چشم کشا سچی باتیں ………جواب چاہیے مجھے‘جواب ڈھونڈتاہوں میں

       از:مولانا عبدالماجد دریابادیؒ
     ترتیب و تجزیہ:عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ

    ماضی قریب کے صاحب طرز ادیب،جرئت مندصحافی،بہترین نثر نگار،معتبر نقاد،آفاق بیں عالم اور مایہ ناز مفسر مولانا عبدالماجد دریابادی رحمہ اللہ (المتوفی:1977ء)کا شمار ان قد آور ادیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے علم و ادب سے گیسوئے اردو کو سنوارنے اور اسے تا بہ کمر لانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔آپ ہندوستانی ادب کے معمار، قافلہ ادباء کے سالار اور بزم انشا وصحافت کے تاج دار تھے۔آپ کی صحافتی خدمات کا روشن پہلو مختلف اخبارات و جرائد کا اجرا اور ان میں بہ پابندی مختلف و متنوع علمی،ادبی،تحقیقی اور تنقیدی پہلؤوں پرمضامین وکالمز کی اشاعت ہے۔چوں کہ آپ کی زندگی مختلف آزمائشوں اور صبر آزما مرحلوں سے گزرکر پختہ ہوچکی تھی،اس لیے آپ نے ملک و ملت اوردین و سیاست کے حوالے سے ہر موضوع پر اپنے تجربات کی تلخی و شیرینی کو پوری دیانت داری کے ساتھ صفحہئ قرطاس پر رقم کیا۔ آپ نے اپنی دینی وملی تر جیحات سے قومی زندگی کے مختلف گوشوں کو آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے علمی و ادبی فتوحات کے زریعے بھی ایسے نقوش چھوڑے جو قابلِ دید ولائق تقلید ہیں۔
    2/جنوری 1925ء وہ تاریخ ہے جب لکھنؤ سے ہفتہ وار ''سچ''کا آغاز ہوا، اسی سال اگست میں مولانا دریابادی اس کے مستقل ایڈیٹر ہوگئے۔اخبار کا مقصد: صحیح عقائد کی ترویج،اسلامی تعلیمات کی تبلیغ، بدعات و رسومات کا خاتمہ،معاشرے کی اصلاح اور باطل نظریات کی بیخ کنی۔۔۔۔ تھا۔مختصر یہ کہ سچ ایک ہفتہ وار اخبار ہی نہیں؛ بلکہ ایک اصلاحی صحیفے کی حیثیت رکھتا تھا؛جس کی بے بہا خدمات کا اعتراف تمام ہی اہل قلم نے دل کھول کر کیا ہے۔
    سچ کے دوسرے شمارے (9/جنوری 1925ء) ہی سے مولانا عبدالماجد دریابادی نے اپنے شہرہئ آفاق کالم''سچی باتیں '' کا آغاز کیا۔ مولانا کا یہ افتتاحی کالم اتنا مقبول اور مشہور ہوا کہ بلا شائبہ تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ بیسویں صدی کی اردو صحافت میں اس کی مثال نایاب نہ سہی کم یاب ضرور ہے۔مولانا کی یہ سچی باتیں دینی،اخلاقی علمی، ادبی، فکری، تہذیبی، تاریخی، سیاسی، معاشرتی موضوعات کی جامع ہوتی تھیں۔ ان میں فکر و تدبر اور تذکیر و موعظت کے ایسے بیش قیمت عناصر شامل ہوتے تھے کہ اس زمانہ کے موقر اخبارات و جرائد، بڑی اہمیت کے ساتھ انہیں اپنے ہاں نقل کرتے تھے۔(ملخص از مقدمہ ''سچی باتیں '' جلد اول،ص6)
    مولانا دریابادیؒ نے اپنے عہد کے مسلمانوں سے اس وقت کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے فکر و عمل کو دعوت دینے والے اور قلب و ضمیر کو جھنجھوڑدینے والے چند سوالات کیے تھے،جو درحقیقت ان کے دردمند دل کی آواز اور معاشرے کی اصلاح کے تئیں ان کے سوز و گداز کا نتیجہ تھے۔وہ سوالات ذیل میں من وعن ہدیہئ قارئین ہیں،ملاحظہ فرمائیں:
    آپ کوعلم ہے کہ آپ کی بستی میں مسلمانوں کی آبادی کس قدر ہے؟ 
    اس علم کے حاصل کرنے کے بعد اب ذرا دیکھیے کہ ان میں سے کتنی تعداد ایسی ہے، جو روزانہ پانچ وقت پابندی کے ساتھ، اکٹھا ہو کر اپنے ایک قبلے کی طرف رخ کر کے اپنی ایک کتاب آسمانی کی ہدایت کے موافق اپنے ایک رسول کی پیروی میں، اپنے ایک خدا کو یاد کرتی ہے؟ 
    کتنی تعداد ایسی ہے، جو پابندی کے ساتھ ماہ رمضان میں روزے رکھتی اور اپنے امکان بھر روزہ کی شرائط کالحاظ رکھتی ہے؟
     کتنے ایسے ہیں جن پر زکوۃواجب ہے، اور وہ اپنے مال سے پابندی کے ساتھ، یہ رقم نکالتے رہتے ہیں؟ 
    کتنے ایسے ہیں، جو حج بیت اللہ کی قدرت رکھتے ہیں، اور اپنے اس فرض کو ادا کر چکے ہیں؟
    آج ان سوالات کا جواب دینا شاید آپ ضروری نہ سمجھیں؛لیکن کل یقینا اس ضرورت کا احساس، حسرت، تاسف و ندامت کے ساتھ ہوگا۔ 
    آپ اگر جاگ چکے ہیں تو سوتے ہووں کو جگانا آپ کا فرض ہے۔ اگر آسانی سے وہ نہیں جاگتے،اور خطرہ قریب پہنچ چکا ہے تو انہیں جھنجھوڑیے، اور خوب زور سے جھنجھوڑیے! ممکن ہے نیند کی غفلت میں وہ آپ کو سخت سست بھی کہہ بیٹھیں،ممکن ہے اس کشمکش میں خود آپ کے جسم کو صدمہ پہنچ جائے؛لیکن کیا ان اندیشوں سے آپ اپنے فرض کو بھلا بیٹھیں گے؟؟
    آپ کی بستی میں کتنی مسجدیں ہیں؟ اور کس حال میں ہیں، آیا آباد، پر رونق اور صحیح وسالم ہیں، یا ویران، سنسان اور شکستہ و مرمت طلب؟ کوئی مدرسہ اسلامیہ ہے؟کس حال میں چل رہا ہے؟ 
    بستی کے یتیم و لاوارث بچوں کی تعلیم کا کوئی انتظام ہے؟ نادار و بے کس بیوہ عورتوں کے گزر کی کوئی صورت ہے؟ محتاج و فاقہ کش بوڑھوں اور اپاہجوں کی زندگی کٹنے کا کوئی سامان موجود ہے؟ 
    اسلام کی تعلیم کے اہم اور موٹے اصول سے آپ کی بستی یا گلی کے تمام مسلمان،آپ کی رعیت، آپ کے نوکر چاکر، آپ کی اولاد، آپ کے خدمت پیشہ اشخاص سب واقف ہو چکے ہیں؟ کلام مجید کی تعلیم کا چرچا آپ کے ہاں ہے؟ ضروری مسائلِ دین اور ضروری معلوماتِ دنیا سے آپ کے ہاں کے سب لوگ واقفیت رکھتے ہیں؟ 
    آپ کے مسلمان ہمسائے اپنے فرائض کو پہچانتے اور مسلمان ہونے کے معنی جانتے ہیں؟
     آپ کی آنکھوں میں اگر وہ روشنی آ چکی ہے،جس سے دوسرے ابھی محروم ہیں تو کیا ان کو آنے والے خطروں سے ہوشیار اور آگاہ کرتے رہنا، آپ پر واجب نہیں، خواہ اس کوشش کا انعام آپ کو اپنی بد نامی وفضیحت ہی کی صورت میں کیوں نہ ملے؟
    آپ کی بستی کے لوگ عام مسلمانوں کے فائدہ کے کاموں میں اپنی شرکت کو ضروری سمجھتے ہیں؟
     ملک میں جو مختلف مذہبی، قومی و تعلیمی تحریکیں جاری ہیں، ان میں عملا اب تک انہوں نے کتنا حصہ لیا ہے؟
     اسلامی اخبارات و رسائل کی قدرشناسی اب تک آپ لوگوں نے اپنا فرض خیال کیا ہے؟ 
    اسلامی تصانیف کی خریداری اور اشاعت میں شریک ہونا آپ کی آبادی نے اپنے لیے ضروری سمجھا ہے؟ 
    باہر کے مسلمانوں کے ساتھ رشتہ برادری جوڑے رہنے، ان کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے، ان کے زخم سے خود تڑپ جانے کا سبق آپ کے ہم وطنوں نے پڑھا ہے؟
    اگر ان کے احساسات مردہ ہیں، اگر وہ اپنی وسیع تر زندگی کی قدروقیمت سے ناواقف ہیں، تو کیا خود آپ پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟ کیا آپ کو اپنی ذمہ داری کی بابت کوئی جواب دہی نہ کرنی ہوگی؟(سچی باتیں،حصہئ اول)

    مولانا دریابادی ؒنے جس ماحول اور جس پس منظر میں یہ سوالات اٹھائے ہیں اور قوم وملت کو ان پر غور وفکر کی دعوت دی ہے،اِن کے جوابات تلاش کرنا ہماری نظر میں موجودہ حالات میں بھی نہ صرف اُتنا ہی؛بلکہ اُس سے کئی گنا زیادہ ضروری ہے جتنا کہ اُس وقت تھا۔
    آج ہم سنجیدگی کے ساتھ ان سوالات پر غور کریں! اجتماعی و انفرادی طور پر اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں اور دیکھیں!کیا ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو کما حقہ انجام دے رہے ہیں؟کیا خدمت خلق اور رفاہ عام کے لیے ہمارے مصروف ترین اوقات میں سے کوئی وقت فارغ ہے؟کیا مستقبل کے لیے لائحہئ عمل اور تحفظ ِقوم وملت کے تئیں ہم نے کوئی کمیٹی قائم کی ہے؟ کیا نئی نسل کی بڑھتی بے راہ روی اور نوجوانوں کی مسلسل آوارہ گردی پر قدغن لگانے کے لیے ہم نے فکر مندی کے ساتھ عملی کوشش وتدبیر کا آغاز کیا ہے؟دینی و دنیوی تعلیم کے حوالے سے ہماری پیش رفت کا گراف کتنا ہے؟اور ہم دیگر قوموں سے کس درجہ پیچھے چل رہے ہیں؟اردو کی حفاظت اور نئی نسل میں اس کی بقا کے لیے ہم نے کیا کارنامہ انجام دیا ہے؟
    اگر ان سوالات کے جوابات نفی میں ہیں اور یقینا نفی میں ہوں گے تو پھر ہمیں ہوش کے ناخن لینے اور مضبوط نظام العمل بناکر میدان کار میں اترنے کی ضرورت ہے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے