بوڑھے والدین،معمر افراد اور اسلامی تعلیمات

 

 

تحریر وزیر احمد مصباحی (بانکا)

       fik_یہ بات ہمیں سمجھ لینی چاہیے کہ بوڑھے افراد کو بھی زندگی کو بھرپور طریقے سے جینے کا اتنا ہی حق ہے جتنا ہم سب کو

                ___موجِ خیال___

 

     مذہب اسلام، وہ آفاقی اور صفاتِ وسعت و ہمہ گیری سے مزین مذہب ہے جس میں زندگی گزارنے کے تمام تر طریقے اور انسانی ضرورتوں کی تکمیل کی مکمل تفصیلات نظر آتی ہیں۔ایک انسان کو اپنی زندگی میں جس چیز کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور اس کی تکمیل میں جس چیز کی بھی حاجت ہوتی ہے،اس کی ساری حسنِ وضاحت شریعت اسلامیہ میں مرقوم ہیں۔ ہاں! اگر آپ بھی ان حقیقتوں کا عرفان چاہتے ہیں تو پھر کتب و تاریخ کے صفحات پلٹنے پڑیں گے‌۔

       آج ہمارے معاشرے میں رحم و کرم کی مثال بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔اپنے چھوٹوں پر رحم و کرم اور بزرگوں و معمر افراد سے کس خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنا ہے؟ یہ ساری  چیزیں بالکل مفقود ہوتی نظر آتی ہیں۔اس وقت اس قوم کا،جسے دوسروں کے ساتھ بھلائی اور رحم‌و کرم کی تلقین کی گئی ہو،اس بیماری میں جوجھنا واقعی قابل رحم ہے۔وہ کون سے اخلاقی انحطاط کے واقعات ہیں جو مسلم سماج و معاشرے میں دیکھنے کو نہیں ملتی ہیں۔

      ابھی چند روز قبل ہی کی بات ہے۔ایک معمر شخص،جو اپنی بیساکھی کے سہارے کسی طرح زمین پر پاؤں رکھ پاتا ہے،اس کی آنکھ کی روشنی جواب دے گئی ہے،زبان میں دانت نہیں ہے،چہروں پر جھریوں کا قبضہ ہے،جسم سے متصل پھٹے پرانے لباس اپنی غریبی پہ ماتم کناں ہے اور اب انسانی اندازے کے مطابق اس کی زندگی کے گنے چنے چند ہی ایام باقی رہ گیے ہیں،ہانپتے کانپتے اور روتے بلکتے ایک صاحب کے پاس آتا ہے اور پھر اپنی داستان غم یکلخت بیان ہی کرتا چلا جاتا ہے،زبان بڑی مشکل سے یہ بیان کر پاتا ہے کہ : 

       "میں نے دس دن سے کھانا نہیں کھایا ہے،میری بیٹی اور بیٹا کے ساتھ میرا پوتا تک بھی مجھے برا بھلا کہتا ہیں، وہ مجھے قدم قدم پر طعنے دیا کرتے ہیں اور میری ضرورت تئیں فکر مند بھی نہیں رہتے ہیں_____بھلا بتائیں! کیا میں نے ان سب کے لیے اپنی پوری زندگی اسی لیے وقف کر دی تھی کہ وہ میرا سہارا بننے کے بجائے بار بار طعنے دیا کریں"۔

       قارئین! متذکرہ بالا گفتگو کی روشنی میں آپ اس بات کا درست اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آج ہمارا اخلاقی اقدار اس قدر متعفن ہو چکا ہے۔یہ تو ایک مثال ہے، ورنہ تو اس کے علاوہ نہ جانے کتنی جگہیں ہیں اور کہاں کہاں لوگ اپنے بوڑھے والدین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے ہوں گے اور انھیںOld House کا راستہ دکھاتے ہوں گے۔یقینا آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں اس بیماری اور اخلاقی پسماندگی کا علاج کریں۔آپ سیرت رسول اکرم ﷺ کا مطالعہ کریں تو یہ بات آپ پر ضرور واشگاف ہو جائے گی کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معمر اور ضعیف افراد کے ساتھ خوش اخلاقی کا حکم صادر فرمایا ہیں۔اس حوالے سے قرآن پاک کی آیات کریمہ بھی شاہد عدل ہے،جس کا مفہوم یہ ہے کہ " تم ان دونوں کو اف تک نہ کہو"۔ چہ جائے کہ آپ انھیں ماریں پیٹیں۔

       فتح مکہ کا واقعہ ہے کہ آقا کریم ﷺ کی بارگاہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دامن اسلام سے وابستہ کرانے کے لیے اپنے والد گرامی کو ساتھ لے کر حاضر ہوئے۔یہ دیکھ کر آپ ﷺ نے فرمایا کہ : تم اپنے بوڑھے باپ کو گھر میں ہی کیوں نہ رہنے دیا میں خود چل کر ان کے پاس آ جاتا "۔ (مفہوماً،مسند احمد،رقم الحدیث ٢٨٠٠١)

     قارئین! یہاں مقام غور ہے کہ ایک عظیم قائد جو شہر مکہ میں فاتحانہ شان وشوکت کے ساتھ داخل ہوا ہے۔ان کی بارگاہ میں، ایک عمر رسیدہ شخص جو دس سال سے زائد عرصہ سے ان کے حکم کی نافرمانی کر رہا ہے،حاضر ہوتا ہے تو آپ اس کے ساتھ کس قدر رحم و کرم اور اخلاقی بلندی کا مظاہرہ فرماتے ہیں۔کیا ہمارے لیے اس فعل میں درس عبرت نہیں ہے کہ ہم بھی اپنے آقا ﷺ کی پیروی کریں اور اپنے سے معمر اشخاص کے ساتھ حسن عمل کا مظاہرہ کریں۔ یقیناً ایک عمر رسیدہ شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی بقیہ زندگی مصائب و آلام اور مشقتوں سے دور ہوکر بالکل ہنسی خوشی کے ساتھ گزارے،وہ اپنے بال بچوں اور خویش و اقارب کی توجہات کا طالب ہوتا ہے۔ ہمیں یہ بات ضرور یاد رہنی چاہیے کہ بوڑھے افراد کو بھی زندگی کو بھرپور طریقے سےجینے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ ہم لوگوں کو۔ آقا کریم ﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ: " جو چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کی تعظیم نہ کرے وہ ہمارے طریقے پر نہیں"۔دراصل ایک موقع پر ایک عمر رسیدہ شخص آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر آیا تو وہاں مجلس میں موجود افراد نے ان کے لیے جگہ کشادہ نہیں کی، اس پر آپ ﷺ نے مذکورہ جملہ ارشاد فرماکر بڑوں کی تعظیم اور چھوٹوں پر شفقت فرمانے کا سنہرا درس دیا کہ یہ مومن کے اخلاق کا جزو لازم ہونا چاہیے۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص آپ ﷺ کی بارگاہ میں ہجرت پر بیعت کرنے کے لیے آیا تو ان کے والدین رونے لگے، اس شخص نے جب اس معاملے سے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ فرمایا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: "گھر واپس جاؤ اور جس طرح تم نے اپنے والد کو رلایا ہے،انھیں ہنساؤ"۔

       صاحبو!!! متذکرہ بالا تمام باتوں سے یہی مفہوم کشید ہوتا ہے کہ ہم اپنے والدین اور معاشرے کے بڑے بزرگوں کی تعظیم کریں، انھیں ہنسی خوشی زندگی گذارنے کے مواقع فراہم کریں، کوئی تکلیف نہ پہنچائیں، کبر سنی میں انھیں (Old House) پہنچا کر اور مہینہ دس دن میں ملاقات کرکے اپنے آپ کو ذمہ داری سے سبکدوش نہ جانیں۔بلکہ انھیں گھر پہ ہی رکھیں، خوب خدمت کریں، ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھیں، دنیا  ہی میں جنت کمائیں اور سب سے بڑی بات جو ہے وہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو نبی اکرم ﷺ کا فرمان بنا کر معاشرے میں ایک وفادار امتی ہونے کا ثبوت فراہم کریں تا کہ ہمارا گھر اور معاشرہ دونوں امن و آشتی کا گہوارہ بن جائیں۔ اللہ کریم توفیق خیر سے نوازے۔ (آمین یارب العالمین)

«
»

گودی میڈیااورصحافت کے عصری تقاضے

اے صاحب ایمان ! تیری سادگی پہ رونا آیا !!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے