از: سید محمد زبیر مارکیٹ یس یم بھٹکل المونیم اسٹیل پیتل تانبا اور سونا ہر قسم کے چمچے ہوتے ہیں چمچوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے چمچے اگر نہ ہوں سالن کھانے میں مزہ نہ آئے چمچے بڑے ہوتے ہیں اور چھوٹے بھی ہوتے ہیں دیگوں کے چمچے ہوتے ہیں ہانڈیوں کے برتن کے اور کٹورے کے […]
المونیم اسٹیل پیتل تانبا اور سونا ہر قسم کے چمچے ہوتے ہیں چمچوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے چمچے اگر نہ ہوں سالن کھانے میں مزہ نہ آئے چمچے بڑے ہوتے ہیں اور چھوٹے بھی ہوتے ہیں دیگوں کے چمچے ہوتے ہیں ہانڈیوں کے برتن کے اور کٹورے کے بھی ہوتے ہیں چمچوں سے دنیا میں رنگینی ہوتی ہے ہر سیاسی لیڈر چاہتا ہے اس کے چمچے ہوں اگر چمچے نہیں ہوں گے وہ سیاسی لیڈر کامیاب نہیں ہوسکتا چمچوں کو بھی اپنی ساکھ برقرار رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اگر برتن کو چمچے کی ضرورت ہوتی ہے چمچے کو بھی برتن کی ضرورت ہوتی ہے اگر آپ کو شربت بنانا ہو تو صرف شکر ڈالنے سے شربت میٹھی نہیں ہوتی بلکہ اس کو چمچہ سے گلاس میں ہلانا پڑتا ہے تب آپ میٹھی شربت پی سکتے ہیں سالن کا لطف آپ اسی وقت اٹھا سکتے ہیں جب چمچہ ہاتھ میں ہو ورنہ کٹورا منھ کو لگا نہیں سکتے چمچوں کے بھی چمچے ہوتے ہیں بڑے چمچوں کے چھوٹے چمچے ہوتے ہیں سیاسی لیڈر کے جہاں چمچے ہوتے ہیں وہ لیڈر بھی اپنے اوپر کے لیڈر کا چمچہ ہوتا ہے اس طرح چمچوں کی ایک چین ہوتی ہے کیا آپ جانتے ہیں ہیں بازار میں چمچوں کی کیا قیمت ہوتی ہے چمچے ایک کوئی نہیں لیتا درجن چمچے مل جاتے ہیں لیکن یہ بات ہے چمچہ کے بغیر کھانا ہضم نہیں ہوتا بیوی کے ہاتھ میں چمچے ہوں تو شوہر بھی فرمانبردار رہتے ہیں ورنہ نافرمانی سے ان چمچوں سے شوہر کی اچھی خاصی تصویر بدل بھی جاتی ہے سیاسی لیڈر مذہبی رہنما صوفی و مرشد کی دکانیں ان ہی چمچوں سے چلتی ہیں آپ نے کوئی کام نہیں کیا چمچہ آپ کے کئ کارناموں کو بیان کرے گا آپ نے کسی کام کو بگاڑا چمچہ آپ کو معمار قوم کا خطاب دے گا چمچہ نمک اور شکر میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتا چمچہ کی خوبی یہ ہے کہ وہ کبھی نقصان میں نہیں رہتا کل کوئی عروج پر تھا آج وہ دور زوال میں ہے چمچہ کسی اور کی تلاش میں لگ جگ جائے گا پھر ایک ڈھونڈو تو ہزار ملتے ہیں موسم خزاں ہو یا بہار چمچہ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا وہ ہمیشہ خوش رہتا ہے سیاسی سماجی مذہبی شخصیات کو کبھی زوال آتا ہے مگر چمچے کبھی زوال پزیر نہیں ہوتے چمچہ کو اس سے کو فرق نہیں پڑتا کہ وہ آپ کو بریانی کھلائے یا دال و شوربہ پلائے لوگ جانتے ہیں کہ چمچہ کی حقیقت کیا ہے لیکن خاموش اس لئے رہتے ہیں کہ وہ چمچہ کے کارناموں سے ڈرتے ہیں ہوسکتا ہے جس چمچہ سے آپ آئسکریم کھا رہے ہوں اسی چمچہ سے کوئی گرم شوربہ آپ کی زبان کو جلا بھی دے اور آپ ہائے ہائے کرتے رہ جائیں اس لئے چمچے پر بھروسہ نہیں کیا کیا جاسکتا سرکاری دفتروں میں بھی چمچوں کی بڑی اہمیت ہے آپ کام کریں یا نہ کریں اپنے باس کو خوش کریں پروموشن چاہتے ہیں بس چمچہ بنے رہیے آپ کا پروموشن ہوجائے گا اسے آپ چاپلوسی کہیں یا چمچہ گری کہیں بس یوں سمجھ لیجیے آپ باس کے قریبی سمجھے جائیں گے جمچہ آپ کی ملازمت کو مضبوط کردے گا ورنہ آپ کو باہر کا راستہ دیکھنا پڑے گا رضا حسین رضا نے کیا خوب کہا ہے حاکم وقت کی جب ہو محفل سجی جھوٹ کے گیت تم گنگناتے رہو دم ہلاتے رہو فیض پاتے رہو ایک حکایت مشہور ہے کہ ایک ظلِ الٰہی بادشاہِ معظم نے حکمنامہ جاری کر دیا کہ مجھے پورے کا پورا سالم ہرن تھالی میں رکھ کر تناول ماحضر کے لیے پیش کیا جائے وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج اس قضیے کو حل کرنے کے لیے سرجوڑ کر سرتوڑ کوشش میں سرگرداں ہو گئی لمبے چوڑے بحث و مباحثے اکارت گئے کوششیں بے سود اور بے ثمر ثابت ہوئیں اور نتیجہ صفر برآمد ہوا۔ ہُو کا عالم تھا کہ ایک خوشامدی قلندر اُدھر آ نکلا سارا معاملہ سُنا تو اس اہم ریاستی امور کو حل کرنے کی حامی بھرلی کہا وقت ضائع کیے بغیر فی الفور دیسی مُرغا حاضر کیا جائے مُرغا آیا، مُرغا بنایا اور اسے تھالی میں سجایا بعد ازاں ایسا رسیلہ قصیدہ سُنایا کہ سامنے خوشامدی قلندر تھا کہ بادشاہ کے مُنہ سے بے ساختہ نکلا یہ تو مُرغہ ہے عرض کیا عالیجاہ! جان کی امان پاﺅں تو عرض کروں کہ آپ کی شخصیتِ عالی کی ہیبت اور جاہ و جلال ہی ایسا ہے کہ آپ کے سامنے ہرن بھی پیش ہو کر مُرغ بن جاتا ہے یہ سُننا ہی تھا کہ بادشاہ حضور خوشامد کی کیف و مستی میں جھومنے لگے اور ایسے گُم سُم ہوئے کہ ریاست بچ گئی وزیروں مشیروں کے اوسان بحال ہو گئے۔ شُکرانے کے نوافل پڑھے گئے، شیرینی تقسیم کی گئی۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں