چادروں کی سیاست

اتنی وضاحت کے بعد خواجہ غریب نواز کے عرس کے موقع پر اُن کا چادر بھیجنا کسی طرح اس کے علاوہ سمجھ میں نہیں آیا کہ آئندہ وہ اپنے جس اُمیدوار کو لڑائیں اُسے امریکہ میں بسے مسلمانوں کے ووٹ دلادیں۔ وہ چادر ہم نے اس طرح نہیں دیکھی جس طرح اس چادر کو دیکھا ہے۔ جو وزیر اعظم نریندر مودی نے، مختار عباس نقوی کے ہاتھ بھیجی ہے۔ اس کا فوٹو اودھ نامہ کی 23 اپریل کی اشاعت میں چھپا ہے۔ چادر کو کھڑا کیا گیا ہے جسے ایک طرف سے وزیر اعظم پکڑے ہوئے ہیں اور دوسری طرف سے مختار عباس نقوی صاحب۔ چادر بہت بھاری خوبصورت اور قیمتی ہے اور اس پر بہت بڑے بڑے حروف میں لکھا ہے ’’لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ‘‘ جس کے معنی ہر مسلمان جانتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود عبادت کے لائق نہیں۔ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔ کس قدر مضحکہ خیز ہے یہ بات کہ جو آدمی ہر بھگوان کی پوجا کرتا ہے گنگا کو ماں بتاکر اس کی پوجا کرتا ہے سورج کی پوجا کرتا ہے ہتھیار کی پوجا کرتا ہے اور نہ جانے ایسی کتنی چیزوں کی پوجا کرتا ہے جسے ہم جانتے بھی نہیں۔ وہ خواجہ معین الدین چشتی کو ایسی چادر بھیج رہا ہے جس کی عبارت ہم لکھ چکے۔
خواجہ صاحب تو سوال و جواب کرنے سے رہے اور وہ جو مزار کے مجاور ہیں یا مزار پر برسنے والے کروڑوں روپئے کے تحائف، زیور، نقد، سونا، چاندی، میوے اور لاکھوں چادروں کے وصول کرنے والے۔ وہ کیسے ہیں، کیا ہیں اُن کا کردار کیا ہے؟ وہ خواجہ صاحب کی تعلیمات پر کتنا عمل کرتے ہیں؟ اور کروڑوں کی چادروں اور چڑھاوے کا وہ کیا کرتے ہیں اس کے متعلق ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ
ہے ادب شرط منھ نہ کھلوائیں
ہمارا موضوع تو وہ چادر ہے جو ایک سیکولر ملک کے وزیر اعظم نے بھیجی ہے جو خود سیکولر نہیں ہے یا ہیں تو کسی ایسے سیکولرازم کے ماننے والے ہیں جو اُن کا اپنا تصنیف کیا ہوا ہے۔
کیا کوئی چادر بنوانے والا، چادر بنانے والا اور چادر کو لے جانے والا ایسا نہیں تھا جس نے مودی صاحب کو یہ بتایا ہوتا کہ اس پر کیا کاڑھا گیا ہے اور اس کے معنیٰ کیا ہیں؟ اگر ان کی بے خبری میں یہ چادر گئی ہے تو اُسے واپس منگواکر ضروری ہو تو دوسری چادر بھجوادی جائے اس لئے کہ جس کے نام سے وہ گئی ہے اس کا عمل یہ ہے کہ وہ جب بنارس میں نامزدگی کرانے کے لئے گئے تو کاشی وشوناتھ بابا کے مندر میں دو گھنٹہ انہوں نے پوجا کی اور وہاں سے نکل کر مجسٹریٹ کی عدالت جاکر نامزدگی کرائی۔
شری مودی جب 16 مئی کو بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئے تو پھر گئے اور اس دن اُن کو ماں گنگا کی پوجا کرنا تھی۔ اس وقت انہوں نے کاشی وشوناتھ مندر کے پجاری کو اپنے ساتھ رکھا اور وہ پوجا میں قدم قدم پر رہنمائی کرتے رہے کہ اب کیا پڑھنا ہے؟ اب کیا کرنا ہے؟ اور اب کہاں جانا ہے؟ شری مودی جب 25 مئی کو وزیر اعظم کا حلف لے چکے تب انہوں نے سینٹرل ہال میں پوری پارلیمنٹ کو خطاب کیا۔ اس وقت سب سے اہم بات یہ کہی کہ میں ایک سال کے اندر پارلیمنٹ کو داغی ممبروں سے صاف کردوں گا۔ جو گناہگار ہوں گے وہ جیل جائیں گے اور جو پارسا ہوں گے وہ پارلیمنٹ کی عظمت بڑھائیں گے۔ ٹھیک ایک مہینہ کے بعد ایک سال پورا ہوجائے گا۔ ابھی کسی ایک کا مقدمہ بھی شروع نہیں ہوا ہے بلکہ ہو یہ رہا ہے کہ 70 برس کے عبدالکریم ٹنڈے تین مقدموں میں باعزت بری ہوچکے ہیں مختلف عدالتیں ثبوت نہ ہونے کی بناء پر مسلمانوں کو باعزت بری کررہی ہیں۔ لیکن کسی داغی پارلیمنٹ کے ممبر کے متعلق نہیں سنا کہ اُن کا کیا ہوا؟
آیئے پھر چادر کی ہی بات کریں۔ جس آدمی کا سب سے بڑا شوق اور عمل یہ ہو کہ وہ جس ملک میں جائے وہاں اللہ کے علاوہ کسی کا مندر معلوم کرے اور وہاں ماتھا ٹیکے۔ وہ جب بھوٹان گئے تب، جب شری لنکا گئے تب، پھر جب جاپان گئے تب ہر جگہ مندروں کے متعلق معلوم کیا اور وہاں جاکر اُن کی عبادت کی اور جو اللہ کے بزرگ و برتر ہزاروں میل سے اس کی تبلیغ کرتے کرتے اجمیر آکر بس گئے اور وہاں ہر ایک کی مدد کی ابھی اس کی تکلیف کے لئے اس کی پریشانی کے لئے اس کی اولاد کے لئے اس کی خوشحال فارغ البالی کے لئے دعا کی اور اسے یہ بتایا کہ دیکھو میں نے جس سے مانگا ہے وہ اللہ ہے اسی نے اس دنیا کو بنایا ہے اسی کے حکم سے میں یہاں آیا ہوں اور وہی تمہاری تکلیفیں دور کرے گا وہی تمہیں خوشحال بئنائے گا وہی تمہارے کاروبار میں برکت دے گا اور وہی تمہیں اولاد بھی دے گا۔ وہی ہے جس کے سوا کسی کی پوجا اور عبادت نہ کرو نہ کسی سے مانگو۔ اس لئے کہ وہی ہے جو دیتا ہے۔ تم سب بھی اسی کی عبادت کرو اور اس نے جو اپنے دین کو مکمل کرکے اسے لے کر حضرت محمدؐ کو بھیجا ہے۔ وہی اللہ کے آخری رسول ہیں۔ انہوں نے جو بتایا ہے وہی دین ہے بس اسی کی پابندی کرو۔
چادر کے ساتھ وزیر اعظم نے ایک پیغام بھی بھیجا ہے کہ ’’خواجہ معین الدین چشتی نے ہندوستان کی صوفی سنت روایات کو قائم رکھتے ہوئے سبھی مذاہب کے ماننے والوں کو آپس میں پیار محبت سے رہنے کا عظیم پیغام دیا ہے۔ غریب نواز کا یہ پیغام آج بھی معنویت رکھتا ہے‘‘ ملک کے گوشہ گوشہ میں آئے بزرگوں نے واقعی پیار محبت کا پیغام دیا لیکن انہوں نے یہ کبھی یا کہیں نہیں کہا کہ تم جس کی پوجا کررہے اس کی کرتے رہے بلکہ انتہائی پیار سے حکومت سے محبت سے اور اُن کی خدمت کرکے یہ بتایا کہ زندگی کا سکون صرف اللہ کو ایک ماننے میں ہے اور ہر مسئلہ میں اسی سے لو لگانے میں اسی سے مانگنے میں جو ملے گا وہ کوئی نہیں دے گا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ وزیر اقلیتی امور مختار عباس نقوی نے مودی جی کو یہ نہیں بتایا کہ اس چادر میں کیا لکھا ہے؟ ایسا تو نہیں کہ بچپن سے اس معاشرہ میں پوری طرح رنگ جانے اور گھر میں شریک زندگی کی پوجا پاٹ کی مصروفیتوں میں اور رات دن ماں گنگا۔ رام مندر سیتا جی ہنومان کے مسائل نے ان سے یہ علم بھی چھین لیا کہ وہ مودی کو لاالہ الاللہ کے معنیٰ بتاکر یہ کہیں کہ پھر اس کے بعد آپ کسی مسجد میں تو پاک صاف ہوکر جاسکتے ہیں۔ کسی مندر میں نہیں؟
اگر دور کی کوڑی لائی جائے تو یہ بھی ہوسکتا ہے شری مودی آر ایس ایس کے پرچارک ہونے کی وجہ سے انہوں نے خواجہ صاحب کا لایا ہوا پیغام لاالہ الااللہ اُنہیں واپس کیا ہو کہ ہندوستان میں گھر واپسی کا پروگرام چل رہا ہے۔ اور آپ کے ہاتھوں پر جو جو ہندو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوئے تھے ہم انہیں دوبارہ ہندو بناکر اُن کو گھر واپس لارہے ہیں اور جو آپ کے ذریعہ ملک میں آیا تھا وہ آپ کو واپس کررہے ہیں۔
ساقی یہ اپنا شیشہ اٹھا اپنا جام لے
لیکن اس بات پر ہمارا دل نہیں ٹکتا کہ وہ اتنی دور تک سوچ سکتے ہیں۔ پھر اس کے بعد ایک ہی بات رہ جاتی ہے کہ اپنے سب سے پیارے دوست اور اُن کے آئیڈئیل براک اوبامہ نے اجمیر چادر بھیجی ہے تو یقیناًیہ کوئی بہت اچھی بات ہے اس لئے ہم بھی بھیج دیں۔ مودی صاحب گجرات کے وزیر اعلیٰ رہے۔ گجرات میں بہت بڑے بڑے بزرگوں کے مزار ہیں جو ہر وقت مودی کے نشانہ پر ہیں کہ کوئی موقع ملے اور وہ سب کو صاف کرادیں۔ اس لئے کہ وہ ماسٹر پلان میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ اگر صوفی سنتوں سے مودی کو واقعی محبت ہوتی تو احمد آباد کے مزاروں کے لئے چادریں بھجواتے؟ اور کلمہ طیبہ کے معنیٰ جانتے ہوتے اور اس کی گہرائی اور اس کا اعجاز سمجھتے ہوتے تو عالم اسلام کے دورے کرتے اور وہاں دیکھتے کہ لاالہ الااللہ کیا ہوتا ہے اور محمد رسول اللہ کیسے پڑھا جاتا ہے؟ آخری بات یہ عرض کرنا ہے کہ ملک بہت بڑے بحران سے گذر رہا ہے ایسی حالت میں ہر طرف سے آواز آرہی ہے کہ ہر مسئلہ میں سیاست نہ کرو۔ ہماری درخواست ہے کہ ان اللہ کے پیارے بندوں کے مزاروں کو تو سیاست کی گندگی سے محفوظ رہنے دو۔ اس لئے کہ انہوں نے کبھی سیاست نہیں کی۔

«
»

بس کر الٰہی

عہد شاہجہانی میں علم و ادب کی بے نظیر ترقیات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے