کیمرون کی کامیابی

انتخاب کے آخری مرحلہ تک برطانیہ میں کنزر ویٹو پارٹی کی قیادت میں مخلوط حکومت کی پیش گوئی کی جارہی تھی لیکن650 رکنی پارلیمنٹ دارالعوام یاHouse of Commons میں331سیٹیں حاصل کر کے ڈیوڈ کیمرون نے سب کو حیرت زدہ کردیا ان کی اس کامیابی کو گزشتہ سال ہندوستان میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی کامیابی سے بالکل درست ہی مشابہ قرار دیا جارہا ہے ۔ ان کی حریف خاص لیبرل پارٹی کو232 اسکاٹش نیشنل پارٹی کو56اور لبرل ڈیمو کریٹس کو8سیٹیں ملی ہیں لیبر پارٹی کے لیڈر اور سابق خارجہ سکریٹری ملی بینڈ نے شکست کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے پارٹی کی قیادت سے استعفا دے دیا ہے حتمی نتائج آنے کے بعد ڈیوڈ کیمرون نے اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے سامنے اہم چیلنج عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنا ہے جس میں یورپی یو نین میں شمولیت کے لئے ریفرنڈم اسکاٹ لینڈ کواختیارات کی منتقلی شامل ہیں ۔ انہوں نے ایسا ہی سلوک شمال آئر لینڈ اور ویلس کے ساتھ بھی کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے اس عہد کا اعادہ کیا کہ انگلینڈ کے لئے بھی مناسب اینٹی تصفیہ کا خیال رکھا جائے گا۔
فی الحال عام انتخابات میں کامیابی کے بعد ڈیوڈ کیمرون پہلی بار مکمل طور پر کنزرویٹو پارٹی کے ارکان پر مشتمل کابینہ کی تشکیل پر غوروخوض کر رہے ہیں۔ کیمرون نے اس عزم کو بھی دہرایا ہے کہ وہ یورپی یونین اور برطانیہ کے تعلقات میں اہم تبدیلیاں لانے کی کوشش کریں گے۔کنزرویٹو پارٹی نے انتخابات میں مجموعی طور پر دارالعوام کی 650 میں سے 331 نشستیں حاصل کی ہیں جس کے بعد اسے ایوان میں سادہ اکثریت مل گئی ہے۔اس کامیابی کا مطلب ہے کہ کنزرویٹو پارٹی اب بغیر کسی اتحاد یا دوسری پارٹی کے ساتھ باضابطہ معاہدے کے حکومت کرنے کی اہل ہے۔وزیر اعظم کیمرون نے اپنی کابینہ کے چند اہم ارکان کا اعلان تو فتح کے چند گھنٹے بعد ہی کر دیا تھا۔ان ارکان میں جارج اوسبورن کو دوبارہ وزیرِ خزانہ تعینات کرنے کے ساتھ ساتھ فرسٹ سیکریٹری آف سٹیٹ کا اعزازی درجہ بھی دیا گیا ہے جس کے بعد عملی طور پر وہ نائب وزیرِاعظم بن گئے ہیں۔اس کے علاوہ تھریسا مے کو وزیر داخلہ، فلپ ہیمنڈ کو وزیر خارجہ اور مائیکل فیلن کو وزیر دفاع برقرار رکھنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔تاہم وزیر اعظم کیمرون کو سابقہ اتحادی حکومت میں شامل جماعت لبرل ڈیموکریٹس کے وزراء کی جگہ نئے وزیروں کا تقرر کرنا ہے۔
نئی برطانوی پارلیمنٹ کا پہلا اجلاس 18 مئی کو ہوگا جس میں پہلی بار خواتین اور نسلی اقلیتوں کی ریکارڈ نمائندگی ہوگی۔ ایوان میں خواتین کی تعداد 143 سے بڑھ کر 191 ہوگئی ہے جبکہ نسلی اقلیت کی جانب سے نمائندگان کی تعداد 27 سے بڑھ کر 42 ہو گئی ڈیوڈ کیمرون نے جو ’ایک ملک‘ یعنی پورے برطانیہ کی حکومت چلانے کا وعدہ کر چکے ہیں ا سکاٹ لینڈ کی آزادی کی حامی جماعت ایس این پی کی رہنما نکولا سٹرجن سے بھی ملاقات کی ہے۔ نکولا کی پارٹی نے ا سکاٹ لینڈ سے دارالعوام کی 59 میں سے 56 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔اوسبورن کو ایک بار پھر وزیر خزانہ بنایا گیا ہے جبکہ انھیں فرسٹ سیکریٹری آف ا سٹیٹ کا اغزازی عہدہ بھی دیا گیا ہے ایسے میں یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ایس این پی ا سکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ کے لیے مزید اختیارات پر زور دے گی اور یہ گذشتہ سال آزادی کے لیے ہونے والے ریفرینڈم کے بعد سمتھ کمیشن کی تجاویز سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ڈیوڈ کیمرون نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اپنے دوسرے دورِ اقتدار میں یورپی یونین اور برطانیہ کے تعلقات میں اہم تبدیلیاں لانے کی کوشش کریں گے۔انتخابی مہم کے دوران کیمرون نے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ وزیرِ اعظم بنے تو یورپی یونین میں برطانوی رکنیت کی شرائط پر دوبارہ بات کریں گے۔ اس سلسلے میں برطانیہ میں ممکنہ طور پر 2017 میں ایک ریفرینڈم بھی ہوگا۔یورو میں شامل ہونے سے کترانے والے نمایاں رہنما مارک پرٹچارڈ نے بتایا کہ ’یورپی یونین میں برطانیہ کے مستقبل کے بارے میں ریفرینڈم کے لیے وزیر اعظم پر کوئی دباؤ نہیں ہوگا۔‘پرٹچارڈ نے کہا کہ مسٹر کیمرون کو یورپی یونین میں برطانیہ کی شمولیت کے لیے نئی شرائط طے کرنے کے لیے وقت درکار ہوگا۔انھوں نے کہا کہ ’جب وزیر اعظم برطانیہ کے لیے لڑنے برسلز جائیں گے تو پارٹی صد فی صد وزیر اعظم کی حمایت میں ہوگی اور یہ جنگ یقیناًبہتر یورپی یونین کے لیے ہوگی۔‘ادھر یورپی کمیشن کے صدر ڑاں کلالا جنکر نے کہا ہے کہ وہ یورپی یونین میں اصلاحات کے لیے برطانوی تجاویز پر بات چیت کریں گے تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یورپ میں کارکنوں کی آزادانہ منتقلی کے معاملے پر کوئی بات نہیں ہو سکتی۔
برطانیہ کے عام انتخابات میں بھی ایک خرابی سامنے آئی ہے وہ ہے امریکی صدارتی انتخاب کے طرز پر امیدواروں کا انتخابی مہم کے ماہرین کی خدمات حاصل کرنا مثلاً بتایا جاتاہے کہ ڈیوڈ کیمرون نے آسٹریلا کے ایک ماہر ’’ الیکشن باز ‘‘ کی خدمات حاصل کی تھیں اور لیبر پارٹی کے ملی بینڈ نے ایک امریکی ماہر کی جس نے کیمرون کو براہ راست مباحثہ کے لئے بار بار چیلنج کیا لیکن کیمرون کبھی بھی ملی بینڈ سے راست مباحثہ کے لئے سامنے نہیں آئے لیکن روایتی انتخابی مہم سے ہٹنا اور پارلیمانی جمہوریت کو صدارتی طرز پر لے جانا خطرات سے خالی نہیں ہے چونکہ ایسا سابق پارلیمانی الیکشن میں ہندوستان میں بھی ہوچکاہے جہاں پارٹی کے پروگراموں اور پالیسیوں کے بجائے شخصیات پر الیکشن لڑے گئے تھے اس لئے ہندوستان کو بھی اس محاذ پر چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔

«
»

اسامہ بن لادن کی مخبری کس نے کی؟

بڑوں کے نقشِ قدم نشانِ منزل ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے