برکس اور اسلامی دنیا

ان ممالک کی مجموعی قومی پیداوار دنیا کی پچیس فیصد ہے۔ جنوبی افریقہ کی شمولیت سے پہلے اس بینک کا مجوزہ نام BRIC تھا۔ ان پانچ ممالک کی مجموعی آبادی تین ارب اور اس کی مجموعی پیداوار 16.39 کھرب ڈالر ہے جبکہ فارن کرنسی کے ذخائر چار کھرب ڈالر سے زیادہ ہیں۔ اس نئے ترقیاتی بینک نے حادثاتی فنڈ بھی قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
برازیل کے شہر فورٹی لیزا میں ممبر ممالک کے رہنماؤں کے اجلاس کے بعد جاری مشترکہ اعلامیہ کے مطابق ابتدائی طور پر ترقیاتی بینک کے لیے سرمایہ کا حجم 100 ارب ڈالر رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سو ارب ڈالر کا ایک ایمرجنسی فنڈ بھی قائم کیا گیا ہے جس میں چین 41 ارب ڈالر بھارت، برازیل اور روس اٹھارہ، اٹھارہ ارب ڈالر اور جنوبی افریقہ پانچ ارب ڈالر کا سرمایہ لگائے گا۔ برکس ترقیاتی بینک کا ہیڈ کواٹر چین کے شہر شنگھائی میں ہوگا۔ ایک علاقائی دفتر جنوبی افریقہ میں بھی ہوگا۔ بینک کا پہلا چیف ایگزیکٹو بھارت سے لیا جائے گا۔ برکس بینک 2016ء4 سے فنڈز کی فراہمی شروع کرے گا۔ اس بینک کے مراکز بتدریج بھارت، روس اور برازیل میں بھی کام شروع کر دیں گے۔ اس بینک کے قیام میں سابق بھارتی وزیراعظم اور ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر من موہن سنگھ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ جون 2009ء4 کو روس میں ہونے والے تاسیسی اجلاس میں شریک تھے۔ اس اجلاس میں انہوں نے ورکنگ پیپر پیش کیا۔ برکس میں شامل ان پانچ ممالک نے جو اقتصادی منصوبہ بندی کی ہے، انتہائی قابل تعریف اور لائق ستائش ہے۔ برازیل کی صدر جیلما روسیف نے کہا کہ اس بینک کا قیام عالمی اقتصادی ڈھانچے کو نئے سرے سے اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہوگا۔ یہ بینک تعمیراتی منصوبوں کو مالی امداد فراہم کرے گا۔
برکس کے ممبر ممالک میں بھارت اور چین دو ایسے ملک ہیں جن کے آپس میں سرحدی تنازعات بھی شدید ہیں۔ ہر طرح کے اختلافات کے باوجود بھی اقتصادی میدان میں فراغ دلانہ تعاون اس بات کی دلیل ہے کہ دونوں ملک عالمی سطح پر بڑا کردار ادا کرنے کے خواہشمند ہیں۔ برکس ترقیاتی بینک کا منصوبہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے لیے یقیناً ایک نمونہ ہے۔ گرچہ کئی ممالک نے اس میں حصہ لینے کی خواہش ظاہر کی ہے، جن میں ارجنٹائن پیش پیش ہے۔ تاہم تنظیم کی جانب سے کہا گیا ہے کہ فی الحال اس کے ممبران کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ برکس میں شامل اختلافات رکھنے والے دونوں ملک بھارت اور چین پاکستان کے ہمسائیہ ہیں، دونوں ممالک میں آزادی اور اصلاحات کا عمل بھی وطن عزیز کے ساتھ ساتھ ہی شروع ہوا، مگر اس تلخ حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ دونوں ممالک (چین، انڈیا) نے تعلیم، انڈسٹری، تجارت، اقتصادیات، معیشت، صحت، دفاع سمیت دیگر میدانوں میں ترقی کی جانب انتہائی سرعت سے سفر کیا ہے جبکہ ان کے مقابلے میں پاکستان تمام تر وسائل، محنتی اور ذہین افرادی قوت رکھنے کے باوجود اندرونی مسائل سے ہی نبرد آزما ہے۔ 
جس وقت دونوں ہمسائیہ ممالک کے رہنماء4 برکس ترقیاتی بینک کے قیام کے مسودے پر دستخط کر رہے تھے اس وقت شمالی وزیرستان میں پاک فوج دہشت گرد کمانڈر عدنان رشید کے خلاف آپریشن کر رہی تھی، جبکہ وزیراعظم اپنے خلاف دھاندلی کے الزامات کو مسترد کر رہے تھے۔ یہ وہی دن تھے جب لاکھوں کی تعداد میں شمالی وزیرستان سے آنیوالے متاثرین امداد کے حصول کے لیے پولیس پر پتھراؤ کر رہے تھے۔ ذاتی شہرت کے لیے میٹروبس پراجیکٹ، یوتھ لون اور لیپ ٹاپ سکیم کی تشہیری مہم دام عروج پر تھی مگر اس کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر قرض، لوڈشیڈنگ، مہنگائی اور روپے کی مسلسل گرتی قیمت کے سامنے پالیسی ساز سرتسلیم خم بھی کر چکے تھے۔ اگر برکس کے ممبر ممالک اور وطن عزیز کے حالات اور ترقی کے مواقع کا جائزہ لیں تو ماضی میں پاکستان کی پوزیشن ان ممبر ممالک کے قریب قریب نظر آتی ہے، جبکہ آج وہی ممالک اپنا (منی آئی ایم ایف) قائم کرچکے ہیں جبکہ پاکستانی معیشت کو ترقی کی شاہراہ پر دوڑانے کے دعویدار آئی ایم ایف کے سامنے کشکول تھامے کھڑے ہیں۔
وہی دوست ملک جس کی دوستی کے دعوے میں ہم ہمالیہ کی بلندی، سمندر کی گہرائی اور شہد کی مٹھاس کو فراموش کرتے ہیں، وہ ایس سی او (جسے مستقبل کی یو این او سمجھا جاتا ہے)، برکس (جسے عالمی اقتصادی اجارہ داری کا توڑ گردانا جا رہا ہے)، کے قیام میں بنیادی کردار ادا کرکے عالمی سطح پر اپنا لوہا منوا رہا ہے، ہم اس دوست ملک کی اصلاحات سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کرسکے۔ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے ہمارے انتہائی اہم منصوبے جنہیں لائف لائن قرار دیا گیا ہے وہ بیرونی آقاؤں کی خوشنودی کی نذر ہوگئے اور ہمیں اس کا رتی برابر احساس تک نہیں۔ معاشی اصلاحات کے لیے سفارشات پیش کرنیوالے تھنک ٹینکس نے یقیناً اس اہم پیشرفت سے متعلق کچھ سفارشات بھی پیش کی ہونگی اور شائد ان کا جواب ہمیشہ کی طرح طویل خاموشی کی صورت میں ہی ملا ہوگا۔ شائد کہ بطور پاکستانی ہمارے لیے یہی بڑی خوشی کی بات ہے کہ بھارت کی انتہائی شدید خواہش کے باوجود بھی برکس ترقیاتی بینک کا صدر دفتر نئی دہلی میں قائم نہیں کیا گیا بلکہ شنگھائی میں قائم کیا گیا ہے۔ چنانچہ اس سے یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ چونکہ اس بینک میں زیادہ سرمایہ چین کا ہے اور صدر دفتر بھی شنگھائی میں ہے تو چین کے پاس یہ قوت اختیار ہوگا کہ کن منصوبوں کے لیے رقم فراہم کی جائے اور کن منصوبوں کے لیے رقم فراہم نہ کی جائے۔

برکس کے قیام سے لیکر کامیابی کے درمیان یہ خیال بھی کیا جا رہا ہے کہ چین اور بھارت کے درمیان تنازعات رفتہ رفتہ حل کی جانب جائیں گے اور بالآخر ختم ہوجائیں گے۔ برکس کے قیام کے بعد یہ بھی امید کی جا رہی ہے کہ چین اور بھارت کے مفادات بھی ٹکراؤ کے بجائے متوازی سمت اختیار کریں گے۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) میں انڈیا اور پاکستان کی شمولیت کے حوالے سے یہ سوالات اٹھائے جا رہے تھے کہ دو روایتی حریف انڈیا اور پاکستان اگر اس تنظیم کے ممبر بنتے ہیں اور تنازعات پر قابو نہیں پاتے تو تنظیم کے وجود کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں، جبکہ برکس میں بھارت اور چین کی شمولیت نے ان اعتراضات کو رد کر دیا ہے۔ چنانچہ پاکستان کو نہ صرف ایس سی او میں بطور رکن شمولیت کے لیے کوشش کرنی چاہیے بلکہ برکس میں بطور رکن نہ سہی مبصر کی حیثیت سے ہی سہی قریب سے مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ بے نظیر انکم سپورٹ، لیپ ٹاپ، یوتھ لون، جیسے منصوبوں میں فنڈز خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ برکس جیسے اداروں میں بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
ایک طرف ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، برکس، جیسے ادارے وجود میں آچکے ہیں، جن کے خالق ممالک کے پاس گنے چنے قدرتی وسائل تھے، مگر ان ممالک نے بہترین حکمت عملی، منصوبہ بندی، اور تعلیم کے بل بوتے پر اپنی توانائی درست سمت میں خرچ کی، جس کے نتیجے میں کچھ نہ ہونے کے باوجود بھی سب کچھ کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ جس کی واضح مثال سوئزرلینڈ کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ دوسری جانب اسلامک ورلڈ کی جانب نظر دوڑائیں تو ہر طرح کے وسائل اور مواقع ہونے کے باوجود دست نگر اور خوفزدہ ہے۔ مسلط حکمران اپنا تخت و تاج بچانے کے لیے وسائل اغیار کی گود میں گروی رکھے ہوئے ہیں تو اہم بین الاقومی معاملات میں ان کا لب و لہجہ فریادی سا ہوجاتا ہے۔ جن مسلم حکمرانوں نے معیشت، دفاع کے حوالے سے مشترکہ منصوبہ بندی کرنے کی کوشش کی، ان سب کو نشان عبرت بنا کر اسلامی دنیا پہ کٹھ پتلی حکمران مسلط کر دیئے گئے۔ اگر مسلم ممالک اسلامک بلاک کے منصوبے پر عمل پیرا ہوکر اسلامک ترقیاتی بینک، اسلامک فورس جیسے منصوبوں میں پیشرفت کرتے تو برکس، آئی ایم ایف، یا ورلڈ بینک کے دست نگر ہونے کے بجائے ان سے زیادہ عالمی کردار ادا کر رہے ہوتے۔ 
زمینی حقائق کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو واحد اسلامک بلاک اس پوزیشن میں نظر آتا ہے کہ اس کے ممبر ممالک کی زمینی سرحدیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں، مگر مقام افسوس ہے کہ دیگر عالمی تنظیمیں جن کے ممبر ممالک کے درمیان کچھ بھی مشترک نہیں، ہر شعبہ زندگی میں تعاون کرکے ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں جبکہ تمام اسلامی ممالک کی سرحدیں غیر محفوظ قرار پاچکی ہیں۔ حال ہی میں خبر آئی ہے کہ سعودی عرب نے عراق سے ملحقہ سرحد پر باڑ، دیوار کی تعمیر شروع کر رکھی ہے اور اپنی افواج تعینات کی ہیں، اسلامی دنیا کا مرکز سمجھے جانیوالے ملک کو خطرہ بھی محسوس ہوا تو فقط داعش سے، جبکہ ہزاروں کی تعداد میں امریکی فوج و ماہرین تمام تر اسلحہ کے ساتھ اسکی سرحدوں کے اندر موجود ہیں، مگر ان سے خطرہ محسوس نہیں ہوا۔ برکس کے قیام کے بعد یہ سوال بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان، ایران، ترکی، سعودی عرب، قطر، کویت، برونائی دارالسلام، متحدہ عرب امارات، ملائیشیا کیوں ایسے اسلامی بینک کی بنیاد نہیں رکھتے جو ورلڈ بینک اور برکس کے متبادل کے طور پر ملت اسلامیہ کے ممالک میں معاشی انقلاب کا سبب سکے۔؟ جو اسلامی دنیا کو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کے چنگل سے آزادی دلاسکے۔؟ یقیناً اگر اس جانب پر خلوص کوشش کی جائے تو ان ممالک کے پاس تمام درکار لوازمات وافر مقدار میں موجود ہیں۔

«
»

’ایروم شرمیلا،انسانیت کے لئے ایک بہترین مثال

سعودیہ کے سرکاری مفتی اعظم کا سرکاری فتویٰ اور اسلامی مزاحمتی تحریکیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے