عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی سے متعلق ملک بھرمیں احتجاج و مظاہروں کی جو انقلابی صورت حال سامنے آرہی ہے، وہ ہم سب کے لیے عیاں را چہ بیاں کی مصداق ہے۔ یوں تو آئے دن این آرسی اور سی اے اے کے حوالے سے مختلف دانشوروں کے بیانات […]
شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی سے متعلق ملک بھرمیں احتجاج و مظاہروں کی جو انقلابی صورت حال سامنے آرہی ہے، وہ ہم سب کے لیے عیاں را چہ بیاں کی مصداق ہے۔ یوں تو آئے دن این آرسی اور سی اے اے کے حوالے سے مختلف دانشوروں کے بیانات سننے اور تحریریں پڑھنے کا موقع ملتا رہتاہے؛ مگر گذشتہ ہفتے صوبہئ کرناٹک کے ضلع ٹمکور سے تعلق رکھنے والے محترم مولانامحمد خالد بیگ ندوی صاحب(جو ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور وسیع پیمانے پراسلامی مزاج کے ساتھ عصری اسکولس قائم کرنے اور چلانے کی تحریک سے وابستہ ہیں)بعض مقامی علماء کی دعوت پر حیدرآباد تشریف لائے اور علماء و دانشوران کے بڑے مجمع سے مختلف مقامات پر پاور پوائنٹ پریزنٹیشن کے ذریعہ تفصیل کے ساتھ مدلل گفتگوفرمائی،الحمدللہ سارے ہی پروگرام توقع کے مطابق کامیابی سے ہم کنار ہوئے، بالخصوص این آرسی کے سلسلے میں بہت سے ذہنوں میں جو غلط فہمیاں تھیں ان کا ازالہ ہوا اور آئندہ کے لیے کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے؟اس پر بھی خاطرخواہ روشنی ڈالی گئی۔زیرنظرتحریر میں مولانا محترم کی گفتگو کو افادہئ عام کے لیے قدرے ترمیم وتفصیل کے ساتھ تحریرکے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ بات ہم سبھی جانتے ہیں کہ جب ہماراملک برطانوی تسلط سے آزادہوا تو اس کے کچھ ہی عرصے بعد تقسیم کا ناگوارسانحہ پیش آیا،اور مسلمانوں کی ایک قابل لحاظ تعداد ہجرت کرکے پاکستان چلی گئی۔ چوں کہ 1924ء میں آرایس ایس کی بنیاد رکھی جاچکی تھی؛اس لیے تقسیم کے نازک موقع پرتعصب پسند ہندؤوں کی جانب سے پوری شدومد کے ساتھ یہ آواز اٹھائی گئی کہ مسلمانوں نے اپنے لیے الگ ملک بنالیا ہے؛لہذا بھارت اب ہندوراشٹر ہوگا۔ اس وقت گاندھی جی اور دیگر جمہوریت پسندرہنماؤں نے اس کی سختی سے مذمت کی اور ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی سربراہی میں مختلف مذاہب کے نمائندوں کے ساتھ مل کر ایک ایسا دستور مرتب کیا گیا جو انصاف،مروت اور مساوات پر مبنی تھا۔ گاندھی جی کی حیثیت باشندگان وطن کے درمیان مہاتما کی تھی اور وہ ہندومسلم اتحاد کے نقیب سمجھے جاتے تھے؛ اس لیے انہیں ایک سازش کے تحت قتل کرنے کا پلان بنایاگیا اور ایسا کھیل کھیلاگیا کہ گاندھی جی کو قتل تو آرایس ایس کرے؛مگر تہمت مسلمانوں کے سر آئے، اس طرح مسلم اقلیت تمام باشندگان وطن کے عتاب کا شکارہوجائے اورمسلمانوں کو ملک بدر ہونے پرمجبورکیاجاسکے۔ چناں چہ اس کام کے لیے گوڈسے کو تیار کیا گیا اور اس کے ایک ہاتھ پر محمد سلیم گودوایا گیا اس نے پوری تیاری کے ساتھ گاندھی جی کو شوٹ کرنے کا پروگرام بنایا اور موقع پاکرکام تمام کردیا۔ اس کے فوراً بعد یہ افواہ عام کردی گئی کہ ایک مسلمان شخص محمد سلیم نے گاندھی جی کو قتل کردیا۔ اس سانحے کے بعد عوام کی بڑی تعداد بھپرگئی اور ممبئی میں ہندو مسلم فساد شروع ہوا۔ ادھر ہمارے قائدین شیخ الاسلام مولاناحسین احمد مدنی، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی اور امام الہندمولاناابوالکلام آزاد نے فوری حرکت کی اور اعلی پیمانے پرتحقیقات کا آغاز کیا پھرمسئلہ کی تہہ تک رسائی کے بعدصرف دو گھنٹوں کے اندراندر سردار پٹیل کے ذریعہ اس بات کااعلان کروایا گیاکہ گاندھی جی کا قاتل مسلمان نہیں تھا؛ بل کہ آرایس ایس کانمائندہ گوڈسے تھا۔ جوں ہی اعلان ہوا غیظ وغضب کا سارا رخ آرایس ایس کی طرف ہوگیا۔اس طرح ایک بنا بنایا منصوبہ خاک آلود ہوگیااور ہندو راشٹر کا جو خواب دیکھا گیاتھا وہ شرمندہئ تعبیر نہ ہوسکا۔ آرایس ایس کی اس شکست فاش کے بعد19 افراد پرمشتمل ایک خفیہ میٹینگ بلائی گئی؛ جس میں آئندہ کے لیے نظام العمل ترتیب دیاگیا، جملہ شرکاء نے اس بات پر قسم کھائی کہ ہم تعلیم کے لیے اپنی زندگی وقف کردیں گے؛ کیوں کہ تعلیم ہی ایک ایسی راہ ہے جس کے ذریعہ پیمانے پر ذہن سازی کا کام کیا جاسکتا ہے اور کئی غیر ہندو اقوام کو ہندوباورکرایاجاسکتا ہے،اس نصب العین کے مطابق کام کا آغاز ہوا اور گورکھپور سمیت ملک بھر میں اسکولس کا قیام عمل میں آیا۔جب بات آرایس ایس کی نکل پڑی تو برسبیل تذکرہ چنداورحقائق بھی ملاحظہ فرمائیں! آر ایس ایس ایک خفیہ تحریک: جناب عبدالغفور نورانی صاحب ایک اچھے قانون داں،معروف دانشور اوربے باک قلم کار ہیں۔ پچھلے چند سالوں سے آر ایس ایس کی تشدد پسندذہنیت کوعیاں کرنے والوں میں آپ کا نام سرفہرست ہے۔ حال ہی میں اس’پراسرار‘ سمجھی جانے والی تحریک پر آپ کے اشہب قلم سے انگریزی میں ایک معرکۃ الآرا کتاب شائع ہوکر دادتحسین حاصل کرچکی ہے۔ یہ کتاب اپنے اندر آر ایس ایس کے تعلق سے مختلف اہم اور بنیادی معلومات کا ذخیرہ لیے ہوئے ہے۔ درج ذیلاقتباس ان ہی کی ریسرچ کا خلاصہ ہے۔ آر ایس ایس کی تقریباً 100سے زائدشاخیں ہیں، جوالگ الگ میدانوں میں سرگرم ہیں۔ جیسا کہ سیاسی میدان میں بی جے پی،حفاظت یا سکیورٹی کے لیے بجرنگ دل، مزدورں یا ورکروں کے لیے بھارتیہ مزدور سنگھ،دانشوروں کے لیے وچار منچ، غرض کہ سوسائٹی کے ہر طبقہ کی رہنمائی کے لیے کوئی نہ کوئی تنظیم ہے۔ حتیٰ کہ پچھلے کچھ عرصہ سے آر ایس ایس نے مسلم راشٹریہ منچ اورجماعت علماء نامی دو تنظیمیں قائم کرکے انہیں مسلمانوں میں کام کرنے کے لیے مختص کیاہے۔ پچھلے انتخابات کے دوران یہ تنظیمیں کشمیر میں خاصی سرگرم تھیں۔ان سبھی تنظیموں کے لیے آر ایس ایس کیڈر بنانے کا کام کرتی ہے، اور ان کے لئے ا سکولوں اور کالجوں سے ہی طالب علموں کی مقامی شاکھاؤں کے ذریعے ذہن سازی کی جاتی ہے۔ آر ایس ایس ہندوستان کے 88 فیصد بلاک میں اپنی شاکھاؤں کے ذریعے رسائی حاصل کر چکا ہے۔ قابل ذکر واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ ایک سا ل میں آر ایس ایس نے 113421 تربیت یافتہ سوئم سیوک سنگھ تیار کیے ہیں۔ہندوستان سے باہران کی کل39 ممالک میں شاکھائیں ہیں۔ یہ شاکھائیں ہندو سوئم سیوک سنگھ کے نام سے کام رہی ہیں۔ہندوستان سے باہر آر ایس ایس کی سب سے زیادہ شاکھائیں نیپال میں ہیں۔اس کے بعد امریکہ میں اس کی شاکھاؤں کی تعداد146 ہے۔ برطانیہ میں 84 شاکھائیں ہیں۔ آر ایس ایس کینیا کے اندر بھی کافی مضبوط حالت میں ہے۔ کینیا کی شاکھاؤں کا دائرہ کار پڑوسی ممالک تنزانیہ‘ یوگانڈا‘ماریشش اور جنوبی افریقہ تک پھیلا ہوا ہے اور وہ ان ممالک کے ہندوؤں پر بھی اثرانداز ہو رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ ان کی پانچ شاکھائیں مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک میں بھی ہیں۔ چوں کہ عرب ممالک میں جماعتی اور گروہی سرگرمیوں کی کھلی اجازت نہیں ہے اس لئے وہاں کی شاکھائیں خفیہ طریقے سے گھروں تک محدود ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ بابری مسجد کی مسماری اور رام مندر کی تعمیر کے لیے سب سے زیادہ چندہ ان ہی ممالک سے آیا تھا۔ فن لینڈ میں ایک الکٹرانک شاکھا ہے جہاں ویڈیو کیمرے کے ذریعے بیس ممالک کے افراد جمع ہوتے ہیں۔ یہ ممالک وہ ہیں جہاں پرآر ایس ایس کی باضابطہ شاکھا موجود نہیں ہے۔ ان سب تفصیلات کو ذکر کرنے کا مقصدصرف یہ ہے کہ برسر اقتدار پارٹی کی پیہم کامیابیوں کے پیچھے آرایس ایس کی مسلسل جدوجہد اور انتھک محنت کارفرماہے؛یہی وجہ کہ آج ہر اہم اور بڑے عہدے پر ان ہی کے پروردہ افراد براجمان ہے، جس کے خوف ناک نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ نیز یہ ہمارے لیے جائے عبرت و احتساب ہے کہ مضبوط منصوبہ بندی اور عزم و استقلال کے سبب مٹھی بھربرہمن محض پروپیگنڈوں کی بنیاد پرملک بھر میں تباہی مچا رہے ہیں اور ہم ہیں کہ سیکولرقوموں کی کثرت کے باوجود مقصد و ہدف کو متعین نہ کرنے اورزمینی سطح پر کام کوفروغ نہ دینے کے سبب آپسی انتشار کا شکار اور ذلت و پستی سے دوچارہیں۔ کچھ باتیں سی اے اے کے حوالے سے: یہ بات ہمیں معلوم ہونی چاہیے کہ ملک کے دستور کا نفاذ 1950ء میں عمل میں آیا اور دستور میں شہریت کے حوالے سے جودفعہ مرتب کی گئی ابتداً اس میں کافی لچک رکھی گئی، پھر بعد میں موقع اور حالات کے لحاظ سے ترمیمات اور وضاحتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ پہلی ترمیم 1986ء میں ہوئی۔دوسری ترمیم 1992ء میں ہوئی۔تیسری ترمیم2003ء اور چوتھی ترمیم 2005ء میں ہوئی۔ اس وقت شہریت کے سلسلہ جو متنازع ترمیم پاس کرائی گئی اور جس کے فوری بعد ملک بھر میں مخالفت و احتجاج کی صدائیں بلند ہوئیں وہ اس حوالے سے ہونے والے پانچویں ترمیم ہے۔ مذکورہ ترمیم کی رو سے تین پڑوسی اسلامی ممالک؛ پاکستان، افغانستان، اور بنگلہ دیش سے غیر قانونی طور پررہائش پذیر افراد اگر ہندو، سکھ، عیسائی، جین، بدھسٹ اور پارسی ہیں تو ان کو ’این آرسی‘ میں ہندوستانی شہری تسلیم کرکے شامل کرلیا جائے گا، اور اگر مسلمان ہیں تونہیں!۔اس طرح یہ قانون جو فی الوقت عدالتِ عالیہ میں زیرِ غور ہے‘ عام دانشوروں کی رائے میں دستورِ ہند کی اہم اور حساس آئینی شقوں کے خلاف ہے،اور اس سے ملک کی سیکولرحیثیت ختم ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن یہاں ایک غور طلب پہلو یہ ہے کہ کیا ہمارے احتجاج کا صرف یہی ایک سبب ہے کہ اس ترمیم میں مہاجرین کی فہرست سے مسلمانوں کو علیحدہ رکھاگیا اور ان کے ساتھ سوتیلا رویہ برتا گیا۔۔۔۔۔۔یا کچھ اور بھی؟؟ اس کو سمجھنے کے لیے یہ بات سمجھیں کہ آئین کی رو سے کسی بھی شہری کو شہریت دینے کی چار بنیادیں ہیں 1:ولادت،2:وراثت،3:رجسٹریشن،4:نیچرلزیشن۔ ان چاروں میں ابتدائی دوبنیادیں تو واضح ہیں،البتہ اخیرکی دو بنیادوں کو سمجھنے اور فرق کرنے کی ضرورت ہے۔تیسری صورت یہ ہے کہ کوئی غیرملکی شخص اپنے ملک میں ہونے والے ظلم وجبرسے بچنے کے لیے ہمارے ملک میں آگیا ہو یاہمارا ملک اسے پسند ہو اور وہ یہاں رہنے کا خواہاں ہونیزاس کے آباء واجداد میں سے کوئی ہندوستانیبھی رہے ہوں تو اس کو حکومت پہلے سات سال تک عارضی طورپر ویزا جاری کرکے قیام کی اجازت دے گی،اس دوران اس کی نقل وحرکت پرنظر رکھے گی،سات سال بعد وہ مزید رہنا چاہتا ہے تو اس کے مطالبے پرجوشہریت اسے دی جائے گی اسے رجسٹریشن کی بنیاد پرشہریت کہاجائے گا۔چوتھی صورت بھی اسی کے قریب قریب ہے یعنی یہ شہریت بھی غیرملکی کو ملے گی بس فرق اتنا ہے کہ اگر وہ غیرملکی ہمارے ملک میں غیر قانونی طورپررہ گیا ہو اور اس کے آباء واجداد میں سے کوئی بھی اس ملک کے نہ ہوں توحکومت گیارہ سال تک عارضی طورپر ویزا جاری کرکے قیام کی اجازت دے گی پھر اطمینان کے بعداس غیرملکی کے مطالبے پر جو شہریت دی جائے گی اسے نیچرلزیشن کہاجائے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ جب پہلے سے یہ سب قوانین بنے ہوئے ہیں اور اسی بنیاد پر شہریت دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے تو پھرسی اے اے کا کیا مطلب ہے؟اس کو لانے کے کیا مقاصدہیں؟اوراس پر اصرارکی کیا وجوہات ہیں؟ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حکومت اس کے ذریعہ صرف مسلمانوں کا چہرہ سامنے لاکر دوسری اقوام کو طفل تسلی دینا اور خواب خرگوش میں مست رکھنا چاہتی ہے؛تاکہ یہ مسئلہ ہندو مسلم بن کررہ جائے اور ملک فسادات کی بھینٹ چڑھ جائے،پھر آزادی کے وقت جو منصوبہ بھار ت کو ہندوراشٹر بنانے کا ہواتھا اس کو پایہئ تکمیل تک پہونچایا جاسکے۔یاد رکھیں!آگے چل کر اگر این آرسی لاگو ہوجاتی ہے تو سب سے پہلے غیر مسلم اقوام ہی کوغیرملکی ماناجائے گا اورسی اے اے کے ذریعہ دلت، سکھ،جین اور پارسیوں کو یہ قبول کرنا پڑے گا کہ ہم ہندو ہیں اور فلاں ملک سے قانونی یا غیرقانونی طورپر آئے ہوئے ہیں،اس طرح ان دلتوں اور آدی واسیوں کو ہندو دھرم قبول کرنے پرمجبورکیا جائے گا اور برہمنوں کی طرح انہیں حقوق ومراعات حاصل نہیں ہوں گی۔ ہمارے لیے لائحہ عمل: ہمیں احتجاج کی موجودہ حرارت کو مزیدتیز کرنے اور ملک بھر میں منظم طور پر اس فضا کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں ایک بات یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ ہمارے احتجاج کا عنوان ظلم سے مقابلہ اور فسطائی نظام کاخاتمہ ہے؛اس لیے اس کو ہرگز ہندو مسلم مسئلہ نہ بننے دیں، اور اس کے لیے مسلمان اپنے ساتھ دلتوں، آدی واسیوں اور سیکولر قوموں کولے کر آگے بڑھیں؛ بل کہ قیادت کی کمان ان ہی افراد کے سپرد کردیں۔اب تک سیکولر قوموں کے صرف لیڈران ہمارے پروگراموں میں بہ حیثیت مہمان شریک ہوتے رہے اور ساتھ نبھانے کا تیقن دیتے رہے؛مگر اب ضرورت ہے ایسی ملک گیر تحریک کی جس میں ساری برہمن مخالف عوام منظر عام پر آئے اور اپنا احتجاج درج کرائے۔ اگر ایسا ہو(اور خداکرے کہ ایسا ہی ہو)تو امید ہے کہ بہت جلد اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے اورایک زبردست انقلاب برپا ہوگا۔ اس کے لیے ہمیں غیرمسلموں سے ملاقات کے ذریعہ درج بالاتفصیلات وضاحت کے ساتھ بتلانی ہوں گی؛تاکہ انہیں غور وفکر کا موقع ملے اور وہ بھی ان دسیسہ کاریوں کا جواب دینے کے لیے تیارہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں سنجیدگی کے ساتھ اس طرف توجہ کرنا بھی ضروری ہے کہ ہمارے سرکاری دستاویزات تیار ہیں یا نہیں۔اگر ہیں تواپنا نام اور والد کا نام وغیرہ سب میں یکساں ہے یا حروف کی کمی زیادتی ہے؟یہ کام اس لیے ضروری نہیں کہ ہمیں این آرسی کا خوف ہے،یا ہم این آرسی کے نفاذ کوقبول کررہے ہیں؛ بل کہ اس لیے ضروری ہے کہ ہمیں این آر سی کا بائیکاٹ کرنا ہے اور ہمارا بائیکاٹ اسی وقت موثر ومعتبرہوسکتا ہے جب ہمارے پاس مطلوبہ دستاویز موجودہوں اور ہم پھر بھی بتانے سے انکارکردیں؛ لیکن ہمارے پاس سرے سے دستاویز ہی نہ ہوں تو پھر بائیکاٹ کے کیا معنیٰ۔اس لیے خاموش انداز میں بغیر کسی شور و ہنگام کے اپنے اپنے کاغذات بنانے یا ان میں یکسانیت پیداکرنے کا کام مکمل کرلیں۔ دستاویزبنانے کے سلسلہ میں تھوڑی بہت محنت اور صبروضبط کی ضرورت ہے ان دو باتوں کو پیش نظر رکھیں تو بہت سے غیر ضروری مصارف سے بچا جاسکتا ہے۔یہاں اس بات کاتذکرہ بھی برمحل ہوگا کہ این آرسی کے سلسلہ میں کس سال سے کس سال تک پیداہونے والوں کے لیے کیا مطلوبہ دستاویز ہوں گے؟اس حوالے سے درج ذیل تفصیل ملاحظہ فرمائیں! 26/جنوری 1950 سے یکم جولائی 1987 کے درمیان پیدا ہونے والوں کا صرف اپنی پیدائش ثابت کردینا کافی ہے،اتنے سے اس کی شہریت ثابت ہوجائے گی۔یکم جولائی 1987 سے 3/ڈسمبر 2004کے درمیان پیدا ہونے والوں کے لیے اپنی پیدائش کے ساتھ ساتھ والدین میں سے کسی ایک کی شہریت ثابت کرنا ضروری ہے۔پھر3/ڈسمبر 2004 کے بعد پیدا ہونے والوں کے لیے اپنی ولادت کے ساتھ ساتھ والد اور والدہ دونوں کاہندوستانی ثابت کرنا ضروری ہے اسی بنیاد
پر انہیں شہریت دی جائے گی۔ ان تمام اسباب کو اختیار کرنے کے بعد جب ہم حق تعالی سے مدد کی امید رکھیں گے اور دعائیں کرتے رہیں گے تو ان شاء اللہ ضرورمدددآئے گی اورہم کامیاب و کامران ہوں گے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 06/ فروری2020
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں