انھوں نے جموں وکشمیر سے دفعہ ۳۷۰ کے خاتمے، یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کے سوال سے بھی بچنے کی کوشش کی۔ یہ تمام وہ ایشوز ہیں جن کا استعمال بی جے پی نے شدت پسند ہندو ووٹ کے حصول کے لئے کیا ہے۔ ہر انتخاب میں یہ موضوعات اس کے مینی فسٹو کا حصہ رہے ہیں مگر اب جب وہ اقتدار میں ہے اور مکمل اکثریت کے ساتھ پاور میں آئی ہے تو ایسی شرطیں رکھ رہی ہے جن کا پورا ہونا ممکن نہیں لگتا۔ اس نے اقتدار میں سال پورا کرلیا ہے اور اپنے متنازعہ ایشوز کی جانب ایک قدم بھی نہیں بڑھایا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اب پوچھا جارہا ہے کہ رام مندر، دفعہ ۳۷۰ اور کامن سول کوڈ کے سوال پر وہ کبھی سنجیدہ بھی رہی ہے ؟آر ایس ایس کے اشاروں پر چلنے والی بی جے پی اپنے سنگھ کے پرانے ایجنڈے سے ہی بھاگتی دکھائی دے رہی ہے۔
امت شاہ کی شرط
آج جب بی جے پی اپنی حکومت کے ایک سال مکمل ہونے پر جشن منا رہی ہے اس بیچ پارٹی صدر امت شاہ نے کہا ہے کہ اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر جیسے اہم مسائل کو حل کرنے کے لئے پارٹی کو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت چاہئے۔ شاہ نے مودی حکومت کے ایک سال مکمل ہونے کے موقع پرراجدھانی میں پارٹی ہیڈکوارٹر میں منعقد پریس کانفرنس میں یہ بات کہی۔ ان سے پوچھا گیا تھا کہ مودی حکومت کے ایک سال ہونے کے باوجود پارٹی اہم امور پر کوئی پیش رفت نہیں کرسکی ہے۔ بی جے پی صدر نے کہا کہ اہم معاملات کو حل کرنے کے لئے پارٹی کو لوک سبھا میں دو تہائی اکثریت یعنی 370سیٹیں چاہئیں۔خیا ل رہے کہ بی جے پی کے اہم انتخابی وعدوں میں دفعہ 370کو ختم کرنا ، ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنا اور اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر کرنا شامل ہے۔پارٹی پر الزامات لگائے جارہے ہیں کہ اقتدار میں رہنے کے لئے اس نے ا ن موضوعات کو سرد بستے میں ڈال دیا ہے ۔بی جے پی کے صدر امت شاہ نے کہا تھا کہ دو تہائی اکثریت نہیں ہونے کی وجہ سے رام مندر اور دفعہ 370 جیسے مسائل پر حکومت کچھ ٹھوس پہل کرنے میں ناکام ہے۔حالانکہ دوسرے ہی دن انہوں نے اپنی ہی بات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مندر معاملے پر ان کی پارٹی پیچھے نہیں ہٹی ہے اور صحیح وقت پر اس بارے میں فیصلہ کر لیاجائے گا۔شاہ نے کہا کہ ہم رام مندر کے معاملے پر بالکل بھی پیچھے نہیں ہٹے ہیں۔پارٹی صحیح وقت پر فیصلہ لے گی۔ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التواء ہے۔ جب بھی عدالت کا فیصلہ آئے گا اور جیسا کہ پارٹی نے پہلے کہا تھا کہ ہم فیصلے کی پیروی کریں گے اور تمام کو اس کا احترام کرنا چاہئے۔شاہ نے مزید کہا، ہمارا یہ بھی ماننا ہے کہ رام مندر کی تعمیر کا ایک اور طریقہ تمام فریقوں کے ساتھ بات چیت کر مسئلے کو حل ہے۔ ہم عدالت کے باہر اس معاملے کا حل نکال سکتے ہیں۔ ہمارے لئے دونوں راستے کھلے ہیں۔غور طلب ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے 10 مئی کو اجودھیا میں دیے گئے بیان سے ہندو سنت ناراض ہو گئے تھے۔شنکراچاریہ سوروپانند سرسوتی نے تب ایک اسٹیج سے کہا تھا کہ سنت سماج بغیر حکومت کی مدد کے ہی مندر تعمیر کرنے کے قابل ہے۔
مایوسی میں اضافے کا سال
اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ کیا کسی پارٹی کو بھارت میں ۳۷۰ لوک سبھا سیٹیں مل سکتی ہیں؟ وہ پارٹیاں جو ہر طبقے کو ساتھ لے کر چلتی ہیں انھیں بھی اس قدر سیٹیں ملنا ممکن نہیں ہے جب کہ بی جے پی تو صرف ہندووں کی پارٹی ہونے کی دعویدار ہے اور ملک کے بیشتر ہندو اس کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتے بلکہ سیکولر سوچ رکھتے ہیں۔مرکز میں آئے ہوئے اسے ایک سال ہوچکے ہیں مگر وہ ہندووں سے کئے ہونے وعدے بھی پورے کرنے میں ناکام رہی ہے چہ جائیکہ عام شہری اس کے کام کاج سے مطمئن ہوسکیں۔ ایسے میں وہ ۳۷۰ لوک سبھا سیٹیں کیسے جیت سکے گی؟ مودی حکومت کو ایک سال مکمل ہونے پر وزیر اعظم سمیت تمام وزیر حکومت کی کامیابیاں گنوا رہے ہیں۔وہیں اپوزیشن مودی حکومت کو ناکام بتا رہا ہے۔ حکومت پر سب سے زیادہ حملے تو اہم اپوزیشن پارٹی کانگریس کی جانب سے ہو رہے ہیں۔ کانگریس نائب صدر راہل گاندھی اسے سوٹ بوٹ کی سرکار بتا رہے ہیں جو وزیر اعظم کے اوپر سیدھا حملہ ہے جنھوں نے امریکی صدر کے دورہ ہند کے بیچ دس سال کا سوٹ پہنا تھا۔ یہ کسی غریب ملک کے وزیر اعظم کا فاقہ کش عوام کے منہ پر زبردست طمانچہ تھا۔وزیر اعظم نے اپنا اچھا خاصا وقت بیرون ملک کے دورے میں صرف کیا مگرکانگریس لیڈر آنند شرما کے مطابق وہ خارجہ پالیسی میں بری طرح ناکام رہے ہیں اور خاص طور پر بھارت کے تعلقات خلیج کے ممالک سے خراب ہوئے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عالمی منڈی میں خام تیل کے دام گرنے کے باوجود پٹرول ڈیزل مہنگے ہیں۔ وہیں کانگریس کے سابق وزیر قانون نے مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی کو بڑبولا بتایا۔ انہوں نے کہا کہ، بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں جیٹلی صاحب ۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے افراط زر پر قابو پایا ہے۔ میں جیٹلی سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا آپ کبھی نارتھ بلاک کی پہلی منزل سے باہر نکلے ہیں؟ کیا آپ مارکیٹ گئے ہیں؟ نارتھ بلاک میں بیٹھنے والا شخص مارکیٹ کے بارے میں کیا جانے؟سبل نے نریندر مودی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ، انہوں نے’’ سال ایک کام کئی ‘‘کا نعرہ دیا، لیکن حقیقت یہ ہے ’’سال ایک، باتیں بہت‘‘بس یہی ہوا ہے۔ گزشتہ ایک سال میں مودی 53 دن خارجہ سفر پر رہے اور بھارت کا 48 دن کا سفر کیا۔ کسی بھی وزیر اعظم نے بیرون ملک سفر پر رہتے ہوئے کبھی ہندوستان کی تنقید نہیں کی، لیکن مودی نے ایسا کیا۔
مودی سرکار کے ایک سال پورا ہونے پر کانگریس اور اپوزیشن کی جانب سے جو باتیں کہی گئی ہیں انھیں اپوزیشن کی تنقید کہا جاسکتا ہے لیکن اگر عوام اور صنعت کاروں کی رائے دیکھی جائے تو بھی ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے کام کاج کے بارے میں لوگوں کے خیالات اوسطہیں۔ اب تک جو سروے آئے ہیں ان سے سرکار کے تئیں بہت زیادہ مایوسی نہیں جھلکتی ہے اور وہ موجودہ سرکار کو کام کرنے کا ابھی اور موقع دینا چاہتے ہیں مگر جس تیزی سے مایوسی بڑھ رہی ہے اس سے تو لگتا ہے کہ دوسال پورے ہوتے ہوتے ابھی عوام کی ناراضگی اور بڑھے گی۔ حالانکہ کام کا یہی انداز رہا تو اگلے لوک سبھا الیکشن میں یقینی طور پر اس کی سیٹوں میں کمی آجائے گی جب کہ امت شاہ کا کہنا ہے کہ جب تک ۳۷۰ سیٹیں نہیں ملیں گی وہ رام مندر اور دفعہ ۳۷۰ جیسے ایشوز پر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے ہیں۔
اس سے زیادہ سیٹیں نہیں مل سکتیں
گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کو لوک سبھا میں اکثریت ملنے کے بہت سے اسباب تھے جن میں سے ایک تھا میڈیا کا مودی حامی رویہ، نیز کانگریس سرکار کے تئیں عوامی ناراضگی۔ بی جے پی کو ۳۷۰ سیٹوں پر کامیابی پانے کے لئے پورے ملک سے تمام پارٹیوں کا خاتمہ کرنا پڑے گا اور شمال سے جنوب تک، مشرق سے مغرب تک ہر جگہ اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنا پڑے گا جس کے امکانات بالکل نہیں ہیں۔ اس کی امیج ایک ہندتووادی پارٹی کی ہے اور اس امیج میں رہتے ہوئے اسے جو سیٹیں مل گئی ہیں، شاید آگے کبھی ممکن نہ ہو۔ ایسے میں ہندتو وادی ووٹروں کو مان لینا چاہئے کہ بی جے پی کے بس کی بات نہیں کہ وہ رام مندر تعمیر کرائے یا دفعہ ۳۷۰ کا خاتمہ کرے۔وہ ایک موقع پرست پارٹی ہے اور اس نے جموں وکشمیر میں اقتدار کے مزے لوٹنے کے لئے ایک ایسی پارٹی کے ساتھ حکومت بنانا قبول کیا ہے جو دفعہ ۳۷۰ کو حذف کرنے کے خلاف ہے۔نیشنل کانفرنس کے لیڈر فاروق عبداللہ نے بجا طور پر کہا ہے کہ کسی میں ہمت نہیں کہ وہ اس دفعہ کو چھیڑ سکے۔
بی جے پی اگر زیادہ سیٹیں لانا چاہتی ہے تو اسے اپنے خول سے باہر آنا پڑے گا اور متنازعہ ایشوز سے بیزاری کا اظہار کرنا پڑے گا۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب وہ ملک کے ہر طبقے کو ساتھ لے کر چلے۔ وہ نعرہ تو دیتی ہے ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘مگر عملی طور پر وہ ایسا نہیں کر رہی ہے۔ اس کے لیڈران پورے ملک میں گھوم گھوم کو اقلیتوں کو دہشت زدہ کر رہے ہیں اور پارٹی ایسے لیڈران کو عزت دے رہی ہے۔خود مودی کی امیج بھی انھیں دہشت زدہ کرنے کے لئے کافی ہے۔ گجرات کا وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے انھوں نے جو انداز اختیار کیا تھا وہ کسی جمہوری ملک میں پسندیدہ نہیں ہوسکتا۔(یو این این)
جواب دیں