سپریم کورٹ اوراس کے فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بنانے کے ساتھ ہی چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کو نام لے کر انہیں ملک میں ’’خانہ جنگی ‘‘کیلئے ذمہ ٹھہرانے والے بی جے پی کے رکن پارلیمان نشی کانت دوبے کی جوابدہی طے کرنے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ ایک طرف جہاں منگل کو انڈین یوتھ کانگریس نے ان کے خلاف احتجاج کیا وہیں سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی پٹیشن داخل کردی گئی ہے۔ عدالت نے اس پر آئندہ ہفتے شنوائی کافیصلہ کیا ہے۔ اُدھرسپریم کورٹ بار اسوسی ایشن نے بھی ایک قرار داد منظور کرکے دوبے کے بیان کی مذمت اور امید ظاہر کی ہےکہ اٹارنی جنرل آف انڈیا توہین عدالت کے مقدمہ کی اجازت دیں گے۔
سپریم کورٹ میں آئندہ ہفتے شنوائی
نشی کانت دوبے جو نہ صرف اپنے بیان پر قائم ہیں بلکہ عدلیہ کو نشانہ بنانے کا سلسلہ بھی جار ی رکھے ہوئے ہیں، کے خلاف سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی باقاعدہ پٹیشن داخل کر دی گئی ہے۔ پیر کو جب جسٹس بی آر گوَئی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بنچ کی توجہ جب نشی کانت دوبے کے بیان کی جانب مبذول کرائی گئی تھی تو بنچ نے کہاتھا کہ ’’اٹارنی جنرل کے سامنے معاملہ پیش کریں وہ (توہین عدالت کے مقدمہ کی ) اجازت دیں گے۔ ‘‘
منگل کو عدالت کو مطلع کیاگیا کہ پٹیشن فائل کر دی گئی ہے مگر اٹارنی جنرل کی جانب سے مقدمہ کی اجازت سے متعلق جواب نہیں آیاتو جسٹس گوَئی اورمسیح کی بنچ نے آئندہ ہفتے شنوائی کافیصلہ کیا۔ پٹیشن میں نشی کانت دوبے کے بیان کے ویڈیو کو سوشل میڈیا سے ہٹانے کی بھی مانگ کی گئی ہے۔
اٹارنی جنرل کی اجازت کیوں ضروری
توہین عدالت قانون ۱۹۷۱ء کی رو سے کوئی بھی شہری اٹارنی جنرل یا سالیسٹر جنرل آف انڈیا کی اجازت کے بعد ہی سپریم کورٹ میں توہین ِ عدالت کا مقدمہ دائر کرسکتاہے۔ نشی کانت دوبے نے وقف ترمیمی ایکٹ کے کئی التزامات پر سپریم کورٹ کے ذریعہ روک لگادیئے جانے پر برہمی کااظہا رکرتے ہوئے عدالت کے اختیارات پر ہی سوالیہ نشان لگانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ ’’عدالت اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہے۔ ہر کسی کو ہر بات پر سپریم کورٹ ہی جانا ہے تو پھر پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کو بند کر دینا چاہیے۔ ‘‘ انہوں نے چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کو نام لے کر نشانہ بنایا اور کہا کہ ’’ ملک میں مذہبی جنگ بھڑکانے کیلئے صرف اور صرف سپریم کورٹ ذمہ دار ہے۔ ‘‘ ان کے اس توہین آمیز بیان کے بعد کچھ وکیلوں نے اتوار کو ہی اٹارنی جنرل آف انڈیا کو مکتوب روانہ کیا ہے کہ دوبے کے خلاف توہین عدالت کے مقدمہ کی اجازت دی جائے۔ ان میں ایڈوکیٹ انس تنویرکا نام اہم ہے جوقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں پیروی کرنے والے وکیلوں میں شامل ہیں۔
باراسوسی ایشن میں مذمتی قرارداد
اس بیچ سپریم کورٹ بار اسوسی ایشن نے منگل کونشی کانت دوبے کے خلاف مذمتی قرار داد منظور کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا بیان نہ صرف ’’ہتک آمیز‘‘ ہے بلکہ ایسا ہےکہ جس کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلایا جائے۔ قرار داد کے مطابق’’یہ ایک ادارہ کے طور پر سپریم کورٹ پر اور ذاتی طو رپر چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ پر حملہ ہے۔ یہ ناقابل برداشت ہے جس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہئے۔ ‘‘
اسوسی ایشن نے یہ امید ظاہر کی ہے کہ اٹارنی جنرل دوبے کے خلاف قانونی کارروائی کی اجازت دیں گے۔ مذمتی قرار داد میں کہا گیا ہے کہ ’’ہمیں پورا یقین ہے کہ اٹارنی جنرل آف انڈیا جن پر ملک کے آئین اور قوانین کے تحفظ اور بالادستی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری ہے، عدالت اورچیف جسٹس سنجیو کھنہ کے وقار کے تحفظ کیلئے نشی کانت دوبے کے خلاف توہین ِ عدالت کے مقدمہ کی اجازت دیں گے۔ ‘‘