بی جے پی میں شامل سادھو سنت سماج کا ایک طبقہ انہیں شبیہ بدلنے کا موقع نہیں دے رہا ہے اور گھوم پھر کر بی جے پی اور مودی سرکار کو مسلم دشمنی کی علامت بنانے پر تلا ہوا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ سادھوی نرنجن، ساکشی مہاراج، سادھوی پراچی اور ایسے متعدد لوگ ہر دن کسی سبب کے بغیر اشتعال پھیلانے اور نفرت کا پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں۔ کوئی دن نہیں جاتا جب بی جے پی کا کوئی سادھو سنت ممبر پارلیمنٹ یا آر ایس ایس میں اس کی دیگر ہمشیر تنظیموں کے لیڈران جیسے پروین ٹوگڑیا، اشوک سنگھل، موہن بھاگوت، رام مادھو کوئی بڑا کھڑک پیدا نہیں کرتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ مودی یا تو سرکار چلائیں یا پھر ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والے لیڈروں پر کارروائی کریں۔ پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے آخری دنوں میں بی جے پی پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ میں وزیر اعظم نریندر مودی نے پارٹی کے کارکنوں کو واضح لفظ میں ہدایت کردی تھی کہ وہ متنازع بیان بازی سے گریز کریں۔ کیونکہ اسی بیان بازی کوبہانہ بنا کر اپوزیشن نے آخری ہفتے کے آخری دو دن اور اس سے قبل ہفتے میں ہفتہ بھر کم از کم راجیہ سبھا کی کارروائی نہیں چلنے دی تھی۔ لوک سبھا میں بھی خوب ہلڑ مچا تھا۔ قانون سازی کا ڈھیر سارا کام ٹھپ پڑ گیا تھا ۔ وزیر اعظم سے جبری تبدیل مذہب پر بحث کے دوران راجیہ سبھا میں موجود رہنے اور بیان دینے کے مطالبے پر اپوزیشن نے پارلیمنٹ ٹھپ کردی۔ ایم وینکیا نائیڈو سمیت بی جے پی کے لیڈران ممبروں سے بار بار اپیل کرتے رہے کہ وہ اجلاس چلنے دیں لیکن ممبران مودی کی حاضری کے بغیر اعوان چلنے نہیں دیناچاہتے تھے اور انہوں نے اجلاس ٹھپ کردیا۔ سرمائی اجلاس کے ختم ہونے کے بعد حکومت کو کچھ بلوں کے منظور نہ ہونے کی بنا پر کام کاج آگے بڑھانے کیلئے آرڈیننس لانا پڑا۔ اس طرح مودی سرکار چھ مہینے میں دس آرڈیننس لا کر مودی سرکار سے آرڈیننس راج میں تبدیل ہوگئی۔ اس کے باوجود سادھو سنت سماج اپنی بہت پرانی ضد، نفرت، حسدکے گھناؤنے جال سے نکل نہیں پایا ہے۔ ساکشی مہاراج صرف سادھو ہی نہیں ہیں وہ اناؤ سے باضابطہ الیکشن لڑ کر لوک سبھا کے ممبر چنے گئے ہیں۔ آئین کی دھجیاں اڑا کر وہ محفوظ نہیں رہ سکتے۔اس کے باوجود ان کا ضدی اور اڑیل رویہ برقرار ہے۔ میرٹھ میں ایک سادھو سنت سماگم مہا اتسو کے دوران ساکشی مہاراج نے مسلمانوں پر چار بیویاں رکھنے اور چالیس بچے پیدا کرنے کا الزام لگایا۔ ہم اس پر قائم ہیں کہ چار بیویوں کا شوہر اور چالیس بچوں کا باپ ایک بھی مسلمان ہندوستان میں تلاش بسیار کی شعوری کوشش کے باوجود نہیں ملے گا۔ کیونکہ مسلمان صرف بیویاں رکھنے کے حوالے سے پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بعض جائزوں میں یہ کہا جارہا ہے کہ مسلم گھرانوں میں شرح پیدائش بہت تیزی سے گھٹی ہے۔ مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ بھی برائے نام ہے، لیکن پروپیگنڈہ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا اور پروپیگنڈہ کرنے والے ہیں کہ اپنی ضد سے ہٹنے کو تیار بی جے پی کے ترجمان نرسمہا راؤ نے سید شاہ نواز حسین نے اور کئی لیڈروں نے اس کا اعلان کیا کہ ہر ہندو عورت کو کم از کم چار بچے پیدا کرنے کی ترغیب دینے پر ساکشی مہاراج کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا گیا ہے لیکن یہ ساکشی مہاراج یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ان کے نام نوٹس جاری کیا گیاہے۔ ڈھٹائی کا یہ عالم یہ ہے کہ ساکشی مہاراج نے کہا کہ مان بھی لیں کہ نوٹس جاری کیا گیا تو یہ میرا اور پارٹی کا داخلی معاملہ ہے میڈیا کو اس سے کیا غرض؟ ساکشی مہاراج بنیادی بات بھول رہے ہیں کہ قانون کی اپنی گرفت ہوتی ہے ۔ اگر حکمران ٹولے کے ساتھ ان کا نباہ نہیں ہورہا ہے تو وہ سماج سے اپنا یہی نفرت بھرا مکالمہ جاری رکھنے کیلئے پلیٹ فارم بدل لیں۔ حکومت اپنے آپ کو سیکولر کہلانے اورمنوانے کیلئے پارلیمنٹ میں باربار بیان دے رہی ہے اور پارلیمنٹ کے باہر پارلیمنٹ کا ہی ایک سادھو سماج کا نمائندہ بی جے پی ممبر ہندوستان کے سیکولر جمہوری تشخص کو ماننے سے انکارکرتا ہے۔ تو کہیں نہ کہیں اس کا ٹکراؤ سماج سے سیکولرزم سے اور سیاسی لیڈران سے ضرور ہوگا۔ ساکشی مہاراج کے خلاف نوٹس کاخیرمقدم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن نوٹس پر جو رویہ ساکشی مہاراج نے اپنایا ہے اس کاتقاضا ہے کہ ساکشی مہارج کومزید سخت سزا دی جائے۔ اناؤ کوئی ایسا علاقہ نہیں جہاں فرقہ پرستی کی فصل پیدا ہو۔ مذہبی جنون پرست ہر علاقے میں ہوتے ہیں، ہر فرقے میں ہوتے ہیں اور ہر دور میں ہوتے ہیں۔ سماج اپنے ذمہ دارانہ طرز فکر سے ان کے گندے منہ پر لگام ڈال کر رکھتاہے۔ گالیاں دینے والے، نفرت اگلنے والے لیڈران اس لائق نہیں ہیں کہ ان کے ساتھ عزت اور تعظیم کا سلوک کیا جائے، ان کی سہی جگہ سلاخوں کے پیچھے ہے انہیں جیل بھیجنے سے گریز کرکے مودی سرکار اپنا کوئی بھلانہیں کرے گی۔ نریندر مودی کو اور بی جے پی کواچھی طرح سے معلوم ہے کہ نفرت کے کارو بار میں جتنا فائدہ ہوناتھا ہوچکا اب تو ہر لفظ اور ہر لمحہ گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔ اس لئے قانون کی حاکمیت اور آئین کی عمل داری پر توجہ دینا ضروری ہے، ساکشی مہاراج کو بی جے پی کی بنیادی ممبر شپ سے نکالا جائے ان کے خلاف فوجداری مقدمہ کیا جائے، اور لوک سبھا کی رکنیت کیلئے نااہل قرار دیاجائے۔
جواب دیں