تحریر:جاوید اختر بھارتی
بنکروں کی ہڑتال اختلافات کا شکار ہو گئی غریب مزدور بنکروں کی حالت انتہائی تشویشناک ہو گئی بھکمری کے دہانے پر کھڑا بنکر خون کے آنسو رو رہا ہے اترپردیش کی موجودہ حکومت کے کانوں پر جوں تو رینگی لیکن مسائل کا تصفیہ نہیں ہوسکا
ہڑتال کے دوران پورے صوبے سے اعلیٰ حکام کے ذریعے وزیر اعلیٰ اترپردیش کے نام میمورنڈم دئیے جانے کا سلسلہ بھی جاری تھا جو فی الحال تھم گیا –
جس میں غیر معینہ مدت کی ہڑتال پاور لوم کی بندی کا ذکر رہتا تھا ، بجلی محکمہ کے ذریعے کئے جارہے بنکروں پر استحصال کا بھی ذکر رہتا تھا، ساتھ ہی ستمبر میں حکومت اور بنکر نمائندگان کے مابین ہونے والی بات چیت کا بھی ذکر رہتا تھا اور بنکروں کی موجودہ صورتحال کا بھی ذکر رہتا تھا
حکومت کی وعدہ خلافی کا بھی ذکر رہتا تھا اور سب کے بعد فلیٹ ریٹ پر بجلی کی سہولت کو بحال کرنے کا پرزور مطالبہ بھی رہتا تھا اس لئے کہ فی الحال سارا مسئلہ بجلی کا فلیٹ ریٹ ختم کئے جانے کی ہی وجہ سے پیدا ہوا تھا اور وہ سنگین مسئلہ ابھی بھی برقرار ہے –
یہ ہر بنکر کو احساس تھا کہ اگر آج پاورلوم ہم مکمل طور پر بند نہیں کریں گے تو آگے چل کر دو تین ماہ میں چھوٹے بنکروں کے پاورلوم خود بخود بند ہوجائیں گے اور آج وہ دن آگیا کہ پاور لوم بند ہونے لگے ہاں لوم بکنا باقی ہے لیکن جب بند ہو جائے گا تو بکنے میں کتنی دیر لگے گی اور یہ پشتینی پیشہ برباد ہوجائے گا اور کپڑے کی یہ گھریلو صنعت ختم ہوجائے گی اسی لیے اترپردیش
میں بنکروں نے اپنے پاورلوم کو 15 اکتوبر سے بند کیا ہوا تھا اور دیگر طبقے کے لوگوں نے بھی حمایت کرنا شروع کردیا تھا اور بنکر تحریک میں شامل ہونے لگے تھے لیکن کچھ مخصوص بنکر لیڈران یاتو حکومت سے ڈر رہے تھے یا پھر برسر اقتدار پارٹی میں شمولیت کی راہ ہموار کررہے تھے اور یہ بار بار کہا جارہا تھا کہ اگر بنکروں کی تحریک فلاپ ہوئی تو وہی لیڈران اس کے ذمہ دار ہوں گے وہ دن بھی آیا کہ حکومت نے بنکر نمائندوں کو بلایا لیکن اس میں کچھ ایسے تھے جو پہلے سے ہی تحریک کے مخالف تھے اور انہوں نے حکومت سے ایسا سمجھوتہ کیا کہ بنکروں کی رہی سہی کسر بھی پوری کردی اور سانس کی ڈوری ٹوٹنے کا راستہ تیار کردیا
– ایک طرف بنکر نمائندگان بھوکے پیاسے تحریک و ہڑتال کی کامیابی کے لیے دن رات ایک کئے ہوئے تھے
تو دوسری طرف طرف بنکروں میں سب نہیں لیکن کچھ ایسے ہیں جو بنکر ہڑتال کو توڑنے توڑوانے پر تلے ہوئے تھے اور وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے جبکہ غریب بنکروں کی حالت بگڑ تی جا رہی ہے اب کس سے لڑا جائے حکومت سے یا تحریک کو کچلنے کی کوشش کرنے والوں سے
غریب بنکروں کی آنکھوں میں خون کے آنسو نظر آتے ہیں،، اور تحریک فلاپ ہونے کا انجام کیا ہوگا اس کے اثرات بھی پہلے ہی نظر ارہے تھے ضرورت اس بات کی ہے کہ بنکر اب سے اپنے مستقبل کے بارے میں غور کرے کیونکہ آنے والا وقت بہت خراب ہوسکتا ہے جو لوگ آج خود اپنے سماج سے بغاوت پر آمادہ ہیں اور خود اپنی ہی تحریک کو کمزور کررہے ہیں آنے والے وقت میں کون ان کی لڑائی لڑےگا جبکہ آج ساری سیاسی پارٹیاں خاموش ہیں شائد وہ اسی کو 2022 میں مدعا بنانے کی فکر میں ہیں تب تک تو بنکروں کی صنعت پوری طرح دم توڑ دے گی
مگر بنکر سماج میں جو سرکاری دلال ہیں انہیں بنکر سماج کی فکر نہیں ہے اور وہ اپنی واہ واہی و پہچان بنانے کی فکر میں پورے سماج کو نقصان پہنچانے میں اب بھی لگے ہوئے ہیں جبکہ خود ان کی بھی حالت اتنی ہی خراب ہے جتنی عام مزدور بنکروں کی ہے سب کچھ دیکھنے کے بعد یہی احساس ہوتا ہے اور اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ آخر بنکروں کا انجام کیا ہوگا آج اشیاء خورد ونوش میں زیادہ تر ایسی چیزیں ہیں جو پوری رات جاگ کر محنت کرنے کے بعد اسے ایک کلو حاصل کرنے کی قیمت ادا کرنے بھر بھی مزدوری نہیں ملتی اب اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بنکروں کا اور ان کے بچوں کا مستقبل تباہ ہونے سے کیسے بچے گا کاش اب سے بنکروں کو سمجھ اجاتی کسان تحریک سے سبق حاصل کرتے، ان کے جیسا اتحاد قائم کرتے اور
پورا سماج متحد ہوجاتا تاکہ پھر سے بنکر تحریک چلتی اور کامیاب ہوجاتی، فلیٹ ریٹ کا مطالبہ پورا ہوجاتا گھریلو صنعت بھی تباہ ہونے سے بچ جاتی اب دیکھنا ہے آگے کیا ہوتا ہے فی الحال تو بنکروں کے اندر، بنکر نمائندوں کے اندر خاموشی ہے، مایوسی ہے اور غریب بنکروں کی حالت اب انتہائی بدتر ہوچکی ہے واقعی ان کا حال اب ناقابل بیان ہوتا جا رہا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ بنکروں کا مطالبہ کب پورا ہوتا ہے چیکنگ کے نام پر بھی بنکروں کے اندر دہشت اور خوف نظر آتا ہے حکومت بنکروں کے مسائل کو اسی طرح نظر انداز کرتی رہی تو بنکروں کی یہ گھریلو صنعت بھی ختم ہو جائے گی جیسے دیگر بہت سے چھوٹی چھوٹی صنعتیں ختم ہوگئیں –
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں