راحت علی صدیقی قاسمی
سرکاری اسپتالوں کے احوال کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں، ملک کا ہر باشندہ سرکاری اسپتالوں کے احوال سے واقف ہے، وہاں طبیب مریضوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتے ہیں؟ سہولیات کس درجہ فراہم ہوتی ہیں؟ صفائی کا کیا معیار ہے؟ اطباء مریضوں سے کس طرح گفتگو کرتے ہیں؟ مریضوں کی ہمت بڑھانا، ان کے حوصلوں کو مہمیز کرنا، انہیں آتا ہے یا نہیں؟ اس صورت حال سے ہر عام شہری واقف ہے، جس کا سابقہ سرکاری اسپتالوں میں خدمات انجام دے رہے اطباء سے ہوتا ہے، یقینی طور بعض طبیب ایسے بھی ہیں، جو اپنی خدمات انجام دینے میں کوتاہی نہیں کرتے ہیں، لیکن ان کی تعداد بھی بڑا سوال ہے۔
سرکاری اسپتالوں کے احوال، مریضوں کی کثرت،اسپتالوں کی قلت اور اطباء کی قلت،سرکاری اسپتالوں میں دواؤں کا مکمل طور پر دستیاب نا ہونا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہمارے ملک کا نظام صحت عام احوال سے مقابلہ کرنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتا ہے، سورج کا غروب بہت سے افراد کہ زندگیوں کے سورج غروب ہونے کا پیغام دے جاتا ہے، اور ان کی موت کی اہم وجہ طبی سہولتیں میسر نا آنا ہوتا ہے۔
غریب مزدور کمزور طبقات کے لوگ عام طور پر پرائیویٹ اسپتالوں کا خرچ اور طبیب کی فیس دینے پر قادر نہیں ہوتے، لہاذا وہ سرکاری اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں، اور بہت سی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، سرکاری طبیب ان کا علاج اس طرح کرتا ہے، جیسے وہ اپنی ذمہ داری انجام نہیں دے رہا ہے، بلکہ ان پر کوء احسان کر رہا ہے، بیڈ خالی نہیں ہوتے، مریضوں کو زمین پر لٹانے تک کی نوبت پیش آتی ہے، وقت پر علاج میسر نہیں آتا، سرکاری اسپتالوں کا روزمرہ کا یہی معمول ہے، اس صورت حال کو دیکھا جائے تو یہ بات پوری طرح عیاں ہے کہ کسی غیر معمولی صورت حال کا مقابلہ کرنا ہمارے نظام صحت کی استطاعت سے باہر ہے، اور یہ کام ان کے لئے جوئے شیر لانے سے بھی بڑھ کر ہے، جس کا اندازہ غیر معمولی صورت حال پیش آنے پر ہوجاتا ہے۔
حالانکہ ہمارے ملک نے کء موقعوں پر کامیابی حاصل کی ہے، مثلاً چیچک، پولیو، اور ٹی بی جیسے امراض کو بہت حدتک شکشت دی ہے، اور پولیو کا تقریباً خاتمہ ہوچکا ہے، اس کے باوجود ہمارا نظام صحت غیر معمولی صورت حال کا بوجھ اٹھانے میں ناکام نظر آتا ہے،بلکہ معمولی صورت حال بھی اس کی خامیوں اور کمزوریوں کو عیاں کرتی ہیں۔
چمکی بخار کا قہر جو ہمارے ملک میں جاری ہے، اس سے بھی یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگء ہے، بہار میں 160سے زائد بچوں کی موت ہوچکی ہے، صورت حال قابو سے باہر ہے، معصوموں کے جنازے اٹھ رہے ہیں، والدین کی چیخوں سے پورے ملک میں غم کا ماحول ہے، جن بچوں کی کلکاریوں سے گھر آنگن میں رونق ہوتی تھی، ان کی موت نے زندگی کی رفتار کو دھیما کردیا ہے، اور ابھی ہمارے اطباء بے بس و لاچار نظر آئے ہیں، سرکاری اسپتالوں کی پول کھل گء ہے، سہولیات فراہم نہیں کی جارہی ہیں، آکسیجن سلنڈر تک بعض مقامات پر دستیاب نہیں ہیں، لوگ پریشان ہیں، 500 بچے ابھی بھی موت سے پنجہ آزمائی کر رہے ہیں، اس تصویر نے پورے طور پر واضح کردیا ہے کہ ہمارا نظام صحت اصلاحات کا متقاضی ہے۔
ہمارے ملک میں غریبوں کی کثرت ہے، اور اس چمکی بخار سے مرنے والے 85 فی صد غریب و مفلس ہیں، لہذا یہ بات مزید پختہ ہوجاتی ہے کہ اگر ہم نے اپنے نظام صحت کی طرف توجہ نہیں دی، تو ہم اس طرح کی صورت حال کا مشاہدہ کرتے رہیں گے،اور ہمارا ملک ترقی کے زینوں پر نہیں چڑ سکے گا۔
وزیر صحت ڈاکٹر ہرشوردھن کو بھی اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، ان کے سامنے بھی بچوں نے دم توڑا ہے، ان کے والدین کے درد و غم کو وہ بھی دیکھ چکے ہیں، بلکہ ان کے والدین کے غم و غصہ کو ڈاکٹر ہرشوردھن نے جھیلا بھی ہے، یقینی طور پر وہ اس جانب خصوصی توجہ دیں گے، لیکن ابھی تک کوء مثبت خبر موصول نہیں ہوئی ہے، حالانکہ انہوں نے کچھ ہدایات جاری کیں ہیں لیکن کیا وہ ہدایات کافی ہیں؟ کیا حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے وہ تیار ہیں؟انہوں نے کیا تجاویز پیش کیں ہیں؟ ان کی منصوبہ بندی کیا ہے؟ مستقبل میں اس طرح کی صورت حال پیش آنے پر کیا کیا جائے گا؟ اس سے متعلق بھی کوء قابل ذکر بیان کانوں تک نہیں پہونچا ہے، یہ صورت حال مزید تکلیف دہ ہے۔
بہار کے وزیر صحت نے بھی اس معاملے کی نزاکت کو محسوس نہیں کیا ہے، بظاہر ایسا ہی خیال کیا جاسکتا ہے، ان کا کوء خاص بیان اس معاملے میں سامنے نہیں آیا ہے، حالانکہ جیتن رام مانجھی اس معاملے میں دونوں وزراء سے استعفی کی مانگ کر رہے ہیں، لیکن ان کی آواز میں استحکام نظر نہیں آرہا ہے، چونکہ ایوان سیاست میں اس معاملہ کو لے کر کوء دلچسپی نظر نہیں آرہی ہے۔
سیاسی گلیاروں میں مفاد پرستی کے بادل چھائے ہوئے ہیں، وہاں غریبوں اور مفلسوں کے درد کا مداوا نہیں ہے، پوزیشن اور اپوزیشن کی توجہ کا مرکز کچھ اور ہی ہے،غریبوں کی تھالیوں میں کھانے والے، ان کے دروازوں پر دستک دینے والے، ووٹ کے لئے انہیں اپنا بتانے والے خاموش ہیں، حتی کے علاقائی اسمبلی ممبرس اور ایم ایل اے بھی مدد کے لیے آگے نہیں آئے ہیں،انہوں نے غریبوں سے ملنے تک کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے، بوچہاں اسمبلی ممبر بے بی کماری نے ایک خاندان کو چار لاکھ کا چیک دیا ہے، تو اسے بھی سیاسی مفاد کے لئے فیسبوک پر استعمال کیا جارہا ہے، اس سے سیاسی رہنماؤں کی صورت حال کا اندازہ لگانا دشوار نہیں ہے۔
صدرجمہوریہ بھی اپنے خطاب میں ان بچوں کو یاد نہیں کرسکے، انہوں نے دیگر مسائل پر توجہ دی، لیکن اس اہم ترین مسئلہ پر گفتگو کرنا مناسب نہیں سمجھا، دیگر سیاسی رہنماؤں نے بھی درد و غم کے اس عظیم سانحہ پر آنسو بہانے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے، میڈیا نے اس معاملے کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔
اطباء حلف اٹھاتے ہیں کہ وہ کسی بھی صورت حال میں مریضوں کی جان بچائیں گے، اور اپنے فرض کی انجام. دہی سے پیچھے نہیں ہٹیں گے لیکن وہ بھی اپنے وعدوں اور قسموں کو بھولے ہوئے نظر آئے،ایسے موقعے پر جب اطباء کی سب سے زیادہ ضرورت تھی، انہوں نے ایک ہفتہ تک احتجاج کیا، اور مریضوں کو نہیں دیکھا، حالانکہ ایمرجنسی کو اس مثتثنی رکھا گیا تھا، اس کے باوجود بہت سے لوگ طبی سہولتوں سے محروم رہے، یہ احتجاج بنگال میں تھا، لیکن 24 گھنٹے تک پورے ملک میں بھی احتجاج کیا گیا، جس سے بہت سے لوگ تکلیف میں مبتلا ہوئے، یقینی طور اطباء اپنی حفاظت کے لئے احتجاج کرسکتے ہیں، لیکن احتجاج کا وقت اور طریقہ کیا اسے مناسب کہا جاسکتا ہے؟ پھر جس ملک میں طبیب کی عزت و وقعت ہے، وہاں مار پیٹ کے واقعات کیوں سامنے آتے ہیں؟ یہ خود بڑا سوال ہے؟ کیا یہ نظام صحت کی ابتری کو عیاں نہیں کرتا؟ کیا اس سے اطبا کی کمزوری پر نظر نہیں پڑتی؟ غور کیجئے۔
اس کے باوجود اطباء کا تحفظ ضروری ہے، اور لوگوں کو بھی اپنے جذبات پر قابو رکھنا ضروری ہے، تاکہ نظام صحت متاثر نا ہو،ہمارا ملک اس وقت طبی مشکلات سے دوچار ہے، نظام صحت کی خامیوں کا نقصان برداشت کر رہا ہے، اطباء کے رویہ میں تبدیلی سے خوف زدہ ہے، ایسے حالات میں وزیر صحت کی ذمہ داریاں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں، وہ اس جانب بھرپور توجہ دیں، اور نظام صحت میں ضروری اصلاحات کریں، آکسیجن کا انتظام کیا جائے، بیڈ فراہم کئے جائیں، دوائیوں کا انتظام کیا جائے، ڈاکٹرس کو ہدایات جاری کی جائیں، دیہاتوں میں کیمپ لگائے جائیں، غریبوں تک علاج پہنچایا جائے، تاکہ ملک صحت مند ہو، اور ترقی کے اعلی منازل طے کرے، اُس کی راہِ ترقی میں کوئی رکاوٹ نا ہو،ملک کے باشندے صحت مند ہونگے، تو ملک ترقی یافتہ ہوگا، بیمار اور کمزور افراد ترقی کی سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتے ہیں،اور کسی ملک کی ترقی کا سبب نہیں ہوسکتے ہیں۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے )
۲۲ جون ۲۰۱۹(فکروخبر)
جواب دیں