حالیہ دنوں میں اس تنظیم کے زیر بحث ہونے کی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ ۱۴ اپریل کو اس تنظیم کے رہنماوں نے شمالی صوبے بورنو کے قصبے چیبوک کے گورنمنٹ سیکنڈری گرلز سکول کے ہاسٹل پرحملہ کرکے بارہ تا پندرہ برس کی ۲۵۳ لڑکیوں کا اغوا کرلیا ہے ۔ جس میں سے ۵۰ لڑکیاں بھاگنے میں کامیاب ہوگئیں ہیں ۔انہیں لڑکیوں کے مطابق ۲ سانپ کانٹنے کی وجہ مرگئی ہے اور بقیہ اب تک ان کی قید میں ہیں جنہیں وہ بیچ بھی سکتے ہیں۔اور باندیاں بھی بنا سکتے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد عالمی برادری کا رویہ بوکو حرام کے تئیں انتہائی سخت ہوگیا ہے ۔ اور سونے پے سہاگہ یہ ہوگیا کہ کسی بھی مسلمان ملک کی خاتونِ کو اعتماد میں لیے بغیر امریکہ کی خاتون اول مشیل اوباما نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ گذشتہ مہینے نائجیریا میں سینکڑوں طالبات کا اغوا ان دھمکیوں اور خطرات کا حصہ ہے جن کا سامناحصولِ علم کی کوشش کرنے والی دنیا بھر کی لڑکیوں کو ہے۔پاکستان میں طالبان کے حملے میں زخمی ہونے والی نام نہادطالبہ ملالہ یوسفزئی کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملالہ اور دنیا بھر میں ان جیسی دیگر لڑکیوں کی جرات اور امید عملی اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کی بین الاقوامی سفیر ملالہ یوسف زئی نے اغوا ہونے والیوں کو اپنی بہن قرار دیتے ہوئے یہ کہا کہ کچھ بھی ہوجائے امید کا پرچم مت گرنے دینا۔ادھر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی نائیجریا کے شمال مشرقی علاقے بورنو سے لڑکیوں کے اغوا پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی شدت پسند گروہ بوکوحرام کے خلاف مناسب اقدامات پر غور کیا جا رہا ہے۔خود نائیجریا میں بھی اس کے خلاف احتجاج جاری ہے اور حکومت پر یہ الزام ہے کہ غائب شدہ لڑکیوں تک اب تک رسائی نہ حاصل کرنا حکومت کی سردمہری کا نتیجہ ہے۔
کیا ہے یہ بوکوحرام ؟ کیا اغراض مقاصد ہیں اس تنظیم کے ؟کون لوگ ہیں اس کے بانی ؟کس پس منظر یہ تنظیم منظر عام پر آئی ؟کیا مغربی میڈیا کا یہ کہنا صحیح ہے کہ یہ تنظیم شدت پسند ہے ۔اسلامی تعلیمات کے خلاف یہ حرکتیں کرتی ہیں؟
تقریبا 19ویں صدی کی بات ہے شمالی نائجیریا، نائجر اور جنوبی کیمرون پر سوٹوکو خلافت کی حکومت تھی۔1903 میں برطانیہ نے سوکوٹو خلافت کو شکست دے کر ان علاقوں پر قبضہ کرلیا ۔ اور مسلمانوں کے مذہب و شعار پر حملہ شروع کردیا ۔ طرح طرح کے مظالم ان پر ڈھانے شروع کردئے ہیں ۔مذہبی آزادی پر قدغن لگانا شروع کردیا ۔برٹش کے اس ظالمانہ رویہ کے خلاف مسلمانوں نے زیر زمیں تحریک چلانی شروع کردی ۔انگریزں کے کلچر سے اجتنا کرنے کی مہم چلائی ۔مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ یہ انگریز صرف ہمارے ملک کے دشمن نہیں بلکہ ہمارے شعار ہماری تعلیمات ،ہمارے مذہب ہماری کتاب اور ہماری تہذیب کے دشمن ہے لہذا ان سے نفرت کی جائے ان طرز زندگی اپنانے سے احترازکیا جائے۔یہ تحریک زور پکڑنے لگی خواص سے عام مسلمانوں نے بھی مغربی تعلیم کے خلاف مہم اسی وقت سے شروع کردی ۔اکثر مسلمانوں نے اپنے بچوں کو مغربی طرز کے سرکاری اسکولوں میں پڑھانا بند کردیا۔کچھ دنوں بعد میں ایک مسلم مذہبی عالم محمد یوسف نے میدوگری کے شہر میں سنہ2002 میں بوکوحرام کی بنیاد رکھی۔ اس کا لفظی مطلب ہے ’’مغربی تعلیم حرام ہے،،۔ انھوں نے ایک مسجد بنائی جس کے احاطے میں ایک مدرسہ بھی قائم کیا۔نائجیریا اور ہمسایہ ممالک کے بہت سے7 غریب خاندانوں نے اپنے بچوں کو اس مدرسے میں بھیجنا شروع کر دیا۔ بوکوحرام کی دلچسپی صرف تعلیم تک محدود نہیں تھی۔ ان کا سیاسی ہد ف بھی تھا وہ ایک اسلامی ریاست کا قیام بھی چاہتے تھے ۔ اس لئے اس مدرسے میں حکومت کے خلاف لڑنے کے لئے جہاد کی بھی ٹرینیگ دینے کاسلسلہ شروع کیا گیا ۔سنہ 2009 میں بوکوحرام نے میدوگری میں پولیس سٹیشنوں اور سرکاری عمارتوں پر حملے کیے اور اس شہر میں ہنگامے ہونے لگے۔ بوکوحرام کے سینکڑوں حمایتی ہلاک ہوئے جبکہ ہزاروں شہری شہر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔بوکو حرام نائجیریا کے شہری علاقوں پر بھی حملوں میں ملوث رہی ہے ۔ حکومتی فورسز نے بالآخر بوکوحرام کے مرکزی دفاتر پر قبضہ کر کے اس کے جنگجوؤں کو گرفتار کر لیا، جبکہ محمد یوسف ہلاک کر دیے گئے۔ اس موقعے پرحکومت نے بوکوحرام کے خاتمے کا بھی اعلان کر دیا۔لیکن بوکوحرام کے جنگجو جلد ہی ایک نئے سربراہ ابوبکر شیکاؤ کے جھنڈے تلے ا کٹھے ہو گئے۔ سنہ 2010 میں انھوں نے میدوگری میں ایک سرکاری جیل پر حملہ کر کے اپنے سینکڑوں ساتھیوں کو رہا کروا لیا۔ابوبکر شیکاؤ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک تنہائی پسند اور نڈرانسان ہیں اور پیچیدہ شخصیت کے مالک ہیں۔گذشتہ دنوں طالبات کے اغوا کے بعد ابوبکر شیکاؤ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بھیجی جانے والی ایک ویڈیو میں سینکڑوں طالبات کو اغوا کرنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ لڑکیوں کو اسکول جانا ہی نہیں چاہیے، اوراسکول بھیجنے کی بجائے ان کی شادیاں کروا دینی چاہئے ۔بوکوحرام کا ہاؤس زبان میں مطلب ہے مغربی تعلیم ممنوع ہے ۔
بوکوحرام تنظیم کے بارے میں بی بی سی نے لکھا ہے کہ اس نے چھوٹے پیمانے پر اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا جس میں حملے کر کے فرار ہونا شامل تھا۔ اپنے مخالفین کو سفاک انداز میں ہلاک کرنے کی زیادہ تر کارروائیوں میں موٹر سائیکل کا استعمال کیا جاتا تھا۔ان کارروائیوں میں ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر لوگ نمایاں اسلامی رہنماشامل تھے۔ جب یہ گروپ زیادہ بے خوف ہوا تو اس نے گرجا گھروں، پولیس، فوجاور نیم فوجی دستوں سمیت قانون نافذکرنے والے اداروں کے اہلکاروں پرحملے کرنا شروع کر دیے۔اس نے بڑے حملوں میں نائجیریا کے دارالحکومت ابوجا میں اقوام متحدہ کے دفتر اور وفاقی پولیس کے مرکزی دفتر کو نشانہ بنایا۔بوکوحرام تنظیم نے شما لی نائجیریامیں پولیس کے متعدد تھانوں اور فوجی بیرکوں پر حملے کیے اور وہاں سے ہتھیار، گاڑیاں اور وردیاں لوٹ کر لے گئے۔ لوٹی گئیں گاڑیوں اور وردیوں سے اس کے کارکنوں نے بھیس بدل کر اورزیادہ تباہی پھیلائی۔ اس کے علاوہ انھوں نے کئی بینکوں پر حملے کیے اوران میں سے بعض دن دیہاڑے کیے گئے۔ کئی بینکوں سے لاکھوں نائرا )مقامی کرنسی( لوٹے جانے کی اطلاعات بھی ملیں۔ اس کے بعد فوج نے مقامی نوجوانوں کی مدد سے میدوگری کے علاقے سے بوکوحرام کی محفوظ پناہ کو ختم کر دیا۔نوجوانوں کی اس مقبول ٹیم کو اب سویلین جوائنٹ فورس کہا جاتا ہے۔بوکوحرام نے اس نقصان کے بعد مسلمانوں اور عیسائیوں سمیت عام شہریوں کونقصان پہنچانے پر توجہ مرکوز کر لی۔ اس نے کئی دیہات کو نذرِ آتش کر دیااور اس میں 15 سو کے قریب لوگ مارے گئے۔اس کے علاوہ ان حملوں میں سکولوں کو بھی نشانہ بنایا گیا لیکن ان حملوں میں صرف طلبہ کو ہلاک کیا جاتا اور طالبات کو چھوڑ دیا جاتا تھا، لیکن اب حال ہی میں بوکو حرام نے طالبات کو اغوا کرنا شروع کر دیا ہے۔ ۔ابھی تک نائجیریا کی حکومت ان طالبات کو تلاش نہیں کر سکی ہے۔ اس سے پہلے7 تنظیم کے رہنماؤں نے حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے ان کی خواتین کو بغیر عدالتی کارروائی کے قید کر رکھا ہے۔بوکو حرام کے جنگجو اس سال اپنی کارروائیوں میں سینکڑوں افراد کو ہلاک کر چکے ہیں بوکوحرام اسلام کے ایسے7 سخت گیر نظریے کی پیروی کرتا ہے جو مسلمانوں کوکسی بھی قسم کی مغربی طرز کی سیاسی یا معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے منع کرتا ہے۔ اس میں انتخابات میں حصہ لینا، ٹی شرٹیں پہنا یا سیکولرتعلیم حاصل کرنا بھی شامل ہیں۔اس طرزِ عمل کی تاریخ ایک صدی سے بھی زیادہ پرانی ہے
بوکو حرام کے حوالے سے یہ تمام تر نظریا ت مغربی میڈیا نے پیش کئے ہیں ۔اس تنظیم کی حقیقت کیا ہے۔مغربی میڈیا کا پیر و پیگنڈہ حقیقت پر مبنی ہے یا ایک فرضی کہا نی ہے۔کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے ۔ویسے تاریخ پہ نگا ہ ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ جب بھی جہاں کہیں بھی مسلمانوں نے اسلامی نظریات پر مشتمل کوئی تنظیم قائم کی ہے۔اسلامی تعلیمات کوفروغ دینے کی کوشش کی ہے۔قرآنی احکاما ت کو اپنی زند گی میں نافذکرنے کا منصوبہ بنایا ہے ۔اسلاف و اکابرین کے نقش قدم کی اتباع کی بات ہے ۔اسلامی تہذیب و ثقافت کو اپنایا ہے ۔نئی نسل کو مغربی کلچر سے اجتناب کرنے اور دینی ہدایات پر عمل کرنے کی ہدایت دی ہے اس عظیم راستہ کی طرف رہنمائی کی ہے تو مغربی میڈیا نے اس کی تعبیر مذہبی انتہاپسندی سے کی ہے ۔اور اس پر بغیر کسی ثبوت کے دہشت گردی کا الزام عائد کیا ہے ۔ فرضی الزاما ت لگاکر اس کو بدنام کرنے کو پوری کوشش کی ہے ۔اور مسلمانوں نے بھی مغربی میڈیا کی اس کارستانی کو حقیقت پر محمول کیا ہے اور ان کے تئیں غلط گمان قائم کئے ہیں۔ان کی تحقیق کئے بغیر محض ان خبروں پہ اعتماد کرکے انہیں غلط ٹہرایا ہے۔ اس لئے میں نے کوشش کی کسی مذہبی اسکالر کی کوئی تحریر مل جائے تاکہ حقیقت کا پتہ چل سکے لیکن مجھے اس میں کامیا بی نہیں مل سکی ۔ اس تنظیم کے بانیوں کی زبانی اس کے حقیقی اغراض و مقاصد کا پتہ لگانے میں خالی ہاتھ رہا ۔ایک ماہ کا طویل عرصہ گذرنے جانے کے باوجود اب تک کسی مسلم ملک نے اس حوالے سے کچھ کہا ہے اور نہ ہی کسی مذہبی رہنما نے اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ آج کا پہلی مرتبہ مسجد نبوی کا امام کا یہ بیان آیا ہے کہ خالص اسلامی نظریات پر مشتمل اسلامی ریاست کے قیام کا دعوی غلط ہے بو کو حرام کے لیڈورں کی یہ فکر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے اور بس۔
اس حقیقت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ مسلمانوں کے حوالے سے مغربی میڈیا کی اکثر خبریں جھوٹ کا پلندہ ہوتی ہے 59۔ فرضی باتوں کے سہارے اسلام اور مسلمانو ں کی شبیہ بگاڑنے کی کوشش کی جاتے ہیں ۔بوکو حرام کے حوالے سے بیان کردہ باتیں بھی خلاف حقیقت لگ رہی ہے اور اس طرح کی خبروں کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے آپس میں ایک دوسرے کے تئیں نفرت پید اکرنا ہے ۔بغض وعداوت کی چنگاری بھڑکانی ہے
مغرب اور اقوام متحدہ کو اگر انسانیت سے اتنی ہی محبت ہے تو مصر ،شام ،فلسطین بنگلہ دیش پاکستان ،ہندوستان او ردیگر ممالک میں مسلمانوں کے قتل عام ،پر خاموش کیوں ہے؟معصوم بچوں کی موت کو خاموش تماشائی بن کرکیوں دیکھ رہے ہیں؟۔ ان کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کررہے ہیں؟۔میڈیا ان امور پر خاموش کیوں ہے؟۔بوکو حرام کے خلاف سخت رد عمل اس لئے ہے کہ اس منشور میں میں مغرب سے نفرت ہے۔انگریزی تعلیم سے مسلمانوں کو دور رکھنا ان کا منصوبہ ہے ۔ وہ اپنی نسل اور قوم کو مغربی بے راہ روی سے دور رکھنا چاہتے ہیں یہ پہلو انتہائی افسوسناک ہے کہ اقوام متحدہ کی ان معمولی واقعات پہ نگاہ رہتی ہے ۔میڈیا انہیں پھیلانے میں بہت سخاوت سے کام لیتی ہے لیکن حقیقی مسائل سے پہلوتہی اختیارکی جاتی ہے۔
۔اس تناظر میں میرا ذاتی رائے یہی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے کہنے اور مغربی میڈیا کے کسی کو دہشت گرد ثابت کرنے سے کوئی دہشت گر نہیں ہوسکتا ہے۔اور نہ ہی اس کو حقیقت پرمحمول کیا جاسکتا ہے۔
جواب دیں