نریندر مودی آر ایس ایس کا مہرہ ہیں یا مودی نے آر ایس ایس پر قبضے کی شروعات کرد ی ہے؟ کیا دونوں کے بیچ شہہ اور مات کا کھیل شروع ہوچکا ہے؟ اب آر ایس ایس سرکار چلائے گا یا مودی آر ایس ایس کو چلائینگے؟دونوں طرف سے یہ کوشش شروع ہوچکی ہے کہ کون کسے اپنے مقاصد میں استعمال کرتا ہیا ور اس کھیل میں مودی بھاری پڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسالگتا ہے کہ جس طرح سے انھوں نے گجرات میں آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد ، بجرنگ دل یہاں تک کہ بی جے پی کو بھی درکنار کر کے خود اپنے آپ کو ہی مرکز بنا لیا تھا اسی طرح اب وہ مرکز میں بھی کرنے جارہے ہیں۔ انھوں نے مرکز میں حکومت بناکر اپنا دبدبہ ثابت کردیا ہے اور اس کے بعد ان کا پلان تھا پارٹی کے اوپر قبضہ کرنا جس کی شروعات انھوں نے کردی ہے۔ اس وقت ان کے قریبی امت شاہ کے ہاتھ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی باگ ڈور آچکی ہے۔ انھیں پارٹی کا صدر بنانے کا علان کرتے ہوئے سابق صدر راجناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ انھوں نے جس حکمت عملی کے ساتھ پارٹی کو یوپی سمیت پورے ملک میں جیت دلائی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اور وہ اس بات کے حقدار ہیں کہ پارٹی صدر بنیں۔راجناتھ سنگھ کی باتیں اپنی جگہ مگر اس کے پیچھے کی بھی سیاست کا کھیل ہے۔ راجناتھ سنگھ چاہتے تھے کہ وہ پارٹی صدر کے ساتھ ساتھ وزیر داخلہ بھی ہوں مگر نریند رمودی اس کے لئے تیار نہ تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ایک آدمی ایک عہدے پر ہی رہے۔ وہ پارٹی صدر کا عہدہ راجناتھ سنگھ سے لے کر اپنے قریبی امت شاہ کو دینا چاہتے تھے تاکہ ان کا پارٹی کے اوپر بھی قبضہ ہوجائے اور انھوں نے ایسا کردکھایا۔
پارٹی پر کس کا قبضہ؟
بی جے پی تو آر ایس ایس کی سیاسی تنظیم ہے جس کا مقصد تھا کہ وہ ملک کے سیاسی معاملات میں دخل اندازی کرسکے ۔ پارٹی کو ملک کے سیاسی منظر نامے پر لانے کا کام لال کرشن اڈوانی نے کیا جنھوں نے بابری مسجد کے مقام پر رام مندر بنانے کی تحریک چھیڑی اور اسے سیاسی ایشو بنا کر ملک کے ہندووں کو مذہبی اشتعال میں مبتلا کیا اور پھر اسے ووٹ میں تبدیل کرایا۔ اسے جائز کام کہا جائے یا ناجائز مگر یہ حقیقت ہے کہ اس سے پارٹی کو پہچان ملی اور وہ مرکز میں اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اب مودی کا یہ کارنامہ ہے کہ انھوں نے پارٹی کو اکثریت دلائی اور پوری قوت کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ آر ایس ایس کو لگتا ہے کہ یہ بہت اچھا موقع ہے اپنے ایجنڈوں کو لاگو کرنے کا مگر اسی کے ساتھ مودی کو بھی احساس ہے کہ اس وقت ان کی طوطی بول رہی ہے اور ان کی مقبولیت عروج پر ہے، یہی موقع ہے جب وہ پارٹی کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس پر بھی قابض ہوسکتے ہیں۔ انھوں نے پارٹی پر قبضہ کرنے کے ارادے سے ہی امت شاہ کو صدر بنوایا ہے۔ اس سلسلے مین ان کی آر ایس ایس سے ڈیل ہوئی ہے اور پارٹی کے اندر کئی اہم عہدوں پر آر ایس ایس کے لوگوں کو رکھا گیا ہے۔ خاص طور پر سنگھ سے رام مادھو کا پارٹی میں بھیجا گیا ہے جو یہاں کے معاملات کی نگرانی کریں گے۔ پارٹی کی دیگر شاخوں میں بھی آر ایس ایس کے لوگوں کو اہم عہدوں پر لایا گیا ہے مگر یہ سب اس لئے کیا جارہا ہے تاکہ سنگھ کو کے لوگوں کو ادھر پھنسا کر اس پر بھی قبضہ کیا جاسکے۔ یہاں مودی کی سیاسی چالبازیاں کام آرہی ہیں اور اتفاق سے ان کا مقدر بھی ساتھ دے رہا ہے کہ وہ اگر کوئلے پر ہاتھ رکھ رہے ہین تو وہ بھی سونا ہوتا جارہا ہے۔ مودی نے پارٹی کا سب سے اعلیٰ عہدہ اپنے سب سے قریبی اور قابل بھروسہ شخص کو دلوادیا ہے۔ اب ان کا کھیل یہ ہے کہ آر ایس ایس کے اندر ان کے پسند کے لوگوں کو جگہ ملے اور اگلا سنگھ کا چیف ان کی مرضی کا ہو۔
آر ایس ایس کی خوشی
مرکز میں جب نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی سرکار بنی اور اہک ایسی سرکار جو لنگڑی لولی نہیں ہے بلکہ مکمل اکثریت رکھتی ہے تو بی جے پی سے زیادہ آر ایس ایس کے حلقے میں خوشیاں منائی گئیں۔ یہاں بی جے پی کے لوگوں کا آنا جانا تیز ہوگیا تھا ۔ یہاں تک کہ نوکر شاہ بھی بڑی تعداد میں سنگھ دفتر آنے لگے تھے اور ہر کوئی اس کوشش میں تھا کہ نئی سرکار میں اسے کوئی اہم ذمہ داری مل جائے۔ آر ایس ایس بار بار کہتا ہے کہ اس کاکام سرکار میں مداخلت کرنا نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس سلسلے میں کوئی دخل اندازی کرتا ہے مگر سچ تو ہے کہ اس کے حلقے سے سفارشیں بھی ہوتی ہیں اور ایسے نوکرشاہوں کو اہم کام سونپنے کی سفارشیں کی جاتی ہیں جو سنگھ سے قربت رکھتے ہوں۔ اس وقت سنگھ میں بھیاجی جوشی، دتاتریہ ہس بولے،کرشن گوپال، سریش سونی اور منموہن ویدھ جیسے لوگ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ ان سبھی لوگوں کی خوہش ہے کہ سرکار ان کاموں کی طرف توجہ دے جن کو دوسرے لوگ متنازعہ کہتے ہیں،جیسے اجودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر ، دفعہ ۳۷۰ کا خاتمہ، یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ وغیرہ۔ البتہ نریندر مودی نہیں چاہتے کہ ان ایشوز کو چھیرا جائے کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ عوام کو ان باتوں سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ انھیں روزی روٹی کی ضرورت ہے، انھیں مہنگائی ، کرپشن اور بیروزگاری کا خاتمہ چاہئے ،اب آر ایس ایس انھیں تھوڑی مہلت تو دینے کو تیار ہے مگر وہ اپنے ایجنڈے کو چھوڑنا نہیں چاہتی۔ وہ سرکار بننے کے بعد منتریوں کو یاد لاچکی ہے کہ وہ اپنے ایجنڈے کو نہ بھولیں اور اپنی آئیڈیا لوجی کو فراموش نہ کریں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے دباؤ مودی کے لئے مشکلات کھڑی کرسکتے ہیں اور یہی سبب ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح انھوں نے بی جے پی پر قبضے کی شروعات کردی ہے اسی طرح دھیرے دھیرے آر ایس ایس پر بھی قابض ہوجائیں۔اس کے لئے وہ ابھی اہم عہدوں پر اپنے پسندیدہ لوگوں کی تقرری چاہتے ہیں اور ان کا اگلا نشانہ آر ایس ایس چیف کا عہدہ ہے۔
مودی کا کھیل
نریندر مودی انتہائی گھاگھ قسم کے سیاست داں ہیں اور وہ گجرات میں تمام لیڈروں کو ختم کرچکے ہیں وہی کھیل اب وہ مرکز مین بھی کھیل رہے ہیں۔ سنجے جوشی گجرات میں آرایس ایس کے اہم لیڈر تھے اور یہاں بی جے پی کو کھڑا کرنے میں بھی ان کا بہت بڑا ہاتھ تھا مگر ان کے کریئر کو ختم کرنے کا کام نیرندر مودی نے کیا۔ جوشی کی کئی ایسی تصویریں انھوں نے عام کرائیں جو بہت ہی خفیہ قسم کی تھیں اور انھیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ پارٹی میں وہ تھے اور انھیں دہلی میں کسی مٹینگ کے لے بلایا گیا تو مودی نے اس مٹینگ میں آنے سے انکار کردیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ پارٹی اور سنگھ کے ایک پرانے وفادار کو بی جے پی نے باہر کا راستہ دکھا دیا۔ اسی طرح گجرات میں وشو ہندو پریشد کا خاتمہ بھی مودی نے کرادیا۔ پروین توگڑیا جیسے لوگ جو پورے ملک میں پھیل کر نفرت کی آگ بھڑکاتے رہتے ہیں گجرات میں کچھ بھی نہیں کرسکتے ورنہ انھیں فوراً جیل کی ہوا کھانی پڑے۔ یہاں وی ایچ پی اور بجرنگ دل جیسی جماعتوں کو مودی نے ان کے آفسوں تک محدود کر کے رکھ دیا ہے۔ یہی کھیل وہ دلی میں کھیلنا چاہتے ہیں اور ایک ایک کرکے تمام بڑے لیڈروں کو ختم کرکے تنہا لیڈر رہنا چاہتے ہیں۔ مودی کو بہت سے لوگ ہٹلر جیسا لیڈر مانتے ہیں اور یہ بات کچھ حد تک درست بھی ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو برداشت نہیں کرسکتے اور ایک ایک کرکے ان کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ گجرات کے ہی ایک دوسرے بی جے پی لیڈر ہرین پانڈیا کا قتل ہوگیا تھا، جنھیں مودی کا حریف مانا جاتا تھا۔ ان کا مارننگ واک کے دوران قتل ہوگیاتھا اور ان کے والد نے اس کے لئے سیدھے طور پر نرندر مودی کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا مگر کوئی مودی کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ ہمیں یہ ت ونہیں معلوم کہ ہرین پانڈیا کے قتل کے سلسلے میں ان کے والد کا الزام کس حد تک درست تھا مگر ایک بات کہہ سکتے ہیں کہ مودی کے مخالفین کا انجام کچھ اچھا نہیں ہوا ہے۔ ان کی جان گئی ہے یا ان کا کریئر ختم ہوا ہے۔
آر ایس ایس مودی کے شکنجے میں
آج ایک بار پھر مودی اپنے پرانے رنگ میں نظر آرہے ہیں مگر اس بار نہ تو سرکار پر قبضہ کی جنگ ہے اور نہ ہی پارٹی پر کیونکہ یہاں وہ پہلے ہی اپنا قبضہ جماچکے ہیں۔ اس بار تو وہ آر ایس ایس پر ہی قبضہ جمالینا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اار ایس ایس کو لگتا ہے کہ وہ مودی کو کٹھ پتلی بنانے میں کامیاب ہوجائے گا اور اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرے گا مگر یہ مشکل لگتا ہے کیونکہ اب تک مودی نے جو چاہا ہے سو کیا ہے۔نریندر مودی ملک کے وزیر اعظم بن چکے ہیں مگر انھیں لگتا ہے کہ ان کا اقتدار تب ہی مضبوط ہوگا جب پارٹی کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس پر بھی قبضہ پکا ہوجائے۔ مستقبل میں اگر آر ایس ایس چیف کا عہدہ بھی مودی کے کسی پسندیدہ شخص کو ملے تو اس میں حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ اس کے لئے وہ پوری کوشش میں جٹے ہوئے ہیں اور ان کے لوگ آر ایس میں سرگرم ہوگئے ہیں۔
جواب دیں