سی اے اے مخالفت کی آگ، اجڑ گئی دلی، سلگ اٹھا ہندوستان

تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

    جس وقت راجدھانی دلی میں وزیراعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ،دوطرفہ امور پرآپس میں محوگفتگو تھے اور عالمی حالات پر گفت وشنید میں مصروف تھے، ٹھیک اسی وقت شہر، دنگوں کی آگ میں جل رہا تھا۔ میٹینگ کے مقام حیدرآباد ہاؤس سے محض چند کیلومیٹر کے فاصلے پر دنگائی توڑ پھوڑ کر رہے تھے، دکانیں جلائی جارہی تھیں، پتھروں کی بارش ہورہی تھی اور کچھ پولس والے دنگائیوں کو پتھرجمع کرنے میں مدد بھی دے رہے تھے۔ اس فساد نے سات افراد کی جانیں لے لیں،جس کا آغاز تب ہوا، جب سی اے اے کی مخالفت میں سڑک پر پُرامن دھرنا دینے والی خواتین کی مخالفت میں بھاجپا لیڈر کپل مشرا اپنے حامیوں کے ساتھ آگئے۔ ایک طرف سپرپاور امریکہ کے صدر کو وزیراعظم ہند متاثر کرنے کی کوشش میں مصروف تھے اور دوسری طرف ٹی وی چینلوں سے لے کر سوشل میڈیا تک راجدھانی کے فسادات کی خبریں گشت گر رہی تھیں اور مودی کے تمام کئے دھرے پر پانی پھیر رہی تھیں۔حالانکہ دلی کے کئی علاقوں میں پُرامن مظاہرے لگاتار دو مہینوں سے جاری ہیں۔ یہاں تک کہ مظاہرین پر رائفلیں تانی گئیں، گولیاں چلائی گئیں، ڈنڈے برسائے گئے اور جامعہ کی لائبریری میں داخل ہوکر پولس نے طلبہ وطالبات پر حملہ بول دیا، نیز الیکشن مہم کے مرکز میں شاہین باغ کو رکھ کر مسلمانوں کو خوب گالیاں دی گئیں،بلکہ وزیرداخلہ نے شاہین باغ کو کرنٹ لگانے کی بات کی مگر باوجود اس کے احتجاجی مشتعل نہیں ہوئے مگر فسادات کے تازہ واقعات نے نہ صرف دلی کو دنیا میں شرمسارکیا ہے بلکہ بھگواوادیوں کے تقسیم کے منصوبے کو بھی مدد پہنچایا ہے۔ 
یوگی کی پولس کا شب خون
    دلی میں سات افرادنے اپنی زندگی گنوادی مگر سی اے اے مخالفوں کی یہ پہلی قربانی نہیں ہے۔ اس سے پہلے اترپردیش میں پولس کی سفاکی نے دودرجن سے زیادہ لوگوں کی جانیں لی ہیں۔ کرناٹک میں بھی کئی لوگ جاں بحق ہوگئے۔ جن لوگوں نے لاٹھیاں کھائیں، ڈنڈے جھیلے اور پولس مظالم برداشت کئے، مالی نقصان اٹھایا سو الگ ہے۔ پولس مظالم میں سرفہرست اترپردیش رہا جہاں سب سے زیادہ احتجاجیوں کی جانیں گئیں۔سرکاری جائیداد کو نقصان پہنچانے کے نام پر یہیں مسلمانوں سے کروڑوں روپئے اینٹھے گئے، حالانکہ یوگی آدتیہ ناتھ خود سماج وادی پارٹی کے دور حکومت میں ایسے الزامات میں ماخوذ تھے۔ وزیراعلیٰ یوگی نے خواتین کے خلاف بھی مورچہ کھول رکھاہے۔ اتر پردیش کی پولس لگاتار خواتین پرمظالم ڈھا رہی ہے اور انھیں احتجاج سے روکنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ تازہ معاملہ اعظم گڑھ کے بلریا گنج کا ہے جہاں رات کے اندھیرے میں یوگی کی پولس نے خواتین پرحملہ کردیا۔ ان عورتوں کا قصور محض اتنا تھا کہ وہ مودی سرکار کے ذریعے لائے گئے شہریت قانون کو درست تسلیم کرنے سے انکار کررہی تھیں۔ اس کا جواب حکومت کی طرف سے ان کی پٹائی کرکے دیا گیا۔ظاہر ہے کہ بھگواوادیوں کی مردانگی نہتے اور کمزورلوگوں کے سامنے ہی جاگتی ہے۔ ان میں سے کسی کے نظریاتی آباء واجدادنے ملک کی آزادی کے لئے قربانی نہیں دی مگر آج ووٹروں کو ہندو۔مسلم کے خانوں میں تقسیم کر وہ اقتدار پرقابض ہیں اور عوام پرمظالم ڈھا رہے ہیں۔ یوگی کی پولس کی مردانگی دیکھئے کہ نہ صرف اس نے خواتین پر لاٹھیاں برسائیں بلکہ بے قصور مسلم نوجوانوں پر ملک کی غداری کا کیس درج کرانھیں گرفتار کرلیا۔ اعظم گڑھ واقعے کا ایک ویڈیو بھی منظر عام پر آیا ہے۔ ویڈیو میں پولیس اہلکار لاٹھی چارج کرتے اور خود ہی پتھر پھینکتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔اتناہی نہیں پولیس نے آنسو گیس کا بھی استعمال کیا۔اس واقعے کے بعد ضلع انتظامیہ نے اعظم گڑھ میں دفعہ 144 نافذ کر انٹرنیٹ خدمات کو معطل کردیا تھا۔ واضح ہوکہ اس سے پہلے لکھنؤ کے گھنٹہ گھر میں ہونے والے احتجاج پر بھی یوپی پولیس نے کاروائی کی تھی۔ تب پولیس نے وہاں احتجاج کرنے والی خواتین کے کمبل چھین لئے تھے اور ان کے کھانے پینے کی چیزوں کو بھی ضبط کرلیا تھا۔ تاہم، پولیس کی اس کاروائی کے بعد بھی، خواتین وہاں سے نہیں ہٹیں، بلکہ بڑی تعداد میں جمع ہوگئیں اور احتجاج جاری رکھا۔ علماء کونسل کے قومی جنرل سکریٹری طاہر مدنی سمیت 20 افراد کو موقع سے گرفتار کیاگیاہے۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ نے بتایا کہ اس معاملے میں علماء کونسل کے فرار لیڈر نورالہدیٰ، مرزا شان عالم اور اسامہ پر 25-25 ہزار روپے  انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔واضح ہوکہ اس قبل اترپردیش میں جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا،ان کے خلاف پولس ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی ہے اور عدالت نے انھیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس سے پہلے اترپردیش پولیس نے میرٹھ میں بھی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر لاٹھی چارج کیاتھا۔گزشتہ ڈیڑھ مہینے کے اندربہت سے لوگوں کی تشدد میں موت بھی ہوچکی ہے۔سب سے زیادہ لوگ فیروزآباد اور بجنورمیں مارے گئے ہیں۔ واضح ہوکہ الہ آباد ہائی کورٹ نے یوپی سرکار اور پولس کو زبردست پھٹکار لگائی ہے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں حملہ کے ذمہ دار پولس والوں کے خلاف کاروائی کا بھی حکم دیا ہے اور جن لوگوں کا نقصان ہوا ہے انھیں ہرجانہ دینے کو بھی کہا ہے مگر پھربھی حکومت کو شرم نہیں آتی۔
ستم گر جب کوئی تازہ ستم ایجاد کرتے ہیں 
تو بہرامتحاں پہلے ہمیں کو یاد کرتے ہیں 
 مسلمانوں کا بائیکاٹ
    بات صرف اتنی نہیں کہ فرقہ وارانہ شہریت قانون کی مخالفت کرنے والے، بھگواوادی حکومت کے نشانے پر ہیں بلکہ اسی کے ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے مسلمانوں کے بائیکاٹ کی تحریک بھی چل رہی ہے۔ٹویٹرپر تو اس کا ٹرینڈ ہی چلا جاتا ہے اور مسلمانوں کو سبق سکھانے کی بات کی جاتی ہے مگر مودی۔ شاہ کے گجرات میں تو باقاعدہ مسلمانوں کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا گیا ہے اور پولس کا کہنا ہے کہ اسے کچھ بھی نہیں پتہ۔ گجرات کے کچھ علاقوں میں گزشتہ دنوں مسلمان تاجروں کے بائیکاٹ کی تحریک چلی۔ آرایس ایس اور سنگھی جماعتوں کے لوگوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے ہندووں میں ایسے پیغامات تقسیم کئے جن میں مسلمان تاجروں کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی تھی۔واضح ہوکہ گزشتہ29جنوری کو شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کے خلاف ملک گیر بندکی کچھ تنظیموں نے پکار دی تھی۔ اس بند میں گجرات کے علاقہ کچھ کے لوگوں نے بھی حصہ لیا جن میں بڑی تعداد مسلمانوں کی تھی۔ ہڑتال  کے دو دن بعد، سوشل میڈیا پر ان اداروں اور تاجروں کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی جو اس میں شامل ہوئے تھے۔ایسی اپیلیں سی اے اے کی حمایت کرنے والے متعدد سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے کی گئیں۔انہوں نے 29 جنوری کو بند میں شامل ہونے والے تاجروں کو ”ملک دشمن“ قرار دیتے ہوئے لوگوں کو ان کی دکانوں سے سامان کی خریداری بند کرنے کو کہا گیا تھا۔اپنی ابتدائی پوسٹوں میں، سی اے اے کے حامی افراد نے ہڑتال کی کال کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے والے اداروں یا دکانداروں کی تصاویر پوسٹ کیں۔ تاہم، بعد میں دوسرے حامیوں نے بائیکاٹ پر زور دیتے ہوئے دکان مالکان کے ناموں کے ساتھ مزید تصاویر لگا کر اس طرح کے اداروں کی فہرست کو اپ ڈیٹ کرنا شروع کیا۔ان پوسٹوں میں کہا گیا کہ یہ لوگ تو غدار ہیں۔ ہمیں ان کا بائیکاٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ ریستوران ہندوؤں کے خلاف بند ہیں، لہٰذا ہمیں ہمیشہ کے لئے ان میں کھانا بند کردینا چاہئے۔
پُرامن جدوجہد کا راستہ اپنائیں 
    کیا پولس اور حکومت کے مظالم، مسلمانوں کے سوشل بائیکاٹ کے اعلانات، ہندوستان کے مسلمانوں، سکھوں اور انصاف پسند ہندووں کو غیرمنصفانہ شہریت قانون کی مخالفت سے روک سکتے ہیں؟بھارت میں پہلے ایسا کوئی قانون نہیں بناجو لوگوں سے مذہب کی بنیاد پر بھید بھاؤ کرتا ہو۔اگر آج ایسا قانون آیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے ایام میں ایسے قوانین کے لئے راستہ کھل جائے گا۔ اگر مستقبل میں کوئی ایسا قانون آئے جس میں کہا جائے کہ حکومت مسلم محلوں میں سڑک کی تعمیر نہیں کرائے گی، پانی، بجلی کی سہولت نہیں دے گی، صرف ہندووں کو تمام بنیادی سہولیات فراہم کی جائینگی تو کسی کو حیرت نہیں ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ بھگواپریوار کے نظریات کا حصہ ہے مسلم دشمنی۔ ایسے میں بھارت کے کروڑوں مسلمانوں، سکھوں، بدھسٹوں اور انصاف پسند ہندووں کے سامنے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ وہ اپنے وجوداور ہندوستان کی سالمیت اور وحدت کو بچانے کے لئے ایک بارپھرپُرامن جدجہد کا راستہ اپنائیں۔ وہ راستہ جو گوڈسے کا نہیں گاندھی کا راستہ ہے۔شہریت قانون کے خلاف جنگ لڑنے والوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ وہ اہنساکے مارگ کو اپنائیں اور ملک کو تقسیم کرنے والی طاقتوں کو کسی حال میں کامیاب نہ ہونے دیں۔ہمیں یقین ہے کہ ہمارے ملک کے حکمراں کسی بھی حال میں ’راج دھرم‘ نہیں نبھائیں گے اور تقسیم کی سیاست سے باز نہیں آئینگے کیونکہ یہی ان کی سیاسی پونجی ہے مگر ہمیں بھی اپنے ملک اور اس کے آئین کو بچانے کی کوشش سے باز نہیں آنا چاہئے۔
ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہرا
خامشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح
مضمون نگار کی رائے سے اداہ رکا متفق ہوناضروری نہیں ہے 
25فروری2020

  
 

«
»

امن و اتحاد ہی سے ہندوتو کا بیڑا غرق ہوسکتا ہے

شاہین باغ کا پرچم ابھی جھکنا نہیں چاہیے…

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے