چلو، کوئی خواب دیکھتے ہیں

احمد علی کی عمر ہوگی کوئی تیرہ سال۔۔۔ لیکن آنکھوں میں بحر ظلمات کی جگہ اب ایک نیا خواب انگڑائیاں لے رہا تھا۔۔۔
تیرہ سال کی نازک عمر۔۔۔ لیکن مٹھیاں بند تھیں۔۔۔ آنکھوں میں غصے کا اظہار۔۔۔
’ انگریزوں کو جانا ہی ہوگا۔۔۔؟‘
’ لیکن کیسے؟‘
’ یہ تو میں ابھی نہیں کہہ سکتا لیکن۔۔۔ انہیں جانا ہی ہوگا۔۔۔‘
’ تم ان کی طاقت سے واقف ہو؟‘
’ ہاں۔ اتنا جانتا ہوں کہ ہماری طاقت کے آگے ان کی طاقت کچھ بھی نہیں۔‘
’ ان کے پاس اسلحے ہیں۔‘
’ ہمارے پاس جوش ہے۔ سبھاش ہیں۔‘
’ سبھاش۔۔۔؟‘
’ سبھاش چندر بوس۔۔۔ انہیں جانا ہی ہوگا۔۔۔‘
ننھے تیرہ سال کی عمر کے بچے کی باتیں سن کر خوفزدہ ہوجانے والی شخصیت کا نام جان محمد انصاری تھا۔ یہ احمد علی کے والد تھے۔۔۔ جان محمد انصاری بھی فرنگیوں سے نفرت کرتے تھے۔ غلامی اور آزادی کی باتیں گھر میں بھی ہوتی تھیں، لیکن وہ اس حقیقت سے واقف نہیں تھے کہ ننھے منے شہزادے احمد علی نے ابھی سے آزادی کے خواب کو دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ ننھی عمر جو کھیل کود اور موج مستی کو اپنا بچپن سمجھتی ہے، احمد علی کے لیے یہ بچپن دوسرے بچوں سے مختلف تھا اکثر وہ گھر میں کسی اونچی جگہ کھڑے ہوجاتے۔۔۔ پھر تقریر کا انداز شروع ہو جاتا۔۔۔
’’بھائیو ۔ بہنوں۔۔۔ انگریزوں کے ظلم کی انتہا ہو چکی ہے۔ وعدہ کیجئے۔ اب ہم یہ ظلم نہیں سہیں گے۔۔۔ ٹھائیں ٹھائیں سب لیٹ جائیے۔۔۔ فرنگی سپاہی گولیاں چلا رہے ہیں۔۔۔‘ یہ احمد علی کے کھیل تھے اور والد بزرگوار کو یہ فکر دامن گیر کہ آگے چل کر اس بچے کا کیا ہوگا؟
لیکن احمد علی کا معصوم ذہن تو کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ ملک ہمارا ہے تو انگریز کیوں ہیں؟ ہم اتنی بڑی طاقت ہیں اس کے باوجود وہ ہم پر ظلم کے پہاڑکیوں توڑ ے جاتے ہیں؟
مشرقی اترپردیش کے تاریخی ضلع غازی پور میں انقلاب کی آہٹیں سنی جانے لگی تھیں۔ غازی پور کے ضلع اسیاں میں 21؍ اپریل1917کو پیدا ہونے والے احمد علی کی ذہانت اور دلیری بچپن میں ہی محسوس کی جانے لگی تھی ادھر عمر آگے بڑھتی رہی اور ادھر آزادی کا احساس انقلاب بننے لگا۔ 17-18سال کی عمر میں نوجوان دوستوں کی ایک ’بریگیڈ‘ تھی جس کی نمائندگی احمد علی کرتے تھے۔
’ گاندھی جے کے بھروسے ہندوستان کی آزادی کا خواب نہیں دیکھا جاسکتا۔‘ احمد علی کہتے تو اُن کے دوست غور و فکر میں ڈوب جاتے۔
’ پھر کیا کیا جائے۔‘
’ گاندھی جی عدم تشدد کا راستہ چاہتے ہیں اور انگریز تشدد پسند ہیں۔‘
’ بالکل ٹھیک۔‘
’ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ وہ ہمیں ہلاک کریں اور ہم اُف تک نہ کریں۔‘
’ یہ بات گاندھی جی کیوں نہیں سمجھتے۔‘
’کیونکہ گاندھی کا اپنا طریقہ ہے۔ اور سبھاش بابو کا اپنا طریقہ ہے۔ ہم گاندھی جی کو ان کے طریقے پر چلنے دیں 151اور ہم نوجوان سبھاش بابو کا ساتھ دیں۔یقیناًآنے والے وقت میں آزادی اسی راستہ سے ملے گی جو راستہ سبھاش بابو کاراستہ ہے۔‘

کھیل کود میں دلچسپی رکھنے والے اور فٹ بال کے شوقین احمد علی کے لیے یہ دن فیصلہ کن ثابت ہوئے۔ ملک کی آب ہوا میں نفرت کے جراثیم گھلے ہوئے تھے۔دوسری جنگ عظیم کی شروعات ابھی نہیں ہوئی تھی۔ مگر آہستہ آہستہ ساری دنیا میں خانہ جنگی کا ماحول بنتا جا رہا تھا۔ اور یہی وقت تھا جب احمد علی سبھاش چندر بوس کے آزاد ہند فوج میں شامل ہو گئے۔ یہ ان کی زندگی کا وہ صفحہ تھا، جہاں وہ پرامید تھے کہ اب خوشگوار آزادی کے احسا س کو کوئی بھی ہندوستانیوں سے چھین نہیں سکتا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب سبھاش بابو پر فرنگیوں کی بری نظر تھی۔ اور ان کے انقلاب کا نعرہ گھر گھر گونج رہا تھا
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ نیتا جی سبھاش چند ر بوس اور گاندھی جی کے درمیان اختلافات تو تھے مگر دونوں کا مشن ایک ہی تھا گاندھی جی عدم تشدد اور اپنے اصولوں کو بنیاد بنا کر ایک لمبی اور آہستہ جنگ کے حامیوں میں سے تھے جبکہ سبھاش چندر بوس کا نظریہ دو ٹوک تھا انگریزو۔ تمہیں جانا ہی ہوگا۔‘
اسی درمیان دوسری جنگ عظیم کا بگل بج گیا۔ ساری دنیا بارود کے دہانے پر تھی۔ سبھاش چندر بوس اس حقیقت کو تسلیم کرتے تھے کہ اب فرنگیوں سے یہ جنگ اکیلے نہیں لڑی جا سکتی۔ ہاں، انگریزوں کے دشمنوں سے مل کر یہ آزادی ضرور حاصل کی جا سکتی ہے۔ اور اس مہم میں احمد علی انصاری بھی پیش پیش تھے۔ اس وقت تک برٹش حکومت نے ان کو نظر بند نہیں کیا تھا۔ لیکن احمد علی کے ساتھ ان کے نوجوان ساتھیوں کی فکر الگ الگ تھی۔
’ محاذ پر آگے ہمیں ہونا چاہئے۔ ہم نیتا جی کو خطرات سے دور رکھیں تو بہتر ہوگا۔‘
’ لیکن نیتا جی کسی کی بات نہیں مانیں گے۔‘
احمد علی خبر لائے تھے کہ فرنگی پولس ہر جگہ نیتا جی کو تلاش کرتی ہوئی چل رہی ہے۔ احمد علی کے پاس اس کا جواب موجود تھا۔
’ ہمارے پاس اسلحے ہیں۔ اس سے پہلے کہ فرنگی اپنے ارادوں میں کامیاب ہوں، ہم ان پر حملہ کر دیں گے۔ اور ہمارے کچھ ساتھی نیتا جی کو محفوظ مقام پر لے جائیں گے۔۔۔‘
لیکن اس سے پہلے کہ اس کارروائی پر عمل ہوپاتا، فرنگیوں کی خفیہ ایجنسی نے نیتا جی کو تلاش کر لیا اور انہیں کلکتہ میں نظر بند کر دیا۔ لیکن فرنگی نیتا جی کو زیادہ دنوں تک قید میں نہیں رکھ سکے۔ نیتا جی سبھاش چندر بوس کی گرفتاری کی خبر جنگل کی آگ کی طرح ہندوستان میں پھیل گئی۔ اس بات سے کم لوگ واقف ہیں کہ کلکتہ کی جیل سے نیتا جی کو بھگانے میں ان کے بھتیجے سشر کمار بوس کے ساتھ جو چند لوگ شامل تھے، ان میں ایک اہم نام احمد علی کا بھی تھا۔ اور یہیں سے نیتا جی بار بار بھیس بدلتے ہوئے افغانستان سے جرمنی تک جا پہنچے تھے۔
تاریخ کے بوسیدہ اور گمشدہ اوراق سے ان ناقابل فراموش کہانیوں کو باہر نکالنا اور قارئین تک پہنچانا اس لیے بھی آج کے ماحول میں ضروری ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ہم اپنے ہی لوگوں کو بھولتے جارہے ہیں جنگ آزادی میں شامل ہونے والے مسلمانوں کی داستانیں نہ نصاب کی کتابوں میں شامل ہیں اور نہ کسی کو یہ فرصت کہ نئی نسل تک ان تاریخی حقائق کو پہنچایا جا سکے۔ مگر یہ بتانا ضروری ہے کہ 1857کے غدر سے آزادی کی جنگ تک مسلمان جانبازوں نے بڑھ چڑھ کر اس ملک میں اپنی قربانیاں پیش کی تھیں لیکن صد افسوس، ہم ان کارناموں کو وقت کی دھول میں دفن کرتے جا رہے ہیں بہر کیف، دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر 1945میں احمد علی دوبارہ ہندوستان واپس آگئے۔ اب ایک نئی زندگی تھی۔ نیا سفر تھا۔ ملک تیزی سے نئے واقعات اور حادثات کی کہانیاں لکھ رہا تھا۔ سبھاش بابو نے 1943میں جرمنی چھوڑ دیا۔ وہاں سے وہ جاپان گئےجاپان سے سنگاپور۔ آزاد ہند فوج کی کمان اپنے ہاتھ میں لی۔ 4؍ جولائی 1944کو برما پہنچے اور ہندوستانیوں کو جوش کے ساتھ للکارا تم مجھے خون دو میں تمہیں آزادی دوں گا۔ اورایک بڑی حقیقت یہ بھی ہے کہ تاریخ کے ان زندہ صفحات کے گواہوں میں ایک اہم نام مجاہد آزادی حاجی احمد علی کا بھی تھا151 8؍ اگست1945جب ٹوکیو جاتے ہوئے ہوائی جہاز حادثہ میں نیتا جی کی موت واقع ہوئی تو دلبرداشتہ ہو کر حاجی محمد علی ہندوستان واپس آگئے۔
15؍ اگست 1947ملک آزاد ہوگیا لیکن ہندوستان کے مختلف شہروں میں فساد کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔۔۔ احمد علی کا درد مند دل اس موقع پر خاموش کیسے رہتا۔ ایک آہ اٹھی اور ایک فریاد، درد بن کرہندوستان کے گلی کوچے میں گونج گئی
’ نیتا جی نے آزادی کے لیے خون مانگا تھا۔ لیکن اب آزادی ملنے کے بعد اپنے ہی اپنوں کے خون کے پیاسے ہوگئے ہیں۔ سڑکوں پر لہو بہہ رہا ہے۔ یہ کس کا خون ہے؟ ہندو کا یا مسلمان کا۔ نیتا جی زندہ ہوتے تو اس دردکو برداشت نہیں کر پاتے۔۔۔‘
وہ جب تک زندہ رہے، اس درد کے ساتھ زندہ رہے اور شاید اسی لیے ان کا کہنا تھا
’’ زندگی سمجھوتے کے لیے نہیں ہوتی؍
زندگی ہر بار ایک جنگ ہے؍
اور آگے بڑھ کر؍
اس جنگ میں حصہ داری ضروری ہو جاتی ہے؍
اس سحر کے لیے
جہاں ہمارے خوابوں پر کوئی پہرہ نہیں ہوگا
ہم جئیں گے اپنی شرطوں او رآزادی کے ساتھ؍‘‘

لیکن آزادی کے بعد کے منظر نامے نے انہیں یہ بھی کہنے پر مجبور کیا
’’ہم گنہگار، بے ضمیر اور بے شرم لوگ ہیں؍
ہم نہیں جانتے آزادی کی قیمت؍
ہم سڑکوں پر اپنا ہی لہو بہا رہے ہیں؍ اور خوش ہو رہے ہیں؍
ہم آزادی اور جمہوریت کا مذاق اڑاتے ہیں
ضرورت ایک نئی جنگ کی ہے؍
آزاد ہندوستان میں جمہوریت اور سیکولرزم کے تحفظ کے لیے ابھی باقی ہے ایک اور جنگ؍‘‘
2005میں جمہوریت کو زندہ رکھنے اور سیکولرزم کے تحفظ کا نعرہ دے کر انہیں لمبی نیند آگئی ایک ایسی نیند جس کے بارے میں میر نے کہا ہے ؂
موت یک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے بڑھیں گے دم لے کر
احمد علی چلے گئے لیکن اپنے پیچھے ناقابل فراموش یادوں کا ایک ایسا خزانہ چھوڑ گئے ہیں جس کی حفاظت کرنا ہم سب کا فرض ہے فسادات کی آگ ابھی بھی روشن ہے’’ فرقہ واریت کے شعلے ابھی بھی بھڑک رہے ہیں اور کہیں دور سے اُن کی آواز ابھی بھی کانوں میں گونج جاتی ہے نئے بچے نہیں جانتے کہ آزادی کیا ہے جمہوریت اور سیکولرزم کا تحفظ پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہوگیا ہے۔‘‘

«
»

حماس اور فتح میں مفاہمت

آر ٹی آئی ایکٹ عوام کو بہلانے کا ذریعہ ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے