بی جے پی کی آمد کے بعد مسلمانوں کی بدلتی طرز زندگی

 از : ابوالحسنات ندوی

جب سےملک میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکار بنی ہے اس وقت سے ملک کے مختلف گوشوں میں فکری اور عملی تبدیلی رونما ہوئی ہے، بالخصوص مسلم سماج میں کئی جہتوں سے تبدیلی واقع ہوئی ہے.

مسلم معاشرہ میں ایک طویل مدت سے مقصدیت اور متعین ہدف کے سمت میں بیداری، تعلیمی اور سیاسی استحکام پیدا کرنے کی سعی و پیہم، آپسی اتحاد و بھائی چارے کو فروغ، دینی اور مذہبی بنیاد پر متحد ہونے کا شعور، اپنے مقابل برادران وطن سے سیاسی فکری تعلیمی برتری و نبردآزمائی کی تیاری، دوست اور دشمن کی پہچان، ایک نیا امید افزا مستقبل تیار کرنے کا شعور و فہم اب کے مقابلے میں بہت محدود تھا، معدودے چند تحریکیں و افراد اس بارے میں متفکر تھے اور بحمد اللہ روبہ عمل بھی تھے، اگر مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو یہ فکر اور سوچ ایک بڑی جماعت کی اقلیت تک ہی منحصر تھی.

موجودہ حکومت کی آمد اس فکر کہن کیلئے تازیانہ بن گئی، اور آگے کے رخ اور اکثریت سماج کے تشدد بھرے معاملات، ذمہ دار عہدوں پر بیٹھے لوگوں کا درون پردہ ان کی مدد، پھر ببانگ دہل ان کی حمایت، عدلیہ کی لاچاری یا طرفداری نے اس غفلت کے پردہ کو چاک کردیا، بے مقصدیت اور خواب غفلت سے بیداری ہوئی، اور صحیح سمت کی جستجو اور منزل و نشان منزل کی تلاش شروع ہوگئی،…..

اب ایک قائد سے لیکر معاشرہ کے ایک گمنام فرد تک تعلیمی اور سیاسی تفوق و برتری کیلئے فکری طور پر سر گرداں ہے، موجودہ صورتحال کے تناظر میں یہ بات واضح ہے کہ اب زمین پوری طرح تیار ہوچکی ہے، نیز لاک ڈاؤن اور عام تعطل نے حالات مزید سریس بنادیا ہے، ذہنیت اب جمود سے توبہ کررہی ہے، ضرورت ہے کہ مخلصانہ مثبت پہلوؤں پر کام کیا جائے، اور آئندہ دس پندرہ سال کا خاکہ تیار کیا جائے، بالخصوص میدان تعلیم میں ہر چہار جانب سے جہد مسلسل کیا جائے، اور طے کیا جائے کہ اس نسل کو بہر حال پڑھا دینا ہے، انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہی ہے، شہر سے لیکر دیہات تک ایک ایک بچہ کو تعلیم گاہ اور دانش کدہ سے جوڑ دینا ہے. 

یہ واضح رہے کہ: علم آتا ہے تو فکری آزادی اور خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور فکری آزادی اور خود اعتمادی جسمانی آزادی کو یقینی بناتی ہے، علم سے سوچ میں بلندی اور یکسانیت پیدا ہوتی ہے، رائے عامہ کو ہموار کرنا اور مستقبل کیلئے لائحہ عمل بنانا آسان ہوتا ہے، علم اور تعظیم یا علم اور سر بلندی لازم ملزوم ہیں، علم آئے گا تو عزت و عظمت حاصل ہوگی، سیاسی برتری بھی آئے گی اور سیاسی برتری وجود و بقا کی ضمانت ہے اور یہ بات کل سے زیادہ آج قابل فہم ہے، کاش اس درد دل کو سنا جاتا!

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

یادوں کے جھروکے۔(1)

ارطغرل سیرئیل پر دار العلوم دیوبند کا فتوی؛کیا تنگ نظری پر مبنی ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے