ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
سال گزشتہ کی طرح امسال کے بجٹ کی سرکاری اداروں اور برسراقتدار جماعت کے ممبران نے خوب تعریف کی ہے۔ وزیراعظم نے تو اسے آتم نربھر بھارت بنانے والا تک بتایا ہے۔ جبکہ اپوزیشن اور ماہرین اقتصادیات نے اسے قومی اثاثوں کو بیچنے یا ملک کو نجی ہاتھوں میں سونپنے کا اعلان بتایا ہے۔ یہ بجٹ ایسے وقت آیا ہے جب ملک کی مجموعی پیداوار(جی ڈی پی) نفی میں 7.7 فیصد ہے۔ مالیاتی خسارے کے 3.5 سے بڑھ کر 9.5 فیصد ہو سکتا ہے۔ خزانہ خالی ہے، بینک خسارے میں ہیں، مہاجر مزدور لاچاری میں گھروں میں بیٹھے ہیں۔ بے روزگاری اور مہنگائی انتہا پر ہے۔ سرحد پر چین سے تنازعہ چل رہا ہے۔ جس کی وجہ سے اس پر اقتصادی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ اس کا اثر بھارت کے کاروباریوں پر پڑ رہا ہے۔ ان سب کے بیچ ہزاروں کسان ملک کی راجدھانی دہلی کی سرحدوں پر دو ماہ سے زیادہ وقت سے بیٹھے ہیں۔ سرکار کے اڑیل رویہ اور کسانوں کے احتجاج کو ختم کرانے کے اپنائے جانے والے نت نئے اقدامات سے کسان ناراض ہیں اور ان کا حکومت میں اعتماد کم ہوا ہے۔
یہ مانا جا رہا تھا کہ موجودہ بجٹ میں عوام کی پریشانیوں اور کووڈ کے دوران پیدا ہوئے مسائل کو سامنے رکھا جائے گا۔ مہنگائی کم کرنے اور منظم و غیر منظم زمرہ میں روزگار بڑھانے پر توجہ دی جائے گی۔ تعلیم اور صحت پر زیادہ خرچ کا التزام کیا جائے گا۔ کسانوں اور مزدوروں کے مسائل کو اس میں جگہ ملے گی۔ متوسط طبقہ کو ٹیکس میں چھوٹ اور عام آدمی کو راحت پہنچانے کے لئے قدم اٹھائے جائیں گے۔ کیوں کہ کورونا کے دوران 6.5 کروڑ کی مستقل نوکری گئی ہے۔ اس میں اگر غیر منظم زمرے کو جوڑ دیا جائے تو قریب 38 کروڑ لوگوں کے سامنے روزگار کا مسئلہ ہے۔ اسی طرح ملک کی 72 کروڑ آبادی کھیتی پر منحصر ہے۔ ایک ہیکٹر سے بھی کم زمین رکھنے والے چھوٹے و معمولی کسانوں کی تعداد 12.5 کروڑ ہے۔ مگر سرکاری اسکیموں کا فائدہ صرف 1.5 کروڑ کسانوں تک ہی پہنچتا ہے۔ کسان کی آمدنی میں گزشتہ چھ سال میں دو سے ڈھائی فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ پارلیمنٹ میں بیٹھے لیڈران کی آمدنی 180 فیصد اور دس بڑے کارپوریٹ کی نیٹ ورتھ میں 35 فیصد کی بڑھوتری ہوئی ہے۔ لیکن کسان کی آمدنی 5500 روپے یعنی من ریگا مزدور سے بھی کم ہے۔ اس کی وجہ کھیتی کی لاگت میں اضافہ اور فصل کا واجب دام نہ ملنا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف 27 فیصد کھیتی کی زمین پر آب پاشی کی سہولت موجود ہے۔ باقی زمین کھیتی کیلئے بارش کی محتاج ہے۔ کسانوں کو آب پاشی کیلئے زیر زمین پانی کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ جسے نکالنے کیلئے وہ بجلی یا پھر مہنگے ڈیزل پر منحصر رہتے ہیں۔
بجٹ میں زراعت کو مضبوط کرنے کے بجائے ہائی وے اور سڑک پروجیکٹ پر زور ہے۔ چھ ہزار کلومیٹر سڑکیں ان پانچ ریاستوں میں بنانے کا ذکر کیا گیا ہے جہاں آنے والے دنوں میں الیکشن ہونے والے ہیں۔ اس کیلئے 5.5 لاکھ ہیکٹر کھیتی کی زمین کی ضرورت ہوگی۔ اس سے قبل 12 لاکھ ہیکٹر کھیتی کی زمین جن پروجیکٹ کیلئے دی گئی تھی، وہ ابھی تک پورے نہیں ہو سکے ہیں۔ تحویل میں لینے کیلئے کچھ زمینوں کا تو معاوضہ بھی نہیں دیا جا سکا ہے۔ دہلی ممبئی انڈسٹریل کوریڈور قریب ڈھائی ہزار گاو ¿ں سے ہو کر گزرنے والا ہے۔ اس کی زد بھی کسانوں پر پڑے گی، کسانوں کا بجٹ دس ہزار کروڑ روپے کم کرکے 65 ہزار کروڑ روپے کم کر دیا گیا ہے۔ جبکہ پیٹرول ڈیزل میں ایکسائز ڈیوٹی کم کرکے کسان سیس لگانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ مانا یہ جا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں پیٹرول ڈیزل اور مہنگا ہوگا۔
موجودہ حکومت نے اس وقت بھی پیٹرول ڈیزل کی قیمت کم نہیں کی جب بین الاقوامی بازار میں کچے تیل کے دام سب سے نچلی سطح پر تھے۔ کہا یہ گیا کہ زیادہ قیمت وصول کرکے حکومت بفر تیار کر رہی ہے تاکہ تیل مہنگا ہونے پر قیمت نہ بڑھانی پڑے۔ سرکار کا یہ دعویٰ جملہ ثابت ہوا، عوام کو مجبوراً مہنگا پیٹرول ڈیزل خریدنا پڑ رہا ہے۔ اس سرکار نے گزشتہ چھ سالوں میں ایک بھی پی ایس یو نہیں بنایا۔ بلکہ ڈس انویسٹمنٹ کے نام پر صرف ملک کے اثاثوں کو بیچا ہے۔ پچھلے سال ڈس انویسٹمنٹ کے ذریعہ دو لاکھ دس ہزار کروڑ روپے حاصل کرنے کا ٹارگیٹ رکھا گیا تھا۔ لیکن یکم فروری تک حکومت کو صرف 19 ہزار 4 سو 99 کروڑ روپے ہی مل سکے۔ ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکس کی وصولی بھی کم ہوئی۔ موجودہ بجٹ میں ڈس انوسٹمنٹ سے ایک لاکھ 75 ہزار کروڑ روپے حاصل کرنے کا ٹارگیٹ رکھا گیا ہے۔ اب حکومت ائیرپورٹ، روڈ، الیکٹرک ٹرانسمیشن لائن، ریل، اسٹیڈیم، ویئر ہاو ¿س جس میں زرعی پیداوار کو رکھنے کیلئے بنے گوڈاو ¿ن بھی شامل ہیں، کو حکومت پرائیویٹ سیکٹر کو سونپنے کو تیار ہے۔ یہاں تک کہ گیل، انڈین آئیل کی پائپ لائن اور ایل آئی سی آف انڈیا جیسی فائدہ دینے والی کمپنیوں میں بھی نجی حصہ داری دینا چاہتی ہے۔ پانچ نیشنل ہائی وے، ٹول ناکے بھی حکومت بیچنے کو تیار ہے۔ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ بحرانی کیفیت میں پبلک سیکٹر ہی معیشت کو تھامے رکھنے میں کام آتا ہے۔ اگر اسے بیچ دیا یا پرائیویٹ کمپنیوں کے حوالے کر دیا گیا تو پھر پریشانی میں پبلک سیکٹر ملک کی مدد کر سکے گا۔ اندھا دھند نجی کرن پر سوال اٹھ بھی رہے ہیں لیکن سرکار اس کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتی۔
ہیلتھ بجٹ کو لے کر اس بار بہت شور ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس میں 137 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے سال ہیلتھ کا بجٹ 94 ہزار کروڑ روپے تھا جو اس سال بڑھا کر 223823 کروڑ کر دیا گیا ہے۔ اس کے اندر گھس کر دیکھنے سے معلوم ہوا کہ وزیراعظم آتم نربھر سواستھ یوجنا کے تحت آنے والی نئی بیماریوں کے علاج کیلئے 64180 کروڑ اور کورونا ویکسین کیلئے 35000 کروڑ مختص کئے گئے ہیں۔ 64180 کروڑ روپے آنے والے چھ سال میں خرچ کئے جائیں گے۔ ایک سال میں صرف 10696 کروڑ روپے۔ یعنی ہر دن 29 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ 29 کروڑ یومیہ کا خرچ ایک سو تیس کروڑ کی آبادی کا کتنا بھلا کر پائے گا اس اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ نظر ثانی کے بعد جو فائنل بجٹ آئے گا، اس سے معلوم ہوگا کہ اس دو لاکھ تیس کروڑ کے ہیلتھ بجٹ میں اور کیا کیا شامل کیا گیا ہے۔
بجٹ میں بینکوں کی صحت 20 ہزار کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اس رقم کو سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم نے بہت کم بتایا ہے۔ بینک این پی اے کے بوجھ سے دب رہے ہیں۔ بجٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر بینک ڈوبتا ہے تو پانچ لاکھ روپے مل جائیں گے۔ پہلے ریزروبینک صرف ایک لاکھ روپے ادا کرنے کا ذمہ دار تھا۔ مگر سرکار اس وقت یہ کہنے کی حالت میں نہیں ہے کہ بینک نہیں ڈوبیں گے۔ آئی ڈی بی آئی بینک بکنے یا نجی حصہ داری کیلئے تیار ہے۔ بینکوں کے بارے میں حکومت نے اپنی منشاء صاف کر دی ہے کہ یا تو بینکوں کو آپس میں ملا دیا جائے گا یا پھر انہیں پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کر دیا جائے گا۔ سرکاری اراضی بھی فروخت کی جائے گی۔ شہروں میں 20 ہزار پرائیویٹ بسیں پی پی پی ماڈل کے تحت چلائی جائیں گی۔ اس کا سرکاری ٹرانسپورٹ پر کیا اثر ہوگا،یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ بیس سال پرانی پرائیویٹ اور پندرہ سال پرانی کمرشیل گاڑیوں کو اسکریپ میں بیچنا ہوگا۔ مرکزی وزیر ٹرانسپورٹ نتن گڈگری نے ایسی گاڑیوں کی تعداد ایک کروڑ بتائی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ پرانی گاڑیوں کے ہٹنے سے کار کمپنیوں کو فائدہ ہوگا۔
ہوٹل انڈسٹری، ٹورزم، مہارت کی ترقی، مینوفیکچرنگ اور تعلیم کو بڑھاوا دینے پر بجٹ میں خاص توجہ دی جانی چاہئے تھی لیکن بجٹ میں غیر سرکاری تنظیموں، نجی اسکولوں اور ریاست کی حصہ داری میں 100 سینک اسکول بنانے کی بات کی گئی ہے۔ انکم ٹیکس کے سلیب میں تو کوئی تبدیلی نہیں آئی البتہ جن کمپنیوں کی آمدنی پانچ لاکھ سے کم ہے،تین سال سے پہلے کی اسکورٹنی نہیں ہو سکتی اور پانچ لاکھ سے زیادہ والوں کی اسکورٹنی دس سال پہلے تک کی ہو سکتی ہے۔ جبکہ پہلے یہ مدت چھ سال تھی۔
بہر حال ایک نظر میں بجٹ کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عام آدمی کو فائدہ پہنچانے کے بجائے پرائیویٹائزیشن کے عام اعلان کا بڑا بجٹ ہے۔ اب یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ حکومت اپنے مقصد میں کامیاب ہوگی یا عام آدمی کی تکلیفوں میں اضافہ ہوگا۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
04فروری2021
جواب دیں