چائے والے سے شہنشاہ معظم تک

1935-40 ء اور دو چار سال بعد تک ہم بھی آپس میں باتیں کیا کرتے تھے کہ ملک کو آزاد کرانے کے لئے جواہر لال نہرو نے کھدّر (جسے سنبھل میں اس زمانہ میں گاڑھا کہا جاتا تھا) کے کپڑے پہننا شروع کردیئے تھے۔ جبکہ پہلے ان کے کپڑے پیرس سے دُھل کر آتے تھے۔ معلوم نہیں یہ کس نے کب کہا تھا اور کسی بڑے سے بڑے سنجیدہ آدمی نے یا ہمارے بزرگوں نے کبھی ہم بچوں کو اس بات پر نہیں ٹوکا کہ پیرس کوئی دھوبی ٹولہ نہیں ہے اور یہ کہ یہاں رہنے والے انگریزوں کے کپڑے بھی یہیں دُھلتے ہیں۔
کم عمر بچے ہوں یا کم علم انسان انہیں طلسماتی اور افسانوی باتوں پر فوراً یقین آجاتا ہے اور ان میں یہ فرق ہے کہ پنڈت نہرو یا اُن کے خاندان کے کسی فرد نے نہیں کہا کہ نہرو نے جو قربانیاں دیں ان میں کپڑوں کا بھی دخل ہے۔ اس کے برعکس مودی صاحب نے صرف اس لئے کہ وہ غریب جو صرف خواب دیکھتے ہیں اور ملک میں جن کی آبادی 70 فیصدی ہے وہ اس لئے مودی کو ووٹ دیں کہ وہ ایک چائے والے اور پانی برتن کرنے والی کا بیٹا یعنی ہم جیسا ہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ جو فریب کا پردہ غریبوں کی آنکھوں پر ڈالا تھا اور انہیں یقین دلایا تھا کہ تمہارا اپنا بھائی ہونے کا ثبوت سب سے پہلے اس طرح دوں گا کہ وہ جو ایک لاکھ پچہتر ہزار کروڑ روپئے (کالادھن) دنیا کے ملکوں میں جمع ہے وہ منگواکر تم سب کے کھاتوں میں ڈلوادوں گا۔ اس لئے کہ وہ سرکاری نہیں ہے۔ یہ باتیں ایسی تھیں جو عام آدمی نے پہلی بار سنی تھیں جبکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ ملک میں کہیں بھی کھدائی میں خزانہ یا دفینہ نکلتا ہے اسے حکومت بحق سرکار ضبط کرلیتی ہے کہ یہ سرکار کا ہے۔ مودی پہلے ایسے وزیر اعظم ہوں گے جو اس خزانہ کو ہم غریبوں میں تقسیم کردیں گے۔ اس اعلان اور وعدہ نے یقین دلا دیا کہ وہ چائے والے تھے اور وزیر اعظم بن کر بھی چائے والے ہی رہیں گے۔ ان تمام وعدوں کو لطیفہ کہہ کر امت شاہ نے غریبوں کے دلوں پر جیسا خنجر مارا ہے وہ اور ان کی سرکار اس کا انجام دیکھ بھی رہی ہے، آگے اور زیادہ دیکھے گی۔
11 ستمبر جمعہ کے دن چنڈی گڑھ میں وزیر اعظم کے دو پروگرام تھے انہیں انٹر نیشنل ایئرپورٹ عوام کو معنون کرنا تھا اور دوسرے پروگرام میں (پی جی آئی ایم ای آر) کی 34 ویں سالانہ تقریب اسناد میں مستقبل کے ڈاکٹروں کو خطاب کرنا تھا۔ ایئرپورٹ تو ظاہر ہے کہ آبادی سے میلوں دور ویرانے میں بنتا ہے۔ وہاں حفاظت کا مسئلہ ہی کیا تھا؟ لیکن تقریب اسناد کا انعقاد شہر میں ہونا تھا۔ اس کے لئے جس میدان کا انتخاب کیا گیا تھا اس کے راستوں میں اسکول بھی آتے تھے کالج بھی۔ اسپتال بھی آتا تھا اور شمشان گھاٹ بھی۔ مودی صاحب ایئرپورٹ کے پروگرام کے بعد جب پی جی آئی آئے تو اس وقت تک بہت کچھ بگڑ چکا تھا۔ اس طرف آنے والے راستوں میں جو جو اسکول پڑتے تھے جو کالج پڑتے تھے جو اسپتال تھا وہ بند کردیا گیا اور حد یہ کہ شمشان گھاٹ کی طرف بھی آنا جانا بند کردیا گیا تھا۔
پنجاب اور ہریانہ جہاں کی حکومتوں کے ذمہ ان کی حفاظت تھی ان کے لئے وہ نہ چائے والے کا بیٹا تھا نہ جوٹھے برتن دھونے اور پڑوس کے گھروں کا پانی بھرنے والی کے جگر کا ٹکڑا بلکہ ان کے لئے وہ جہاں پناہ۔ ظل الٗہٰی، عالم پناہ اور عالی جاہ بن چکا تھا۔ اس لئے اس علاقے کے تمام اسکول، کالج، اسپتال اور شمشان گھاٹ سب بند کردیئے گئے تھے۔ سنا ہے کہ اس اسکول کو بھی بند کردیا گیا جہاں امتحان ہورہا تھا۔ اسپتال آنے والے مریضوں کو پانچ کلومیٹر دور کے اسپتال میں اور جو شمشان گھاٹ آرہے تھے انہیں کسی دوسری بستی کے شمشان گھاٹ لے جاکر جلانے کا حکم دیا گیا اس لئے کہ شاہی سواری آنے والی تھی۔
ہم نے اپنی ان ہی آنکھوں سے جن سے دیکھ کر لکھ رہے ہیں یہ منظر بار بار دیکھا ہے کہ کسی سڑک سے اگر کسی مسلمان کا جنازہ جارہا ہے تو ہر ہندو مسلمان اور سکھ سڑک پر جہاں تھے اور جس سواری پر تھے وہیں رُک گئے تاکہ جنازہ گذر جائے یہ بھی دیکھا کہ مسلمان اپنے کام چھوڑ چھوڑ کر جنازہ کو کاندھا دینے کے لئے اُترے اور کاندھا دے کر واپس چلے گئے کہیں ہندو کی ارتھی کا جلوس جارہا ہے تو ہر کوئی اپنی جگہ کھڑا ہوگیا اس لئے کہ ہر کسی کو اس لمحہ میں یہ یاد آجاتا ہے کہ ایک دن ہم بھی اسی طرح لوگوں کے کاندھوں پر جارہے ہوں گے۔ ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا بھی ہے اور پڑھا بھی ہے کہ جب کوئی دنیا سے رشتہ توڑے تو اسے جلد سے جلد قبر میں سلا دینا چاہئے۔ ہمیں افسوس ہے کہ ہم یہ نہیں جانتے کہ ہندو اور سکھ دھرم کے گروؤں نے کیا کہا ہے؟ لیکن وہ وزیر اعظم ہوں یا صدر جمہوریہ یا دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے سربراہ ہوں کسی کی یہ حیثیت نہیں ہے کہ ایک جنازہ کے جلوس کو اس لئے ادھر سے نہ گذرنے دیا جائے کہ کچھ دیر کے بعد ملک کے سب سے طاقتور بادشاہ سلامت جلوہ افروز ہونے والے ہیں۔
ہم نے وزیر اعظم بننے کے بعد انہیں بھی دیکھا ہے جن کے کپڑوں کے متعلق شہرت تھی کہ وہ پیرس میں دُھلا کرتے تھے اور وہ اتنے بڑے وکیل موتی لال نہرو کے بیٹے تھے جو آنند بھون کے مالک تھے اور جو موٹر میں بیٹھ کر عدالت جاتے تھے اور امین آباد کے امین الدولہ پارک میں تقریر کرتے تھے اور جب کسی طرف سے آوازیں آتی تھیں کہ آواز نہیں آرہی تو وہ ڈنڈا لے کر مجمع میں گھس جاتے تھے اور شور مچانے والوں کو محبت میں مارتے تھے۔ اسی پارک کے چاروں طرف بازار بھی اور سواریاں بھی آ اور جارہی تھیں۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ آزادی ہے یا غلامی کہ اگر شہنشاہ اعظم کو شام کو ایک گھنٹہ تقریر کرنا ہے تو ہزاروں باوردی اور مسلح افسروں اور جوانوں کو چپہ چپہ پر کھڑا کردیا جائے اور صبح سے ان کے روانہ ہونے تک کتے بلی یا چڑیوں کو بھی اس میدان کی طرف سے نہ گذرنے دیا جائے؟
اور اس سے بھی زیادہ تکلیف جہاں پناہ کے اس بیان سے ہوئی کہ ’میرے دورے کی وجہ سے بالخصوص اسکولوں کو بند کرنے کی وجہ سے چنڈی گڑھ کے شہریوں کو جو زحمت ہوئی اس کے لئے مجھے افسوس ہے۔‘ اس سے پوری طرح بچا جاسکتا تھا۔ انہوں نے کہا اس واقعہ کی جانچ کرائی جائے گی اور ذمہ داری طے کی جائے گی۔ حیرت ہے کہ کیا جو کچھ چنڈی گڑھ میں ہوا اس کی تلافی یہ کہہ کر کی جاسکتی ہے کہ ’اس پر افسوس ہے یا اس کی جانچ کرائی جائے گی؟ کیا وزیر اعظم اپنے دفتر سے معلوم کرکے بتا سکتے ہیں کہ 68 برس سے آج تک کتنے چھوٹے بڑے واقعات کی جانچ کرائی جاچکی ہے اور الزام ثابت ہونے کے بعد کتنوں کو سزا دی جاچکی؟ جن میں دو تو بہت زیادہ چرچے میں ہیں۔ ایک جسٹس لبراہن کی جانچ رپورٹ اور دوسری سری کرشنا کمیشن رپورٹ۔ جب ان کے بتانے کے بعد جن واقعات میں ہزاروں انسان موت کی نیند سلادیئے گئے تھے اور ایک پانچ سو برس پرانی عظیم الشان بابری مسجد شہید کردی گئی تھی کسی کو سزا نہیں دی گئی بلکہ وزیر اور گورنر بنایا گیا تو اس چھوٹے کی جانچ کیا اور سزا کیا؟
شری مودی کو جواب اپنے کو چائے والے کا بیٹا کہنے سے زیادہ تیلی کہلانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں اس لئے کہ اب بہار کے تیلیوں کے اندر یہ جذبہ پیدا کرنا ہے کہ ان کی برادری کا ایک بندہ پردھان منتری ہے اس لئے ووٹ وہاں دیا جائے جہاں وہ کہے۔ ان انتخابی جملوں سے کھیلنے کے بجائے یہ بتانا چاہئے ان کے ہر پروگرام کے لئے صرف میدان کی حفاظت کی جائے گی۔ نہ کوئی اسکول، کالج بند ہوگا نہ اسپتال اور نہ کوئی راستہ۔ اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کی حفاظت میں کبھی کوئی کمی نہیں کی گئی اور سنجے گاندھی تو ہر وقت حفاظت کے گھیرے میں رہتے تھے۔ مودی صاحب کی آواز ہر ان کی پارٹی کو 280 سیٹیں ملی ہیں اور 31 فیصدی ووٹ جو اس کا ثبوت ہے کہ وہ اس وقت سب سے زیادہ مقبول ہیں۔ انہیں تو اب یہ اعلان کرنا چاہئے کہ ان کی حفاظت میں زیادہ سے زیادہ 50 پولیس والوں کو لگایا جائے اور جو اس سے زیادہ لگائے گا اس سے جواب طلب کیا جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے