چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط 16

فقیر کی جھولی بھر گئی

عمار عبد الحمید لمباڈا

وہ کوئی بازار تھا جہاں مغرب کے کچھ دیر بعد ہماری کار رکی تھی اور کسی سوپر مارکیٹ جیسی عمارت میں ہم داخل ہوئے تھے، جہاں دیواروں میں سلیقہ سے چنی ہوئی کتابیں آنے والوں کو جھانک رہی تھیں ، بھرے بازار میں یہ ایک ہی سوپر مارکیٹ تھا جہاں چیزوں سے استفادہ مفت تھا ، جہاں وقت دے کر دنیا کی بہترین چیز علم پانے کا انتظام تھا ، یہ تو ہم سنتے ہی رہتے ہیں کہ ہمارے شہر میں لوگ پتھروں میں رہتے ہیں یہاں شیشے کا کاروبار نہ کر لیکن وہ بات یہاں صحیح نہ تھی۔ یہاں ناصر اکرمی نام کے ایک ادھیڑ عمر، جواں حوصلہ، چھریرے بدن کا دوڑتا بھاگتا ہوا وجود ہے اور یہ روح عمل اس کی عمر سے میل نہیں کھاتی لیکن جسے ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں  یہ کوئی عاشق مزاج شخص ہے جو پتھروں کے شہر میں شیشے کا کاروبار کرتا ہے اور کامیابی کے ساتھ کرتا ہے، بھٹکل کی بہاروں میں اس کے خون جگر کی سوندھی سوندھی خوشبوئیں ہیں، میرے کان سن رہے تھے کہ مولانا ناصر اکرمی انسان گر بلکہ علما گر شخصیت ہے انہوں نے بھٹکل کو بڑے کارآمد علما تیار کر کے دئے ہیں، مولانا معہد حسن البنا شہید اکیڈمی کا تعارف کرا رہے تھے جس کے بانی و ناظم وہ خود ہیں اور اس وقت ہم جس سوپر مارکیٹ میں ہیں وہ اسی اکیڈمی کا کتب خانہ ہے جو جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے کتب خانہ کے بعد بھٹکل کے ممتاز کتب خانوں میں شمار ہوتا ہے اس کے تحت دینی موضوعات پر مختلف کتابیں شائع ہوتی ہیں، یہاں امام حسن البنا پر کتابوں کا بڑا ذخیرہ موجود ہے، مولانا ہی کی ادارت میں یہاں سے" الأخبار" اور خواتین کا ترجمان "الطیبات" نکلتا ہےجو علمی حلقوں میں کافی مقبول ہے۔

یہاں خواتین کے لئے درس قرآن کا بھی نظم ہے اور یہ صرف رسمی نہیں ہوتا بلکہ خواتین بڑی تعداد میں قرآن فہمی کے شوق میں کشاں کشاں چلی آتی ہیں حتی کہ کچھ خواتین اپنے کالج کا بیگ تک چھوڑنے گھر نہیں جاتیں بلکہ اپنے بستوں اور تھکن کے ساتھ ہی حسن البنا اکیڈمی کا رخ کر لیتی ہیں،کہ یہ درس قرآن ان کی تھکن کا بہترین مداوا ہے، یہ درس ہفتہ میں ایک بار ہوتا ہے لیکن اس کا انتظار صنف نازک کو پورا ہفتہ رہتا ہے۔ واقعی دین سے ایسا لگاؤ کم ہی دیکھنے میں آتا ہے خاص طور سے جب ہم یہ سنتے ہیں کہ یہاں خواتین حفظ قرآن کی دولت سے بھی مالا مال ہوتی ہیں۔

تھوڑی ہی دیر میں سب کو کتابوں کا ایک ایک بنڈل مولانا نے تحفہ میں دیا ، میں نے کچھ مزید کتابیں خریدیں اور مولانا عبد النور صاحب کے ساتھ بیٹھا باتیں کرتا رہا ، ہماری جماعت بڑی تھی اور مولانا ناصر اکرمی صاحب کی آواز پست، سو میں ہر جگہ ان کے ساتھ نہ جا سکا، اور نہ اکیڈمی کا مکمل معائنہ کر سکا لیکن مولانا عبد النور صاحب انکے، اس اکیڈمی کے اور بھٹکل کے متعلق بہت کچھ بتاتے رہے ۔

کل نور کے تڑکے کے ساتھ ہی سفر سے واپسی ہے اور اس وقت گھڑی ۷ سے کچھ اوپر ہی بجا رہی ہے ساتھیوں کو بازار بھی جانا ہے کہ سفر سے خالی ہاتھ کون لوٹتا ہے ؟

اور بازار کا اپنا ایک وقت، پھر یہ کسی کا انتظار نہیں کرتا، ہماری گاڑی بازار کی اور دوڑ پڑی لیکن مجھے مسجد نور کے دروازہ پر اترنا پڑا ہمارے گنگولی کے مہتمم مولانا محمد علی صاحب اور نائب مہتمم مولانا عبد الباسط صاحب اور ہمارے ساتھی مولانا عبد السبحان صاحب ہماری ملاقات کو ایسے ہی آ گئے تھے جیسے کوئی سورج اتر آیا ہو کسی کٹیا کو روشنی دینے، میں شرمسار تھا کہ ایک وجود ناتواں کی خاطر جیسے کوئی بادل کسی خودرو گھاس کے لئے اتر آیا ہو۔

عشا کی نماز ادا کی اور دیکھا کہ وہی روشن جبیں ،مسکراتا چہرا، میانہ قد مولانا محمد علی میری اور بڑھے چلے آ رہے ہیں اور وہ مولانا عبد الباسط ویسے کے ویسے میانہ سے کچھ زیادہ، چہرے پر وہی مسکان، رس گھولتی آواز وہ محبت سے گلے لگانا اور اور اور۔۔۔ ہمارے ساتھی مولانا عبد السبحان صاحب بالکل پرانے والے بس داڑھی اور علم دونوں بڑھ گئے ہیں، یک زبان کہنے لگے مولانا آپ تو ویسے کے ویسے ہی ہو، میں نے کہا، ہاں بلکل ویسا کا ویسا ۔ طبیعت، فطرت، مزاج، جسم اور معلومات کسی میں نہیں بڑھا سوائے عمر کے، بہت کچھ باتیں ہوئیں، ہوتی رہیں مجھے فکر لاحق ہوئی کہ بازار بند ہو جائیں گے اور مجھے کل واپس ہونا ہے اپنے گھروالوں کے لئے کیا لے جاؤں گا ؟ گنگولی کے ساتھیوں نے کہا آپ کو اس وقت ایک شرط پر چھوڑ سکتے ہیں کہ بازار سے واپس ہمارے ہی پاس آئیں گے اور میں وعدہ پر ہمارے دوست مولانا عبد البدیع صاحب کے ساتھ انکی بائک پر سوار بازار گیا، وہ تقریبا بند ہو چکا تھا مولانا عبد الحمید اطہر ندوی صاحب اپنی دکان پر تھے انہوں نے ہدیہ میں کچھ بیکری پراڈکٹ اور کچھ بھٹکل کی اپنی بناوٹ کی چیزیں ہدیہ کیں ،ایک دکان سے کچھ لیا نہ لیا واپس ہو گیا میں خوش تھا کہ پیسے بھی بچے اور سفر میں زیادہ سامان بھی اٹھانا نہیں ہوگا۔ ہمارے گنگولی کے اکابر انتظار میں تھے ان کے ساتھ ایک ہوٹل میں محفل لگی اور گھڑی کا کانٹا ۱۰ سے بھی متجاوز ہوگیا اور ہمیں خواہی نا خواہی جدا ہونا پڑا، میں جامعہ اسلامیہ کی طرف بڑھنے ہی والا تھا کہ ہمارے گنگولی کے احباب نے تحائف سے لاد دیا یا کہیے کہ منوں احسان تلے دبا دیا ۔ میں بمشکل بائک پر سوار ہو سکا ۔ مدرسہ پہنچا تو پرانے ساتھی طفیل دمکر صاحب، طلحہ صاحب، عبد البدیع صاحب وغیرہ نے بھی تحائف کی بوچھار کردی میں اتنا ہی بھاری ہو گیا جتنا ابھی تک ہلکا تھا، کبھی میں خود کو اور کبھی سامان کو دیکھتا لیکن عبد البدیع صاحب نے ہمت ہارنے نہ دی سارا سامان بخوبی باندھ دیا ۔

رات کی دعوت مولانا عبد الحمید اطہر صاحب کی جانب سے تھی دستر خوان ہمیشہ کی طرح نوع بنوع کھانوں سے سجا ہوا تھا لیکن مولانا محمد علی صاحب نے اس سے قبل ہی لحم منڈی سے وہ سیری کرادی تھی کہ اب نہ خواہش ہو سکتی تھی اور نہ پیٹ میں جگہ ، لیکن یہ بھٹکل کا دسترخوان تھا دیکھتے ہی خواہشیں جاگ اٹھیں اور انسان تو ہے ہی خواہشوں کا بندہ۔

رات گیارہ بج چکے تھے ساتھی سامان پیک کر رہے تھے میرا سامان میرے گنگولی کے احباب نے باندھ دیا تھا سو میں دیوان میں آکر بیٹھ گیا اور بیٹھتے ہی پھلوں کے طشت آنا شروع ہوئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے قلفیاں آئیں ابھی وہ ختم بھی نہیں ہوئی تھیں کہ بھٹکل کی بناوٹ کی پٹزا آئسکریم، خواہش، وقت ، طبیعت ہر چیز سے پرے ہو کر کھایا اور خوب کھایا، اس بیچ بہت سے ساتھی دیوان میں آتے رہے اور مہمانی کا حق ادا کرتے رہے لیکن پٹزا آئسکریم کے ختم ہوتے ہی محفل بھی ختم ہوئی، اب دیوان میں میں تھا اور مولانا منیری صاحب ، کچھ میں نے سوالات کئے اور بہت کچھ مولانا نے نصیحتیں، میرے لئےاس سے زیادہ قیمتی تحفہ کوئی بھی نہیں ہوسکتا اور نہ کسی بازار میں یہ گراں مایہ سرمایہ دستیاب ہو سکتا ہے، میں مالا مال تھا ،مولانا نے میری خالی جھولی میں بہت کچھ قیمتی سرمایہ رکھ دیا ہے، میرا سفر کامیاب تھا، بڑی سنجیدگی و متانت سے مولانا عبد المتین منیری اپنی دولت لٹائے جا رہے تھے پتا نہیں کیا ہوا اچانک انہوں نے وقت دریافت کیا اور ابو جود صاحب نے کہا، تقریبا پون بج چکے اور پھر محفل انتہا کو پہنچی، تقریبا ایک بجے کے بعد بستر پر پڑا لیکن بھٹکل جو سمندروں سے گھرا ایک چھوٹا سا شہر ہے اس کی وسعتوں اور اس میں موجود سیکڑوں علم کے بحر بے کراں کے بارے میں سوچ میں غرق ہو گیا۔

13؍ جنوری 2022 

 

 

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط 1

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط 2

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے (3)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے(4)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط (5)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے(6)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 7 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 8 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 9 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 10 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 11 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 12 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 13 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 14 )

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 15 )

«
»

کہانی گھر گھر کی! قسط 4 (سرکاری کالجوں میں حجاب تنازعہ)

نئی زبان سیکھنے کا طریقہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے