تحریر: اجیت پرکاش شاہ(سابق چیف جسٹس دہلی ہائی کورٹ) ترجمہ و تبصرہ: عبدالعزیز یہی پہلا موقع نہیں ہے کہ 70 سال بعد ہم لوگ توقع رکھتے ہیں کہ ہندستان کا جشن ایک ریپبلک طور پر منائیں۔ یہ انتہائی قابل افسوس ہے کہ ہم ستر سال بعد بھی دستور کا جشن رسمی طور پر منا رہے […]
یہی پہلا موقع نہیں ہے کہ 70 سال بعد ہم لوگ توقع رکھتے ہیں کہ ہندستان کا جشن ایک ریپبلک طور پر منائیں۔ یہ انتہائی قابل افسوس ہے کہ ہم ستر سال بعد بھی دستور کا جشن رسمی طور پر منا رہے ہیں۔ ستر سال کے بعد سپریم کورٹ کی طرف انصاف کیلئے متوجہ ہیں، ستر سال بعد ہندستان کا آئیڈیا تاریخ میں مدغم ہوگیا، ہم لوگ ایک سیاسی بحران سے دوچار ہیں، جس سے شناخت، قومیت اور شہریت تلپٹ ہو رہی ہے۔ آج (26جنوری کو) بدقسمتی سے جشن جمہوریہ منانے کا ہندستان میں یہی مطلب ہوگیا ہے۔ 1950ء میں ابتدائی شناخت کی جو شعوری طور پر تعمیر کی گئی تھی اس کا مطلب مذہب، ذات اور زبان کی بنیاد پر ہرگز نہیں تھا۔ ہم لوگوں نے خصوصی طور پر قومی شناخت کو پیش نظر رکھا تھا اور نوآبادیاتی طاقت کے خلاف متحد ہوئے تھے۔ ایک نوآبادیاتی عداوت کے تحت قومیت پہلے بھی او ر بعد میں بھی سادے طور پر ہندستانیت تھی جسے عدم تشدد، امن اور آزادی سے جوڑا جاتا تھا۔ ہر آدمی گاندھی جی کی شخصیت اور رہنمائی کو پسند کرتا تھا۔ ہندستان کی قومیت کا آئیڈیا ہمیشہ اتحادِ شہریت، مبنی بر دستور اور 1955ء کے شہریت ایکٹ پر منحصر تھا۔ قومیت کا آئیڈیا اور شہریت ہمیشہ خطرے کی زد میں تھا۔ ساورکر خاص طور پر انتشار کا جو ہندوتو کے نام پر بیج بونا چاہتے تھے وہ آج بھی ہمارا پیچھا کر رہا ہے۔ ہندستانی عوام کو دو حصوں میں بانٹنے کیلئے ان کا ویژن ثقافت اور مذہب کے نام پر مسلط کیا جارہا ہے۔ ساورکر کا تصور ذات اورسنسکرتی کی بنیاد پر ہندو راشٹر تھا۔ ان کا خیال تھا کہ صرف ہندو ہی اس ملک کے مالک ہیں اور انہی کو اس ملک میں رہنے کا حق ہے۔ ہندو راشٹر کا یہ تصور گمراہ کن اورمکر و فریب پر مبنی تھا اور ناقابل عمل تھا۔ آج تہذیبی، لسانی اورمذہبی طور پر ہم اس غلط تصور کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اس کے پس منظر میں شہریت ترمیمی ایکٹ(سی اے اے)، شہریت کا قومی رجسٹر (این آر سی)، قومی آبادی کا رجسٹر (این پی آر) یہ سب ایک ڈیزائن ہے جوہندستانی قانون کے تحت مسلمانوں کو مساوی حقوق سے محروم کرنے کیلئے ہے۔ ایک طرح سے ہندستانی سوسائٹی میں مساوی رکنیت کا نہ ہونا تباہ کن ہے۔ بعض لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ سی اے اے ایک ایسا قانون ہے جو ہمسایہ ممالک کے رہنے والوں کو جو مذہبی بنیاد پر ستائے گئے ہیں یا ستائے جارہے ہیں ان کو پناہ دینے کا ذریعہ ہوگا، لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ اگر ستائے جانے والوں کو قانون کے تحت مدد کی جاتی ہے تو پھر کیوں مذہبی ایذا رسانی کے شکار لوگوں کی مدد کی جائے۔ یہ ایذا رسانی مذہب کی بنیاد پر تنگ نظری کی علامت ہے۔ وہ بھی صرف مسلم اکثریت والے ممالک ہی کیلئے کیوں اور صرف مسلمان ہی کیوں قصور وار ہیں؟ اور جبکہ وہ مظلوم بھی ہیں۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے رفیوجیوں کا صرف انتخاب کرنا نا انصافی اور زیادتی ہے۔ دوسرے ممالک میں جو ایذا رسانی شہریوں کو پہنچائی جارہی ہے وہ چشم پوشی کے مترادف ہے۔ یہ سب کچھ ایسا ہی ہورہا ہے جیسے ہٹلر نے جرمنی میں اور مسولینی نے اٹلی میں کیا تھا۔ اور دونوں فسطائی طاقتیں تھیں جو اخلاقی قدروں سے بالکل محروم تھیں۔ اخلاقی قدروں کے بغیر دستور میں درج قانون کھرا نہیں اتر سکتا۔ سیکولرزم اور برابری کا خیال ختم ہوجاتا ہے۔ قانون کے سامنے برابری کے بنیادی حقوق دستور کی دفعہ 14 کے پیش نظر تین چیزوں کی ضروری شرائط ہوتی ہیں۔اشخاص کی درجہ بندی معقولیت پر ہو۔ ریاست کا ظلم و ستم نہ ہو اور بغیر کسی معقول وجہ کے ریاست غیر مساویانہ سلوک نہ کرے۔ یہ تینوں چیزیں دستور میں درج ہیں۔ ’سی اے اے‘ مخصوص ممالک کی ستائی گئی اقلیتوں کیلئے بنایا گیا ہے اور یہ صرف غیر مسلموں کیلئے محدود کرنا غیر معقولیت پر مبنی ہے کیونکہ اسی ملک میں احمدیہ، ہزارس اور شیعہ فرقوں کو مذہبی بنیاد پر ستایا جاتا ہے۔ سی اے اے اس لئے بھی گمراہ کن ہے کہ یہ صرف تین پڑوسی ملکوں کیلئے مخصوص کیا گیا ہے۔ جن میں اسلام کے سوا کوئی بھی مماثلت نہیں ہے۔ مذہب کی بنیاد پر پناہ دینے کا مستحق ٹھہرانا انتہائی غلط ہے۔ سی اے اے کا سلوک غیر مساویانہ ہے۔ دستورکی دفعہ 14 سے متصادم ہے اور یہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے۔ یہاں تک کہ ’سی اے اے، این آر سی‘ اور ’این پی آر‘ حکمرانی کو تقسیم کرتا ہے اور لوگوں کیلئے تکلیف دہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مثالی طور پر سارے لوگ احتجاج پر اتر آئے ہیں۔ حکومت کا ان لوگوں خاموش کرنا یا ان کی تحریک کو کچلنا آسان نہیں ہے۔ خاص طور پر طلبہ جو دستوری اصولوں کیلئے مشعل بردار ثابت ہوئے ہیں وہ اب تک یقین رکھتے ہیں کہ ہماری سوسائٹی سیکولر اور جمہوری سوسائٹی ہے۔ لیکن ہمیں بہت دکھ ہوتا ہے جب ہم وزیر داخلہ کی زبان سے ٹکڑے ٹکڑے گینگ کے الفاظ سنتے ہیں۔ یہ حاشیہ برداری کے سوا کچھ نہیں ہے اور بغیر سوچے سمجھے طوطے کی رٹ لگانا معلوم ہوتا ہے۔ انحراف اور مخالفت کرنے والوں کو قوم یا ملک دشمن بتانا انتہائی غیر جمہوری عمل ہے۔ سیاسی قیادت اور سیاسی پیروکاروں کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ ملک اور سوسائٹی میں انتشار اور نفرت کون پھیلا رہا ہے؟ ان چیزوں سے ہمیں پرہیز کرنا چاہئے اور عدلیہ پر بھروسہ رکھنا چاہئے اور عدلیہ سے توقع رکھنا چاہئے کہ وہ توازن کو بحال کرے گی۔ حالانکہ عدالت ترجیحات کی طرف توجہ دینے سے قاصر ہے جس کی وجہ سے عدالت سے مایوسی بڑھ رہی ہے۔ جیسا کہ عدالت کو توجہ دینا چاہئے عدالت توجہ نہیں دے رہی ہے اور پس و پیش سے کام لے رہی ہے۔ دیکھا جائے تو ایمرجنسی کے زمانے میں بھی عدلیہ انتظامیہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی تھی۔ ہم لوگ نہیں جانتے ہیں کہ مستقبل میں کیا کچھ ہونے والا ہے، لیکن ایک چیز ضروری ہے کہ ہم لوگ سیکولرزم، متحدہ ہندستان کیلئے لڑیں۔ شفافیت اور برابری ہمیشہ قائم و دائم رہے۔ مختصراً سی اے اے تاریخ کے ڈرؤانا خواب کے سوا کچھ بھی ثابت نہ ہوجب ہی ہندستان مستحکم اور منظم رہ سکے گا۔ تبصرہ: جسٹس اجیت پرکاش شاہ دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور ہندستان کے لاء کمیشن کے چیئر مین رہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ’سی اے اے، این آر سی‘ اور ’این پی آر‘ مجموعی طور پر اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو ہندستانی قانون کے تحت مساویانہ حقوق سے محروم کیا جائے اور انھیں ہندستانی سوسائٹی کی رکنیت سے بے دخل کیا جائے۔ یہ ملک و قوم کیلئے انتہائی تباہ کن ہے۔ "In this context
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں