7صوبے بی جے پی کے ہاتھ سے نکلے، مزیدنکلنے والے ہیں
تحریر: غوث سیوانی
نمرود، فرعون اورراون کی حکومتیں بھی آخرزوال کو پہنچیں،جو تخت وتاج کے غرور میں خدائی میں دعویدار ہوگئے تھے پھر کس کی سرکارصدا چلنے والی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب بی جے پی راج کی بھی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے۔ جس تیزی سے صوبائی اسمبلیاں اس کے ہاتھ سے نکل رہی ہیں،اس سے تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ جھارکھنڈ اور دلی میں تو اسے حال ہی میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے مگر اس سے پہلے بھی کئی ریاستیں وہ ہار چکی ہے جب کہ آنے والے ایام بھی اس کے لئے آسان نہیں ہیں۔آئندہ چودہ مہینوں میں چھ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونگے جہاں اس کے پاس پانے کے لئے کم اور کھونے کے لئے زیادہ ہے۔اسی سال اکتوبر میں بہار میں انتخابات ہیں جہاں ممکن ہے بی جے پی، نتیش کمار کو بھی لے ڈوبے۔اس کے بعد 20121کے اپریل میں مغربی بنگال اسمبلی کے انتخابات ہیں۔اسی تاریخ کے آس پاس آسام اسمبلی کے لئے بھی الیکشن ہوناہے۔ ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی کو سی اے اے کے سبب نقصان ہوسکتا ہے جب کہ لوک سبھا الیکشن میں اسے جیت ملی تھی۔ آسام میں حکومت ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔مئی20121 تک تمل ناڈو، کیرل اور پانڈیچیری میں انتخابات ہیں اور یہاں بھاجپا کے امکانات پہلے ہی دے معدوم ہیں۔تمل ناڈو میں ڈی ایم کے کی پوزیشن اچھی ہوئی ہے۔
بھوکے بھجن نہ ہوئے گوپالا
دلی، جھارکھنڈ، مہاراشٹر،ہریانہ کے اسمبلی انتخابات میں وزیراعظم مودی اور وزیرداخلہ امت شاہ سے لے کر بھاجپا کے چھٹ بھیا نیتاؤں تک نے دھڑلے سے فرقہ پرستی کا کارڈ کھیلا مگر کچھ خاص فائدہ نہ ملا۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام ایشوز بھی تب چلتے ہیں، جب پیٹ میں دانا ہو۔ جب معیشت تیزی سے زوال پذیر ہو، کاروبار ٹھپ ہوں اور ٹیکس کلکشن میں زبردست گراوٹ ہو،لوگ نوکریاں گنوارہے ہوں اور ایسے میں مہنگائی کا یہ عالم ہو کہ دس روپئے کلو بکنے والے پیاز کی قیمت دوسوروپے تک پہنچ جائے تو ایسے میں کسے مندر،370، سی اے اے اور این آرسی سوجھتی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بی جے پی ایک کے بعد ایک ریاست میں شکست کھا رہی ہے۔ نریندرمودی نے جو بڑے بڑے وعدے کئے تھے،ان کی بھی پول کھلتی جارہی ہے اور اب بی جے پی کے خلاف اپوزیشن نہیں عوام لڑ رہے ہیں۔ ہریانہ اور مہاراشٹر میں کانگریس نے بے حدبے دلی سے لڑائی لڑی پھر بھی بی جے پی اور اس کی حلیف شیوسینا کی سیٹیں کم ہوئیں۔ جھارکھنڈ میں اسے ایک علاقائی لیڈر ہیمنت سورین نے ہرایا جب کہ دلی میں بھارت کی سب سے کم عمر پارٹی نے دنیا کی سب سے بڑی پارٹی کو شکست فاش دی۔کہاوت ہے کہ ’بھوکے بھجن نہ ہوئے گوپالا‘پھر خالی پیٹ کون ہندتو کی فکر کرتا۔
ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے
تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا
جھارکھنڈ اور دلی میں چھوٹی پارٹیوں نے ہرایا
دلی میں بی جے پی کے تین سو سے زیادہ ممبران پارلیمنٹ آٹھ وزراء اعلیٰ اور درجنوں مرکزی ورزاء الیکشن ڈیوٹی پر لگے تھے۔ وزیراعظم نے اس ایک شہر میں دودو ریلیاں کیں۔امت شاہ نے چالیس سے زیادہ جلسے اور روڈ شوکئے پھر بھی اروند کجریوال کی چھوٹی سی پارٹی نے شکست فاش دیدیا۔ یہی معاملہ کم وبیش جھارکھنڈ میں بھی تھا جہاں ہیمنت سورین کا مقابلہ بھاجپا کے بڑے بڑے لیڈروں سے تھا۔ظاہر ہے کہ ان کی فتح اس لئے بھی بڑی ہے کہ ان کا مقابلہ صرف رگھورداس سے نہیں تھا بلکہ نریندرمودی،امت شاہ اور ان کی ٹیم کے بڑے بڑے سورماؤں کے ساتھ تھا مگر شیبو سورین کے بیٹے ہیمنت سورین نے خود کو منوالیا۔انھوں نے تن تنہا یہ لڑائی لڑی اور جیت حاصل کی۔ حالانکہ مودی۔شاہ اور ان کی ٹیم نے جھارکھنڈ میں پوری قوت جھونک دی تھی۔ تجوریوں کے منہ کھول دئیے تھے اور میڈیا کی پوری مددلی تھی مگر اس کے باوجود جیت ہیمنت سورین کے حصے میں آئی جو گزشتہ دو برسوں سے لگاتار گاؤں گاؤں عوام کے بیچ جارہے تھے اور زمین پر کام کر رہے تھے۔ مزے کی بات یہ ہوئی کہ نریندر مودی اور امت شاہ جو خود کو ناقابل تسخیر سمجھے بیٹھے تھے،انھوں نے جہاں جہاں ریلیاں کیں، وہاں وہاں بھاجپا کا بیڑا غرق ہوا۔دونوں نے شہریت ایکٹ،این آرسی اور رام مندر کا خوب ذکر کیا مگر اپنی حکومت کے کام ایک بار بھی نہیں گنوائے۔ ایساہی معاملہ دلی کا بھی تھا۔ اسی لئے دونوں ریاستوں میں بی جے پی کی ہار کو شہریت ایکٹ اوراین آرسی پر ریفرنڈم بھی مانا جارہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نمردو کی تباہی کا سبب ایک مچھر بناتھا اور ایسا لگتا ہے کہ آج کے نمرودوں کو بھی چھوٹے چھوٹے سیاسی مچھروں کے ہاتھوں ہی بربادی دیکھنے کو ملے گی۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
رام نہیں، کام چلے گا
فرقہ واریت کا موضوع پٹ چکا ہے اور اب نہیں لگتا کہ رام کے نام پر ووٹ ملنے والا ہے مگر بھاجپا کی مشکل یہ ہے کہ اس کے پاس عوام کے سامنے پیش کرنے کے لئے کام نہیں ہے۔ ممکن ہے بہار اور مغربی بنگال میں بھی وہ کام کے بجائے رام کو ہی ووٹ کے لئے استعمال کرے۔ ظاہر ہے کہ بی جے پی کے پاس کام کے نام پرتوکچھ ہے نہیں لہٰذا ہر الیکشن میں اسے ہندوخطرے میں نظرآنے لگتے ہیں۔ مسلمانوں کو ایک ہوّا کی طرح پیش کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ سال 2020 میں، اسے دہلی اور بہار اسمبلی انتخابات میں دو بڑے چیلنجوں کا سامنا تھا۔ دہلی میں جو کچھ ہواوہ دنیا کے سامنے ہے مگربڑی لڑائی بہار میں ہے۔بہار میں بھی، بی جے پی کے لئے کم چیلنجز نہیں ہیں۔ جنتا دل(یو) کے ساتھ اس کی سرکارہے۔حالانکہ نتیش کمار نے 2015کا الیکشن بی جے پی کے خلاف لڑا تھا مگر پلٹی مارکر بی جے پی کے ساتھ سرکاربنالی۔ یہی سبب ہے کہ انھیں پلٹورام کہا جانے لگا ہے۔ اب جے ڈی یو، این ڈی اے کی ایک اتحادی جماعت ہے، لیکن دونوں جماعتوں کے مابین مستقل تناؤ رہتا ہے۔ اس پر بی جے پی کے سامنے مہاگٹھبندھن کا چیلنج بھی ہے۔ اس میں سب سے نمایاں جماعت لالو پرساد یادو کی آر جے ڈی اور کانگریس ہیں۔ ادھرمغربی بنگال کی سیاست،جس پر کبھی ’وام‘ حاوی تھا،اب ’رام‘ کے گرد گھومنے لگی ہے۔بی جے پی نے ہندتو کے نعرے کے ساتھ ریاست کی بیالیس لوک سبھا سیٹوں میں سے اٹھارہ جیت لی تھیں۔ اس کے بعد ہندتو کی سیاست کو پرلگانے کے ارادے سے سی اے اے لایا گیا۔ امت شاہ نے اپنی ریلیوں میں این آرسی کی خوب بات کی اور ایسے میں مغربی بنگال کے سیکولررنگ کو بھگوا کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔ 2121ء کے اپریل میں ودھان سبھا الیکشن ہے جب کہ رواں سال کے اپریل میں کلکتہ کارپوریشن کے بھی انتخابات ہیں۔ ایسے میں بی جے پی کو ہندتو کا سہاراہے اور کسی بھی حال میں وہ بنگال میں اپنی حالت کو بہتربنانے کے لئے کوشاں ہے۔سی اے اے کا اصل مقصد مغربی بنگال اور آسام کا چناؤ ہی تھا۔ مغربی بنگال کی 42 لوک سبھانشستوں پر اپنے لئے امکانات دیکھتے ہوئے بی جے پی نے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے۔وہ کسی بھی حال میں لوک سبھا کے کامیابی کو دہرانا چاہتی ہے مگر اب بنگال کے ووٹر بھی اسے ووٹ دے کر پچھتارہے ہیں۔شاید اسمبلی الیکشن میں وہ اس غلطی کاکفارہ اداکریں۔
بہت کٹھن ہے ڈگرپنگھٹ کی
بہرحال آنے والا وقت بھاجپا کے لئے کچھ خاص اچھا نہیں لگتا اور جیسے وہ ماضی میں کئی ریاستیں ہاری ہے آنے والے وقت میں مزید ہارسکتی ہے۔ پچھلے 14 ماہ کے دوران، بی جے پی کو سات ریاستوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس میں سے اس نے پانچ ریاستوں میں اپنی حکومت بھی کھوئی ہے۔ 2014 میں، بی جے پی کی حکومت صرف 7 ریاستوں میں تھی۔ مرکز میں مودی کی حکومت بننے کے بعد، بی جے پی نے ایک کے بعد کئی ریاستوں کے اسمبلی الیکشن میں کامیابی حاصل کی اور 2015 میں، وہ13 ریاستوں تک پہنچ گئی۔ 2016 میں 15 ریاستوں تک پہنچی، 2017 میں بی جے پی کی توسیع 19 ریاستوں تک ہوگئی اور 2018 کے وسط تک بی جے پی 21 ریاستوں میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب رہی، لیکن بی جے پی کی شکست کا آغاز 2018 کے اخیر میں راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ اسمبلی انتخابات سے ہوا تھا۔ ان تینوں ریاستوں میں بی جے پی اقتدار میں تھی۔ راجستھان میں پانچ سال ہی اقتدار رہا، باقی دو ریاستوں میں 15 سال تک اس کا اقتداررہا۔ کانگریس کے ہاتھوں بی جے پی کو ان تینوں ریاستوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا حالانکہ لوک سبھا الیکشن میں اس نے اچھا مظاہرہ کیا۔ ان تینوں ریاستوں کے انتخاب سے عین قبل، جنوبی ہندکے کرناٹک کے انتخابات میں بی جے پی کو دھچکا لگا تھا، جب نتائج آنے کے بعد کانگریس اور جے ڈی ایس نے حکومت تشکیل دی۔ تاہم، پچھلے سال کانگریس اور جے ڈی ایس، کے ممبران اسمبلی میں بغاوت کراکے بی جے پی اقتدار پر قابض ہوگئی ہے۔ آندھرا پردیش میں بی جے پی اور ٹی ڈی پی کی مخلوط حکومت تھی، لیکن 2018 میں، ان دونوں کا اتحاد ٹوٹ گیا۔ اس کی وجہ سے بی جے پی کو چندر بابو نائیڈو کی حکومت سے الگ ہونا پڑا۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے ساتھ ہی، اڈیشہ، اروناچل اور آندھرا پردیش میں بھی انتخابات ہوئے تھے، جن میں سے بی جے پی نے صرف اروناچل میں جیت پائی۔بہرحال شکست کایہ سلسلہ کہاں تک دراز ہوگایہ دیکھنے والی بات ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے
20فروری2020
جواب دیں