م ۔ افضل
بی جے پی کے جولوگ کل تک کانگریس مکت بھارت کا نعرہ چیخ چیخ کر لگارہے تھے اب خاموش ہیں شایداس لئے کہ اب بی جے پی کا ہی دائرہ سمٹنے لگاہے، این ڈی اے بکھررہا ہے ،مودی کے مصنوعی طلسم کی قلعی بھی کھلتی جارہی ہے اور ایک ایک کرکے ریاستیں اس کی حکمرانی کی قید سے آزادہوتی جارہی ہیں ، تازہ صورت حال یہ ہے کہ ملک کی 29ریاستوں میں سے دس میں ہی اسے مکمل اکثریت حاصل ہیں جبکہ دیگرچھ ریاستوں میں اس نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ یا پھر کچھ دوسری پارٹیوں سے ساز باز کرکے سرکاربنارکھی ہے ، یہ ریاستیں ہیں بہار، میگھالیہ ، ناگالینڈ، تمل ناڈ، گوا، سکم اور میزورم، بہارمیں وہ جنتادل یوکی اتحادی بنی ہوئی ہے جبکہ وہ تمل ناڈمیں سرکارمیں شامل ضرورہے مگر قانون سازاسمبلی میں اس کا ایک بھی ممبرنہیں ہے ۔
اپنی حکمرانی کا دائرہ بڑھانے کے جنون میں بی جے پی نے یہ بھی کیا کہ جن ریاستوں میں اسے اکثریت حاصل نہیں تھی وہاں بھی اس نے مرکزمیں اقتدارکا فائدہ اٹھاکر سرکاربنالی مثال کے طورپر گوامیں اسے محض پندرہ سیٹوں پر ہی کامیابی ملی تھی جبکہ کانگریس سترہ سیٹیں جیت کر سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی مگر بی جے پی نے سارے اصول اور قانون کو طاق میں رکھ کر سرکاربنالی ، میزورم میگھالیہ اور ناگالینڈتو اس کی بدترین مثالیں ہیں ، میگھالیہ میں ساٹھ اسمبلی حلقوں میں اسے محض دوسیٹوں پر کامیابی ملی تھی مگر اس نے نیشنل پیوپلز پارٹی ، یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک پارٹی ، پیوپیلز ڈیموکریٹک فرنٹ اور ہل اسٹیٹ اور پیوپیلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر سرکاربنالی ، میزورم میں چالیس سیٹوں میں بی جے پی کو محض ایک سیٹ ہاتھ لگی تھی مگر یہاں بھی اس نے میزونیشنل فرنٹ کے ساتھ مل کر سرکاربنائی جس نے ستائیس سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی ، ناگالینڈمیں ساٹھ اسمبلی حلقے ہیں جن میں سے بارہ حلقوں میں بی جے پی کامیاب ہوئی تھی مگریہاں بھی اس نے نیشنل ڈیموکریٹک پروگریسیوپارٹی کے ساتھ سازباز کرکے سرکاربنالی ، سکم میں بتیس میں سے بارہ سیٹوں پر بی جے پی کامیاب ہوئی مگر یہاں بھی اس نے سکم کرانت کاری مورچہ کے انیس ممبروں کو ملا کر سرکاربنانے میں جلد بازی کامظاہرہ کیا ۔
ریاست واراگر تجزیہ کیا جائے تو جو نتائج سامنے آتے ہیں وہ اس دعویٰ کی قلعی کھول دیتے ہیں جو بی جے پی کے لیڈر اب تک کرتے آئے ہیں پورے ملک میں مجموعی طورپر 4120 اسمبلی حلقے ہیں جن میں 1322اسمبلی حلقوں میںہی بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی ہے جبکہ این ڈی اے میں شامل دوسری پارٹیوں کے پاس 409ممبران اسمبلی ہیں ، کانگریس مکت بھارت کا خواب دیکھنے والی بی جے پی کی اصل حالت تو یہ ہے کہ آندھرامیں 175ممبران اسمبلی میں محض 2ممبربی جے پی کے ہیں ، کیرالہ کی 140سیٹوں میں محض ایک سیٹ بی جے پی کے پاس ہے ، پنجاب میں کل 177ممبران اسمبلی میں صرف 3ممبربی جے پی کے ہیں ، تلگانہ کی 119اسمبلی سیٹوں میں صرف ایک سیٹ بی جے پی کے حصہ میں ہے ، مغربی بنگال جہاں 244سیٹیں ہیں تمام تر شرانگزیوں کے باوجود بی جے پی کے حصہ میں 14سیٹیں ہی ہیں ، دہلی کی 70سیٹوں میں صرف تین سیٹیں اس کے پاس ہیں ، پانڈیچری کے 30اسمبلی حلقوں میں کسی پر بھی بی جے پی کوکامیابی نہیں حاصل ہوئی ہے ،
این ڈی اے یعنی قومی جمہوری محاذ کی تشکیل 1998میں ہوئی تھی جس کے چیئرمین اٹل بہاری باجپئی تھے تب اس میں 13پارٹیاں شامل تھیں ، 1998سے 2004تک مرکزمیں این ڈی اے کی سرکاررہی بعدمیں کانگریس کی قیادت میں یوپی اے نے پورے دس برس حکومت کی 2014میں این ڈی اے دوبارہ اقتدارمیں آیا اور نریندرمودی وزیراعظم بنے اس وقت تک کچھ اور پارٹیاں بھی اس میں شامل ہوچکی تھیں اور ان کی تعداد13سے بڑھ کر 19ہوگئی تھی ، مگر جوں جوں وقت گزرا اس اتحادمیں انتشارپھیلنے لگااور ایک ایک کرکے کئی پارٹیاں بی جے پی کا ساتھ چھوڑگئیں ، مارچ 2018میں تیلگودیشم این ڈی اے سے الگ ہوئی ، دسمبر 2018راشٹریہ لوک سمتاپارٹی نے بہارمیں این ڈی اے کاساتھ چھوڑدیا ، دسمبر 2018میں بی جے پی کو تب زبردست سیاسی جھٹکالگاجب مدھیہ پردیش ، راجستھان ، اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کے ہاتھوں اسے ہارکا سامنا کرناپڑا ، تلنگانہ میں بھی اسے کوئی کامیابی نہیں ملی ، پھر اکتوبر2019میں ہریانہ اور مہارشٹرمیں الیکشن ہوئے ، ہریانہ میں بی جے پی اپنے طورپر اقتدارمیں تھی جبکہ مہاراشٹرمیں شیوسینا اس کے ساتھ تھی ، ہریانہ میں وہ اکثریت سے دوررہی ، مگر مرکزمیں اقتدارکا فائدہ اٹھاکر اس نے کچھ دوسرے لوگوں سے سازبازکرکے اپنی عزت بچالی لیکن مہاراشٹرمیں اس بارشیوسینا کی سیاسی حکمت عملی بھاری پڑی جس کی وجہ سے وہ سرکارنہیں بناپائی ، ایک بڑا سیاسی جھٹکا تواسے اس وقت لگا جب تمام تر نظریاتی اختلاف کے باوجود کانگریس اور این سی پی نے بی جے پی کو اقتدارسے دوررکھنے کے لئے شیوسینا کو اپنی حمایت دیدی ۔
کانگریس اور این سی پی نے اصولی طورپر شیوسینا کو حمایت دینے کا فیصلہ کرلیا تھا مگر اس سے پہلے کے بات آگے بڑھتی وہاں صدرراج نافذ کردیا گیا جبکہ ریاستی گورنرکو حکومت سازی کیلئے شیوسینا کو وقت دینا چاہئے تھا مگر تھوڑے عرصہ کے بعد اچانک وہاں صدرراج ہٹانے کا اعلان ہوگیا اور آئین وقانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے فڑنویس کو وزیراعلیٰ کاعہدہ دلوادیاگیا ، این سی پی لیڈراجیت پوارکو نائب وزیراعلیٰ بنادیاگیا اوردعویٰ کیا گیا کہ این سی پی نے بی جے پی کی حمایت کردی ہے یہ ساراکام دن نکلنے سے پہلے ہی ہوگیا کابینہ نے صدرراج ہٹانے کی سفارش کی صدرجمہوریہ نے صبح چاربجے اٹھ کراس پردستخط بھی کردیئے اور فڑنویس نے گورنرہاوس جاکر حلف بھی لے لیا مگر سپریم کورٹ کی ہدایت پر اپنی اکثریت ثابت کرنے کے قبل ہی انہوں نے استعفیٰ بھی دیدیا ،بی جے پی شاید اس گمان میں تھی کے فڑنویس کو حلف دلاتے ہی کانگریس شیوسینا اور این سی پی میں پھوٹ پڑجائے گی اور اقتدارکے لالچ میں بہت سے ممبران اسمبلی ان پارٹیوں سے ٹوٹ کر بی جے پی سے آملیں گے مگر ایسانہیں ہوا بی جے پی کی ہرچال ناکام رہی اور وہاں جوکچھ ہوا اس نے بی جے پی اور اس کی سیاست دونوں کو بری طرح برہنہ کردیا ۔
بی جے پی 2014سے اقتدارمیں ہے جس کا اس نے ریاستوں میں بھی ہر ممکن طریقہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے ،گوا اور شمال مشرقی ریاستوں کی تفصیل اوپر آچکی ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ ان ریاستوں میں کیسی چالاکی سے بی جے پی نے اکثریت میں نہیں ہونے کے باوجود اقتدارہتھیالیا ، دراصل اس کے پیچھے مقصدیہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ ریاستوں میں سرکاربناکر یاسرکارمیں شامل ہوکر بی جے پی کے حق میں ایک طرح کی ہوابنائی جائے اور عوام کو اس کے ذریعہ گمراہ کیا جائے لیکن پہلے پنجاب اس کے بعد مدھیہ پردیش ، راجستھان اورچھتیس گڑھ میں ہارکے بعد یہ سلسلہ کسی حد تک رک گیا ہے مگر اب مہاراشٹرمیں جو کچھ ہوا اس کے بعد این ڈی اے میں شامل کچھ دوسری پارٹیوں کو بھی لگنے لگاہے کہ بی جے پی نے انہیں بندھوامزدوربناکررکھاہواہے ، سچائی یہ ہے کہ اپنی حکمرانی کے دائرہ کو بڑھانے کے جنون میں بی جے پی نے سی بی آئی اور ای ڈی کا خوب استعمال کیا ہے۔
کچھ لوگ تو ان دونوں سے ڈرکر ہی بی جے پی کاہمنوابننے پر مجبورہوگئے اور جن لوگوں کو ان سے ڈرایا نہیں جاسکاانہیں لالچ دی گئی ، حال ہی میں این سی پی کے شردپوارکا ایک بیان اخباروں میں آچکاہے جس میں انہوں نے یہ انکشاف کیا ہے کہ وزیراعظم نے انہیں اقتدارکا لالچ دیا تھا، اہم بات یہ ہے کہ وہ اس دام میں گرفتارنہیں ہوئے اور وزیر اعظم و ان کے دست راس امت شاہ کو مہاراشٹرمیں زبردست ہزیمت اٹھانی پڑی اہم بات یہ ہے کہ قوم پرستی کا کارڈ بھی مہارشٹروہریانہ میں ناکام رہا اور رام مندرکے حق میں آئے فیصلہ کا بھی بظاہر کوئی اثرنظرنہیں آیا چنانچہ اب این آرسی اور شہریت ترمیمی بل کا شوشہ چھوڑدیا گیا ہے جن کے ذریعہ اکثریت کو یہ باورکرانے کی دانستہ کوشش ہورہی ہے کہ ان کااصل نشانہ مسلمان ہیں ، بی جے پی ابتداہی سے اکثریت کی بالادستی کی سیاست کرتی آئی ہے اس کا اسے خوب سیاسی فائدہ بھی ہوااور اب وہ ان دونوں ایشوزکے ذریعہ اکثریت کو اپنے حق میں متحدکرکے پورے ملک میں ایک بارپھرفرقہ وارانہ صف بندی قائم کرنے کی دانستہ کوشش کررہی ہے، لیکن بی جے پی کے لوگ قدرت کے اس اصول کو بھول چکے ہیں کہ اگر عروج کو سلیقہ سے سنبھال کر نہ رکھاجائے توزوال طے ہے ، بی جے پی کو عروج توملا مگر وہ اسے سنبھال نہیں سکی شاید یہی وجہ ہے کہ اب دھیرے دھیرے اس کا دائرہ سمٹتاجارہاہے ۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں