے یہ پارٹی پھر چناؤ جیتنے کے لیے چینی مسئلہ کا استعمال کر سکتی ہے۔ لیکن یہ بات بی جے پی کے مفاد میں تو ہو سکتی ہے، ملک کے مفاد میں قطعی نہیں ہوگی۔ اس لیے چین کے ساتھ جو بھی حل نکلے وہ قومی مفاد میں ہو نہ کہ چناوی مفاد میں۔ اور یہ تب ہی ممکن ہے جب حکومت صدق دل سے اس معاملے میں غلط بیانی سے کام نہ لے۔

مضمون نگار کیر ائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

28جون2020(ادارہ فکروخبر)

«
»

یادوں کے جھروکے۔(1)

ارطغرل سیرئیل پر دار العلوم دیوبند کا فتوی؛کیا تنگ نظری پر مبنی ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے